آج کی تاریخ

میرا قائد عمران خان فوجی آپریشن کیخلاف تھا، ہم بھی اس کے خلاف ہیں،نو منتخب وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا محمد سہیل آفریدی-میرا قائد عمران خان فوجی آپریشن کیخلاف تھا، ہم بھی اس کے خلاف ہیں،نو منتخب وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا محمد سہیل آفریدی-ایران کا غزہ امن کانفرنس میں شرکت سے انکار، "اپنے عوام پر حملہ کرنے والوں کے ساتھ نہیں بیٹھ سکتے"، ایرانی وزیرِ خارجہ-ایران کا غزہ امن کانفرنس میں شرکت سے انکار، "اپنے عوام پر حملہ کرنے والوں کے ساتھ نہیں بیٹھ سکتے"، ایرانی وزیرِ خارجہ-سپر ٹیکس کیس کی سماعت میں ججز اور وکلا کے درمیان دلچسپ تبادلہ خیال-سپر ٹیکس کیس کی سماعت میں ججز اور وکلا کے درمیان دلچسپ تبادلہ خیال-پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں شدید مندی، کے ایس ای-100 انڈیکس 4 ہزار پوائنٹس گر گیا-پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں شدید مندی، کے ایس ای-100 انڈیکس 4 ہزار پوائنٹس گر گیا-نیتن یاہو کی ہٹ دھرمی: غزہ میں دوبارہ فوجی کارروائی کا اشارہ-نیتن یاہو کی ہٹ دھرمی: غزہ میں دوبارہ فوجی کارروائی کا اشارہ

تازہ ترین

ٹرمپ کی اقوام متحدہ میں جارحانہ تقریر اور عالمی نظام کا بحران

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جنرل اسمبلی سے حالیہ تقریر محض ایک روایتی سفارتی خطاب نہیں تھی بلکہ یہ ایک ایسا مظاہرہ تھا جس نے دنیا کو یہ باور کرایا کہ وہ بین الاقوامی نظام، جسے دوسری جنگِ عظیم کے بعد خود امریکہ نے تشکیل دیا تھا، اب ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے اور اس کا سب سے بڑا منکر وہی ملک بن بیٹھا ہے جس نے اسے استوار کیا تھا۔ ٹرمپ کے لہجے میں کہیں تماشہ پن تھا تو کہیں دھمکی کا رنگ، اور یہ امتزاج دنیا بھر کے لیے غیر معمولی تشویش کا باعث ہے۔ٹرمپ نے اپنے خطاب میں ہجرت، موسمیاتی تبدیلی اور فلسطینی ریاست کے مسئلے پر ایسے بیانات دیے جو کسی ذمہ دار عالمی رہنما کے بجائے ایک انتہا پسند سیاست دان کے زیادہ لگتے تھے۔ انہوں نے اقوام متحدہ پر الزام لگایا کہ وہ تارکین وطن کے بہاؤ کو بڑھا کر مغربی ممالک کے خلاف سازش کر رہی ہے۔ انہوں نے موسمیاتی تبدیلی کو سب سے بڑی “فراڈ کہانی” قرار دیا اور اس کے لیے جاری عالمی کوششوں کو “گرین اسکیم” کا نام دیا۔ فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے والے ممالک پر انہوں نے تنقید کی اور کہا کہ یہ “دہشت گردی کو انعام دینے” کے مترادف ہے۔یہ موقف نہ صرف غیر ذمے دارانہ ہے بلکہ خطرناک بھی۔ خاص طور پر موسمیاتی تبدیلی کے انکار نے ترقی پذیر ممالک جیسے پاکستان کے لیے مزید خطرات کو اجاگر کیا ہے۔ پاکستان ایک ایسے ملک کے طور پر سامنے آ چکا ہے جو ہر سال سیلاب، خشک سالی اور ہیٹ ویوز جیسے ماحولیاتی بحرانوں کا سامنا کرتا ہے۔ اگر دنیا کی سب سے بڑی معیشت ہی ان چیلنجز کو فراڈ” قرار دے کر نظرانداز کرے گی تو عالمی سطح پر اس کے تدارک کی کوششیں بری طرح متاثر ہوں گی۔ہجرت کے مسئلے پر ٹرمپ کی گفتگو بھی محض سیاسی پروپیگنڈے سے زیادہ کچھ نہیں تھی۔ یہ سچ ہے کہ مغربی معاشرے تارکین وطن کے دباؤ کو محسوس کر رہے ہیں، لیکن اس دباؤ کی اصل ذمہ داری انہی مغربی طاقتوں پر عائد ہوتی ہے جنہوں نے مشرقِ وسطیٰ اور افریقہ میں جنگیں چھیڑ کر لاکھوں افراد کو بے گھر کیا۔ عراق، افغانستان، لیبیا اور شام میں کی گئی مداخلتوں نے جس انسانی المیے کو جنم دیا، آج وہی لوگ پناہ کے متلاشی بن کر مغربی ممالک کے دروازے کھٹکھٹا رہے ہیں۔ ایسے میں تارکین وطن کو قصوروار ٹھہرانا سراسر ظلم اور تاریخ سے انکار ہے۔جہاں تک اقوام متحدہ پر تنقید کا تعلق ہے، ٹرمپ کی یہ بات کسی حد تک درست ہے کہ یہ ادارہ عالمی تنازعات کو روکنے میں مؤثر ثابت نہیں ہو سکا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اس ناکامی کا اصل ذمہ دار کون ہے؟ کیا خود امریکہ سمیت وہ بڑی طاقتیں اس ناکامی کی اصل وجہ نہیں ہیں جو سلامتی کونسل میں اپنی ویٹو پاور استعمال کر کے اقوام متحدہ کو مفلوج کر دیتی ہیں؟ اسرائیل کے خلاف ہر قرارداد کو بار بار امریکی ویٹو نے ہی تو ناکام بنایا ہے۔ اس صورت میں اگر عالمی ادارہ بے بس دکھائی دیتا ہے تو اس کا سبب خود وہ طاقتور ممالک ہیں جو اسے اپنی مرضی کے آلے کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ٹرمپ کی تقریر کا ایک اور پہلو ان کا اسرائیل نوازی پر مبنی رویہ تھا۔ انہوں نے مسلم ممالک، بشمول پاکستان، کے رہنماؤں سے ملاقات میں زور دیا کہ وہ غزہ کی جنگ کے خاتمے میں کردار ادا کریں۔ لیکن ان کی اصل ترجیح اسرائیلی یرغمالیوں کی واپسی تھی، نہ کہ فلسطینی عوام پر ڈھائے جانے والے مظالم کا خاتمہ۔ یہ رویہ اس حقیقت کو نمایاں کرتا ہے کہ امریکہ کے نزدیک انسانی حقوق کی باتیں محض سیاسی نعرے ہیں، اصل مقصد اسرائیل کو ہر حال میں تحفظ فراہم کرنا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل کے مظالم کو روکنے کی اصل چابی واشنگٹن کے پاس ہے۔ اگر امریکہ اور اس کے مغربی اتحادی تل ابیب کو فوجی امداد دینا بند کر دیں، اسلحے کی ترسیل روک دیں اور سفارتی فورمز پر اس کا اندھا دھند دفاع کرنا چھوڑ دیں تو اسرائیل کو اپنے خونریز منصوبے پر نظرثانی کرنے پر مجبور ہونا پڑے گا۔ لیکن ٹرمپ کے بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اس راستے پر چلنے کے بجائے اسرائیلی جارحیت کے مزید حامی ہیں۔ٹرمپ کا اقوام متحدہ میں اندازِ گفتگو اس بات کا اعلان تھا کہ “پرانا عالمی نظام” جس میں کثیرالجہتی، انسانی حقوق اور عالمی تعاون کی قدریں شامل تھیں، اب امریکی پالیسی میں اپنی جگہ کھو رہا ہے۔ “امریکہ سب سے پہلے” کی پالیسی نے دنیا کو ایک بار پھر طاقت کے جنگل کی طرف دھکیل دیا ہے جہاں اصول اور معاہدے کمزور اور طاقتور کی مرضی غالب ہوتی ہے۔پاکستان جیسے ممالک کے لیے یہ منظرنامہ مزید پیچیدہ ہو جاتا ہے۔ ایک طرف ہمیں موسمیاتی تبدیلی اور دہشت گردی جیسے داخلی و علاقائی مسائل درپیش ہیں، دوسری طرف عالمی سطح پر ایسا منظرنامہ ابھر رہا ہے جہاں سب سے بڑی طاقت ہی تعاون کے بجائے تقسیم اور تصادم کو بڑھاوا دے رہی ہے۔ ایسے میں پاکستان کو اپنی خارجہ پالیسی میں زیادہ احتیاط، توازن اور دور اندیشی اختیار کرنا ہوگی۔یہ درست ہے کہ ٹرمپ جیسے رہنما کے بیانات بعض اوقات محض سیاسی تماشہ لگتے ہیں، لیکن ان کے اثرات حقیقی دنیا میں بہت دور رس ہو سکتے ہیں۔ اگر اقوام متحدہ کو مزید کمزور کیا گیا تو چھوٹے ممالک کے لیے اپنے مسائل کے حل کا واحد عالمی فورم بھی غیر مؤثر ہو جائے گا۔ اس سے طاقت کے کھیل میں مزید بے رحمی آئے گی اور عالمی امن کے امکانات مزید دھندلا جائیں گے۔لہٰذا عالمی برادری کو چاہیے کہ ٹرمپ کی انتہا پسندانہ باتوں کو محض تماشا سمجھ کر نظرانداز نہ کرے بلکہ کثیرالجہتی کے عالمی نظام کو بچانے کے لیے متحرک ہو۔ اقوام متحدہ کو مزید شفاف، مؤثر اور غیر جانبدار بنانے کی ضرورت ہے تاکہ یہ صرف طاقتوروں کا آلہ نہ رہے بلکہ واقعی دنیا کے مظلوموں اور کمزوروں کی آواز بن سکے۔اگر دنیا نے اس چیلنج کا مقابلہ نہ کیا تو تاریخ گواہ رہے گی کہ اقوام متحدہ کی 80ویں دہائی میں دنیا نے ایک ایسے صدر کے ہاتھوں اپنے ہی نظام کو ٹوٹتے دیکھا، جس کا سب سے بڑا جرم یہ تھا کہ اس نے طاقت کے نشے میں انصاف، تعاون اور انسانیت کی قدروں کا مذاق اڑایا۔ یہی ٹرمپ کی تقریر کا اصل المیہ ہے اور یہی عالمی برادری کے لیے سب سے بڑا امتحان۔

شیئر کریں

:مزید خبریں