تحریر:ڈاکٹر ظفر چوہدری (روداد)
میں نے پچھلے کالم میں اس موضوع پر آخری قسط لکھی تھی۔ دوستوں اور کلاس فیلوز کی طرف سے کمنٹ اور ٹیلی فونک گفتگو کے بعد میں نے سمجھا کہ وہ باتیں میں جو آنے والے کالمز میں لکھنا چاہتا تھا وہ ان کے جواب میں ابھی ہی لکھنی چاہیں۔
بھٹو صاحب کے چارعدد نعروں کو بنیادبنا کر 71کی جنگ میں شکست کی ذمہ داری ڈالی گئی اس پر افسوس اور پھر ہنسی بھی آتی ہے کہ ہماری نسل کےمحض سرِ آئینہ ہی دیکھتے ہیں۔ پس آئینہ جاننے کی کوشش ہی نہیں کرتے۔ میں نے بھٹو صاحب کی آخری کتاب جو انہوں نے جیل میں لکھی یعنی افواہ اور حقیقت بہت پہلے تھوڑی بہت پڑھی تھی پھراِس پر سخت پابندی عائد کر دی گئی۔ اب انٹرنیٹ کی بدولت دوبارہ دیکھنے کا اتفاق ہوا تو اس میں زیادہ تر اسد اللہ مینگل جو عطا ء اللہ مینگل کے بیٹے تھے، کے قتل میں کیسےمنصوبے کے تحت بھٹو کو ملوث کیا گیا۔ کہ خود عطاء اللہ مینگل بھی شروع میں اسی پر کامل یقین رکھتے رہے بعد میں انہیں اصل حقائق کا پتہ چل گیا کہ کس طرح خفیہ ایجنسیوں نے اسے اٹھایا اور قتل کرنے کے بعد لاش بھی ورثا کو نہیںمل سکی۔ اِسی طرح بینظیر بھٹو اور نصرت بھٹو صاحبہ کی کردار کشی بھی منظم طریقہ سے کی گئی۔ بینظیر بھٹو کی شادی کے معاملہ میں کیا کیا افواہیں نہ پھیلائی گئیں۔ ایک واقعہ جو مجھے سندھی دوستوں نے سنایا تھا اور پھر چوہدری یٰسین مرحوم صاحب نے اس کی تصدیق بھی کی کہ نصرت بھٹو کی اپنی بیٹی کا رشتہ سندھ کے سید خاندان کے بیٹے جو کہ سی ایس پی آفیسر تھے شاید کسٹم میں تھے کے ساتھ بات چل رہی تھی اور بینظیر بھٹو صاحبہ بھی راضی ہو چکی تھیں۔ سید خاندان کو اس وقت طاقتور ترین بریگیڈیئر اامتیاز جسے امتیاز بلا کہا جاتا تھا کے ذریعے اتنا خوفزدہ کیا گیا کہ وہ شادی سے انکاری ہو گئےیہ اچھا ہی ہوا کیونکہ بینظیر بھٹو سے شادی کسی کمزور دل آدمی کے بس کی بات نہیں تھی۔ جب بی بی بینظیر کی آصف علی زرداری سے شادی رازداری سے ہونا قرار پائی تو آصف زرداری نے جو حلف دیا تھا جسے انہوں نے بڑی دلیری اور استقامت کے ساتھ زندگی نبھایا۔ جو کہ نکاح کی تقریب میں محترمہ بینظیر کی سہیلیوں کی گفتگو میں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ بینظیر بھٹو اعلیٰ علمی خاندانی پس منظر کے علاوہ بہت بہادر خاتون تھیں۔ شادی کے بعد آصف علی زرداری کی طرف سےکردار کشی کے لیے آسان حدف تھے۔ آصف علی زرداری حاکم علی زرداری کے بیٹے تھے جو زرداری قبیلہ کے سردار ہونے کے علاوہ سندھ کے صاحب حیثیت اور بااثر لوگوں میں شمار ہوتے تھے۔ ان کی پہلی بیوی مدرسہ اسلام کراچی کے بانیوں کی اولاد میں سے تھیں اور دوسری بیوی معروف براڈ کاسٹر زیڈ اے بخاری کی بیٹی تھیں جو اس زمانے کابہت بڑا نام تھا۔ ان کے دو سینما، الاصف سکوائر کی بلڈنگ لندن میں 9 عدد فلیٹ بھی موجود تھے۔ مگر اسے ٹکٹ بلیک کرنے والا بنا کر میڈیا میں پیش کیا گیا اور بھٹو کے ازلی مخالفین کے علاوہ عام آدمی بھی روز روز پھیلائی گئی ان افواہوں سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ اِسی طرح بینظیر بھٹو کو (الذوالفقار نامی تنظیم جس میں مرتضی بھٹو کو ٹیپو نامی ایجنٹ کے ذریعہ پھنسایا گیا تھا) کا سرپرست بتایا گیا حالانکہ بینظیر بھٹو کا اس بارے میںواضح بڑا موقف تھا کہ برصغیر میں ہر تبدیلی برچھی سے نہیں بلکہ پرچی سے آئی ہے (سبھاش چندر اوش جو کہ کانگریس پارٹی کے صدر بھی رہے تھے کی تحریک بھی ناکام ہو چکی تھی) جب محترمہ بینظیر بھٹو پاکستان کی وزیراعظم منتخب ہوتی تو 1989ء میں ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی۔ اس وقت عبدالحق عرف میاںمیٹھا سندھ سے ایم این اے تھے۔ بی بی بینظیر میاں صاحب کی بہت عزت کرتی تھیں مگر جب تحریک پیش کی گئی تو میاں میٹھا صاحب کئی اختلاف کی وجہ سے ناراض تھے۔ میاں نواز شریف نے ان سے رابطہ کیا۔ آپ اگر عدم اعتماد کی تحریک میں ہماری حمایت کریں تو معقول رقم آپ اور آپ کے گروپ کو پیش کر دی جائے گی۔ میاں میٹھا صاحب نے فیصلہ کیا کہ وہ ان سے مل کر دیکھنا چاہتے ہیں کہ کیا ڈرامہ ہے وہ ناراضگی کے باوجود محترمہ سے بیوفائی کا سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ جب وہ اپنے آٹھ عدد ایم این اے کے گروپ کے سربراہ کی حیثیت سے میاں نواز شریف سے ملے تو اپنے ساتھ چھوٹا ٹیپ ریکارڈر چھپا کر لے گئے۔ میں نے 1996ء میں وہ گفتگو خود سنی تھی شاید میاں صاحب کے پاس اب بھی وہ ریکارڈنگ موجود ہو جس کے مطابق دو کروڑ فی کس کے حساب سے 16 کروڑ ووٹ دینے کی صورت میں ملنا تھے۔ 50 لاکھ فی کس کے حساب سے ٹوکن کے طور پر میاں صاحب کو ادا کر دیئے گئے اس ڈیل کے غلام مصطفی جتوئی صاحب ضامن تھے۔ اِسی ویڈیو میں میاں میٹھا صاحب نے کہا کہ میاں صاحب کیا آپ چھوٹے چھوٹے سودے کرتے ہیں آپ بڑا سودا کریں تو میاں نواز شریف نے قہقہ لگایا اور پھر یکدم سنجیدہ ہو کر کہنے لگے۔ میاں صاحب آپ یہ کام کریں ہم سیاسی طور پر بی بی اور پی پی کا خاتمہ کرینگے۔ میاں میٹھا صاحب مجھے کہنے لگے ظفر اس وقت مجھے غصہ تو بہت آیا مگر ضبط کر گیا۔ (اسی دوران ولی خان نے کہا تھا کہ اگر دشمن ملک تین سو کروڑ لگا دے تو ہماری پارلیمنٹ کو خرید سکتا ہے) میاں میٹھا صاحب نے تو تحریک عدم اعتماد کے حق میں ووٹ نہ دیئے مگر اور کئی ایم این اے بک گئے تھے۔ اِسی دوران جب بینظیرنے زرداری صاحب سے کہا کہ عدم اعتماد کا مقابلہ کرو تو آصف زرداری فوری طور پراپنے دوستوں سے رقم اکٹھی کر کے پی پی کے ان ارکان کو واپس لائے جو ن لیگ کے ساتھ رابطہ میں تھے۔ چھانگا مانگا کیمپ کے مقابلے میں مری کیمپ لگایا گیا۔ جس میں اپنے اپنے حامیوں کو بند کر دیا گیا۔ میاں میٹھا صاحب ماشاء اللہ 87 سال کی عمر میں تندرست اور توانا ہیں گو کہ آپ پیپلزپارٹی چھوڑ چکے ہیں 2008ء میں بی بی کی طرف سے دوسری بار ایم این اے منتخب ہوئے تھے۔ 2018ء کے انتخابات میں آزاد حیثیت سے الیکشن میں حصہ لیا تھا اور صرف ڈھائی سو ووٹوں سے بی بی کے امیدوار سے ہار گئے تھے۔ دبنگ شخصیت کی وجہ سے آصف زرداری کے سامنے حق اور سچ کی بات کرتے رہے ہیں۔ آصف علی زرداری صاحب اس واقعہ کی وجہ سے سیاست میں بینظیربی بی کی مجبوری بنے۔ دوسری وجہ ان کا عورت ہونا بھی تھا۔