آج کی تاریخ

مکافات عمل

تحریر:طارق قریشی (مسافر)

رب کریم نے قرآن پاک میں فرمایا کہ ’’ہم ( اللہ رب کریم ) انسانوں کے درمیان دنوں کو پھیرتے رہتے ہیں‘‘ اس ایک جملے پر غور کریں تو ہزاروں سال پر محیط بنی نوع انسان کی تاریخ کا مکمل احاطہ ہو جاتا ہے۔ کس طرح رب کریم نے طاقتور ترین لوگوں کو عبرت کا نشان بنا ڈالا اور کس طرح مجبور و محقور لوگوں کو حکمرانی کے درجے پر فائز کر دیا۔ ہزاروں سال کی عالمی تاریخ تو ایک طرف‘ وطن عزیز پاکستان کی 75 سالہ تاریخ پر ہی اگر نظر ڈالیں تو اللہ رب کریم کے اس ارشاد کی مکمل تصویر سامنے آ جاتی ہے۔ زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے مختلف افراد جو اپنی اپنی جگہ طاقت و اقتدار کا منبع سمجھے جاتے تھے جب اللہ نے ان کے دنوں کو پھیرا تو نہ طاقت رہی نہ دولت نہ اقتدار اور نہ ہی شہرت۔ دنوں کے پھرتے ہی ایسے کئی افراد شہرت کے آسمان سے گمنامی کی گہری کھائی میں گم ہو گئے۔ ایسے گم ہوئے کہ آج کوئی ان کا نام بھی لے تو لوگ نہ پہچانیں۔ تکبر اور غرور انسانی جبلت کا خاصہ ہیں‘ دنیا بھر میں موجود تمام مذاہب وہ آسمانی ہوں یا انسانوں کے خود ساختہ‘ ان میں انسانوں کو جہاں اس برائی سے بچنے کی تلقین بھی کی گئی ہے اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی بیان کیا گیا کہ تکبر اور غرور کے باعث انسان شدید خسارے کا شکار ہو جاتا ہے۔
دین اسلام میں تو تکبر اور تفاخر کو صرف اور صرف رب کریم کی ذات سے ہی منسوب کئے جانے کی تعلیم دی گئی ہے۔ اس کے باوجود پاکستان میں ایک عام آدمی سے لے کر حکمران طبقے میں شامل افراد کی اکثریت تکبر و تفاخر کے مرض میں مبتلا نظر آتی ہے۔ زیادہ پرانی بات نہیں کہ ہم اور ہماری عوام کی یادداشت بڑی خراب ہے۔ پرویز مشرف سے لے کر عمران خان تک دو دہائیوں کے عرصے میں کس طرح ہر حکمران نے اقتدار سنبھالتے ہی ملک و قوم کے حالات میں بدلائو لانے کی بجائے اپنی ذات میں تبدیلی لائی پھر تکبر و تفاخر کے مرض میں مبتلا ہونے پر کیسی کیسی ذلت رسوائی کا سامنا کیا وہ اپنی مثال آپ ہے مگر وہی بات کہ رب کریم نے قرآن پاک میں فرمایا کہ یہ نشانیاں ہیں غور کرنے اور عقل و شعور رکھنے والوں کیلئے۔ اب ملک عزیز میں وہ حکمران ہی کیا جو حکمران بننے کے بعد بھی اپنی عقل و فہم کو قائم رکھ سکے۔ یہاں تو ہر حکمران نے یہی سمجھا کہ حکمرانی صرف اور صرف اس کا حق تھا جو اسے مل گیا اور اب یہ حکمرانی قائم دائم بھی رہے گی‘ میرے پاس ہی رہے گی۔ دوسری طرف اللہ رب کریم کا واضح فرمان کہ دائم صرف اللہ رب کریم کی ذات ‘ انسان کی نہ زندگی دائم ‘نہ حکمرانی‘ نہ دولت‘ نہ طاقت۔ اسی لئے رب کریم کا واضح اعلان ہے کہ ’’ہم ( اللہ رب کریم ) انسانوں کے درمیان دنوں کو پھیرتے رہتے ہیں۔
دن اسی طرح تبدیل ہوتے ہیں جس طرح پرویز مشرف اور نواز شریف کے تبدیل ہو گئے تھے۔ پرویز مشرف بھی پاکستان پر حکمرانی کا حق اپنی ذات کیلئے ہی سمجھتے تھے انہیں اپنی عقل و دانش کے ساتھ ساتھ اپنی وردی کی طاقت پر اتنا ناز تھا کہ وہ تو وہ ان کے پرویز الٰہی جیسے گماشتے بھی دس مرتبہ ان کو اقتدار دلانے کی بات کرتے تھے۔ بس ذرا دن تبدیل ہوئے تو اقتدار دور کی بات ان کے لئے اپنے گھر میں رہنا بھی ناممکن ہو گیا۔ اپنی دانست میں اپنے آپ میں طاقت کے گھمنڈ میں مبتلا پرویز مشرف دنوں کے اس پھیر میں ایسا گرفتار ہوا کہ پھر زندہ اپنے گھر واپس نہ آ سکا۔
نواز شریف بھی اسی طرح عوامی مقبولیت اور اپنی دولت کے گھمنڈ میں یہی سمجھتے رہے کہ ہر ادارہ اور اس میں بیٹھے تمام افراد میرے اور صرف میرے ہی وفادار ہیں۔ اور میرا اقتدار بھی دائمی ہی ہے مگر ہوا سب کچھ اس کے برعکس۔ نہ اقتدار باقی رہا نہ گھر میں رہنا نصیب میں ہوا۔ جتن نے قید سے تو نکال دیا مگر گھر واپسی کی منزل ابھی تک نظر نہیں آ رہی۔ اپنے پیارے کپتان تو سب سے آگے نکل گئے۔ مانگے تانگے کی مقبولیت اور طاقتور لوگوں کی نظر کرم سے اقتدار پر پہنچے تو بس پھر اقتدار ہی کو اپنا دائمی حق بنا لیا۔ منصوبہ سازی شروع ہو گئی کہ 2023ء اور پھر 2028ء کا اقتدار تو جھولی میں ہی ہے۔ طاقت کے اس گھمنڈ نے نہ زبان درست رہنے دی نہ ہی دماغ ۔ بس پھر قانون قدرت عمل میں آیا۔ پہلے اقتدار رخصت ہوا پھر احباب رخصت ہوئے اور اب منزل اٹک جیل۔ امریکہ میں جلسہ عام میں اپنے مخالفوں کو جیل میں ڈالنے اور انہیں رونے پر مجبور کرنے والا آج اٹک جیل میں اپنے لئے سہولیات‘ اچھے کھانے‘ صاف کمرے‘ گھر والوں سے ملاقات کی بھیک مانگ رہا ہے۔ ایک چادر میں سونے کا دعویٰ کرنے والا آج جیل میں بیڈ اور ایئر کنڈیشنر‘ ٹی وی‘ اخبار کی دہائیاں دے رہا ہے ابھی تو اڑتالیس گھنٹے بھی نہیں گزرے کہ میرے کپتان کی دہائیاں چینلز پر آنا شروع ہو گئی ہیں۔ ریاست مدینہ کا نعرہ اور ’’ایاک نعبد وایاک نستعین‘‘ کا ورد کرنے والا اپنی سہولیات کیلئے حکومت اور عدالت سے بھیک مانگ رہا ہے۔ بے شک یہ سب نشانیاں ہیں عقل و شعور رکھنے والوں کیلئے اور بے شک اللہ رب کریم انسانوں کے درمیان دنوں کو پھیرتا رہتا ہے۔

شیئر کریں

:مزید خبریں