تحریر : طارق قریشی (مسافر)
پنجاب میں روایتی سیاسی گھرانے تقریباً انہی خاندانوں پر ہی مشتمل ہیں جن کے آبائواجداد نے ہندوستان میں مسلمان بادشاہت کے بعد اپنی چالاکیوں اور دو نمبریوں سے خطابات بھی وصول کئے اور جاگیریں بھی پائیں۔ انتہائی تکلیف دہ ظلم تو یہ ہے کہ جب رنجیت سنگھ اپنی حکومت کے دوران کھلے عام مسلمانوں اور ان کی عبادت گاہوں کو نشانہ بنا رہا تھا تو پنجاب کے ان روایتی سیاستدانوں کے آبائو اجداد کی اکثریت رنجیت سنگھ کے ساتھ وفاداری نبھا رہی تھی۔ ہماری خود ساختہ تاریخ میں جب رنجیت سنگھ کے مسلمانوں پر مظالم کا ذکر کیا جاتا ہے ۔نہ تو ان وفادار خاندانوں کا بتایا جاتا ہے اور نہ ہی یہ ذکر کیا جاتا ہے کہ رنجیت سنگھ کے دربار میں سب سے طاقتور شخصیت جسے وزیر اعظم کا درجہ بھی حاصل تھا پنجاب کے مسلمان خاندان سے تعلق رکھنے والا فقیر عزیز الدین ہی تھا۔ فقیر خاندان کی رنجیت سنگھ سے وفاداری اور صلے میں ملنے والے انعام و اکرام آج بھی لاہور میں واقع ان کی حویلی فقیر خانہ میں گواہی کیلئے موجود ہیں۔ پنجاب کے ان سکھ اور انگریز حکمرانوں کے وفادار خاندانوں میں ہمارے ملتان کے بہاءالدین زکریا ملتانی کے قبضہ گروپ مجاور خاندان کی بھی اچھی خاصی نمایاں حیثیت رہی ہے اور ان دنوں اس خاندان کی سربراہی مخدوم شاہ محمود حسین قریشی کے زیر قبضہ ہے۔ ہمارے ان ملتانی مودی کے خاندان کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ پنجاب کے دیگر خاندانوں نے تو سکھ اور انگریز حکمرانوں سے خلعت اور جاگیریں ہی حاصل کیں مگر ملتانی مودی کے بزرگوں نے انگریز حکمرانوں سے اپنی وفاداری کی قیمت میں اپنا شجرہ نسب ہی تبدیل کرایا۔
بہاء الدین زکریا کے خاندان سے تعلق رکھنے والی دو غیر شادی شدہ خواتین جن کا نام راجی بی بی اور مانو بی بی تھا دربار کے احاطے میں ہی مقیم تھیں جبکہ مرد ورثاء میں سے اکثریت سکھ حکمرانوں کے مظالم سے بچنے کیلئے سندھ اور ہندوستان کے دیگر علاقوں میں پناہ لینے پر مجبور ہو گئے تھے۔ ان دونوں غیر شادی شدہ خواتین کی ایک خدمت گار بچی انہی کے ساتھ ہی رہتی تھی۔ اس خدمتگار بچی کا نکاح راجی بی بی اور مانو بی بی نے ہمارے ملتانی مودی کے جد امجد حسن بخش کے ساتھ کر دیا تھا ۔ سکھ دور حکومت میں دربار بہاء الدین زکریا اور شاہ رکن عالم کی سجادہ نشینی ان دونوں خواتین راجی بی بی اور مانو بی بی کے پاس ہی تھی۔ ملتانی مودی کے جد امجد حسن بخش واحد مرد تھے جو دربار کے خادم صاحب بھی تھے اور ان دونوں خواتین کے نمائندہ بھی۔ اس حوالے سے حسن بخش کو رنجیت سنگھ کے گورنر ملتان ساون مل اور ان کے بیٹے سومراج تک بھی رسائی حاصل تھی۔ دونوں سجادہ نشین خواتین کی خادمہ سے شادی کے نتیجے میں حسن بخش کے ہاں ایک بیٹے کی پیدائش ہوئی اس کا نام شاہ محمود رکھا گیا۔ شاہ محمود جو بعد میں شاہ محمود اول کا درجہ پائے۔ اپنی دو نمبریوں اور چالاکیوں میں بے مثل حیثیت کے حامل تھے۔ انگریزوں کے باقاعدہ حملہ آور ہونے سے پہلے شاہ محمود اول یا پھر سینئر نے سکھ گورنر سے اپنے معاملات درست رکھے مگر جیسے ہی انگریز فوج نے ملتان پر حملہ کیا تو شاہ محمود سینئر نے اپنی وفاداریاں تبدیل کر کے انگریز حملہ آوروں سے وابستہ کر لیں۔ اسی دوران راجی بی بی اور مانو بی بی کا انتقال ہو گیا۔ اپنے انتقال سے قبل مانو بی بی نے اپنی وصیت تحریر کرائی جو آج بھی تاریخ کی کتابوں میں محفوظ ہے ۔ اس وصیت کے مطابق سجادہ نشینی کی سند پر ان کے بعد بہاء الدین زکریا کے خاندان میں سے شیخ صدرالدین محمد ولد شیخ عماد الدین محمد نے فائز ہونا تھا۔
شیخ صدر الدین محمد کے بزرگان سکھ حکمرانوں کے ظلم و ستم سے بچنے کیلئے ریاست بہاولپور میں پناہ لینے پر مجبور ہو گئے تھے اس لئے شیخ صدر الدین محمد بہاولپور میں ہی مقیم تھے۔ مانو بی بی اور راجی بی بی کے انتقال کے بعد حسن بخش اور اس کے بیٹے شاہ محمود سینئر نے ان خواتین کے انتقال اور اس وصیت نامے کو شیخ صدر الدین محمد اور ان کے خاندانوں سے چھپائے رکھا اور طرح دربار بہاء الدین زکریا و شاہ رکن عالم کا انتظام سنبھال لیا۔ یہ سکھ دور حکومت کے آخری ایام تھے۔ انگریزی افواج کے ملتان پر قبضہ کے موقع پر شاہ محمود سینئر نے دامے درمے سخنے انگریزی افواج کی مدد کی اس خدمت کے عوض حسن بخش اور اس کے بیٹے شاہ محمود کو انگریز حکمرانوں نے دربار حضرت بہاء الدین زکریا کا باقاعدہ سجادہ نشین بھی مقرر کر دیا جبکہ آگے چل کر جنگ آزادی میں مسلمان مجاہدین کے خلاف انگریزی افواج کی بھرپور مدد کرنے پر اس خاندان کو جاگیریں، خلعت حتہ کہ نوابی بھی عطا کر دی گئی۔ دو نمبری اور جعلسازی سے آغاز کرنے والے ملتانی مودی کے خاندان کی یہ ہوشیاریاں اور چالاکیاں آج بھی جاری ہیں۔
جنرل ضیاء الحق کے دور میں 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات سے قبل ہمارے محبی ملتانی مودی اپنا ضلع کونسل ملتان کے کونسلر کا انتخاب بھی بری طرح ہار گئے تھے اور بظاہر ملتان ضلع میں اس خاندان کی سیاست کا کوئی مستقبل نظر نہیں آ رہا تھا مگر کاریگری کا نسل در نسل تجربہ رکھنے کے باعث ملتانی مودی کے والد سید سجاد حسین قریشی نے ایسے دائو پیج کھیلے کہ موصوف نے گیلانی خاندان کے اس وقت کے سربراہ حامد رضا گیلانی کو ساتھ ملا کر ملتانی مودی کو صوبائی اسمبلی کا ممبر اور پھر نواز شریف کی کابینہ میں بھی صوبائی وزیر بنوا لیا اور اس کے ساتھ ساتھ گیلانی گروپ ہی کے ووٹوں کے ذریعے پہلے سینیٹ کی رکنیت اور بعد میں سندھ کارڈ کا استعمال کرکے ڈپٹی چیئرمین سینٹ کے عہدے سے ہوتے ہوتے گورنر پنجاب بن گئے۔
وہ دن اور آج کا دن ملتانی مودی اپنی دو نمبریوں کے ذریعے کبھی نواز شریف کے ساتھ وفاداری تو کبھی بے نظیر بھٹو اور آصف زرداری کے ساتھ وفاداری کا ڈرامہ کر رہے ہوتے ہیں۔ ملتانی مودی اب تازہ ترین واردات عمران خان کے ساتھ کرنے کی تیاری میں نظر آ رہے ہیں۔ اپنی دو نمبریوں سے عمران خان کو شیشے میں اتار کر موصوف پارٹی کی صدارت تو حاصل کر ہی چکے ہیں مگر پارٹی میں اراکین کی اکثریت ان کی دو نمبریوں سے بخوبی واقف ہے اس لئے تاحال ان کی دال گل نہیں رہی۔ گذشتہ روز عمران خان کی سزا اور نااہلی پر موصوف نے ایک ویڈیو بیان جاری کیا جس میں ہمارے ملتانی مودی قوم سے اپیل کر رہے ہیں کہ ساری قوم اپنے بچوں سمیت سڑکوں پر نکلے اور احتجاج کرے اب کون موصوف کو سمجھائے کہ قوم تو جب نکلے گی نکلے گی آپ تو پہلے اپنی ٹکٹ ہولڈر اولاد اور خاندان کے دیگر ٹکٹ ہولڈر افراد کے ساتھ سڑکوں پر نکلیں آپ کو دیکھ کر قوم بھی باہر نکل آئے گی۔ گھر میں چھپ کر ایک طرف اسٹیبلشمنٹ سے نامہ و پیام کی کوشش کی جا رہی ہے دوسری طرف آئندہ انتخابات میں اپنے دستخطوں سے تحریک انصاف کے ٹکٹ جاری کرنے کیلئے دو نمبری کے ذریعے ویڈیو پیغامات جاری کئے جا رہے ہیں۔ تاریخ خود کو دہرا رہی ہے، بالکل اسی طرح جیسے شاہ محمود سینئر ایک طرف سکھ گورنر سے مراسم رکھے ہوئے تھے اور دوسری طرف انگریزی فوج کے استقبال کیلئے تیاریوں میں مصروف تھے۔ خادم سے مخدوم اور پھر سیاسی حکمرانوں کے کبھی جوتے اٹھا کر تو کبھی حکمرانوں کے بچے کھلا کر ملتانی مودی اور ان کے خاندان کی دو نمبریوں کی داستان دو صدیوں پر محیط ہے اور پاکستان جیسے حالات میں یہ سلسلہ فی الحال تو جاری رہتا ہوا نظر آ رہا ہے۔