پاکستان کے قدرتی وسائل پر حالیہ عالمی توجہ اس حقیقت کو اجاگر کرتی ہے کہ اگر بروقت منصوبہ بندی، شفافیت اور پالیسی تسلسل کو یقینی بنایا جائے تو یہ شعبہ ملکی معیشت کے لیے وہ کردار ادا کر سکتا ہے جو تیل نے مشرقِ وسطیٰ کے ممالک کے لیے کیا۔ امریکہ کے ساتھ معدنی معاہدہ، چین کی بڑھتی ہوئی دلچسپی اور مشرقِ وسطیٰ کی سرمایہ کاری کی آمادگی اس امر کا ثبوت ہیں کہ پاکستان اب اپنی معدنی دولت کو عالمی سطح پر منوانے کے ایک نازک موڑ پر کھڑا ہے۔اعداد و شمار چیخ چیخ کر یہ بتاتے ہیں کہ ہم کس قدر غفلت کے مرتکب ہوئے ہیں۔ پاکستان دنیا کے پانچویں بڑے تانبے کے ذخائر، اربوں ڈالر کی مالیت کے سونے، دنیا کی دوسری بڑی نمک کی کان اور کوئلہ، جپسم، کرومائٹ، لیتھیم اور دیگر قیمتی دھاتوں کے ذخائر رکھنے کے باوجود عالمی معدنی پیداوار میں صرف 0.15 فیصد کا حصہ رکھتا ہے۔ جی ڈی پی میں اس کا حصہ بمشکل 2 سے 3 فیصد ہے۔ یہ حقیقت حکومتی بے حسی اور ادارہ جاتی نااہلی پر سنگین سوالیہ نشان ہے۔ریکوڈک جیسے منصوبے سالانہ چار سے پانچ ارب ڈالر تک کی آمدن دے سکتے ہیں، سیاہ ڈک کے ذخائر مزید دو ارب ڈالر، تھر کول دو سو ملین ڈالر اور بارائٹ، لیڈ اور زنک مزید سو ملین ڈالر سالانہ کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ لیکن بدانتظامی، ناقص معاہدہ جات، عدالتی تنازعات اور پالیسی میں تضاد نے اس ترقی کے دروازے برسوں بند رکھے۔ ریکوڈک کیس میں عالمی پنچایت میں اربوں ڈالر کا جرمانہ اس بدانتظامی کا کڑا ثبوت ہے۔اس وقت سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ حکومت صرف غیر ملکی سرمایہ کاری پر انحصار نہ کرے بلکہ مقامی سرمایہ کاروں کو بھی اس شعبے میں متحرک کرے۔ غیر ملکی سرمایہ، ٹیکنالوجی اور مہارت اپنی جگہ ضروری ہیں، لیکن اگر مقامی سرمایہ شامل نہ ہو تو خطرہ ہے کہ وسائل کے اصل ثمرات عوام تک نہیں پہنچیں گے اور استحصالی معاہدے اس دولت کو بیرونِ ملک منتقل کر دیں گے۔ اس مقصد کے لیے ریاست کو چاہیے کہ مقامی سرمایہ کاروں کے لیے ٹیکس میں رعایتیں، سرمایہ کاری کے تحفظ کی ضمانت اور جدید ٹیکنالوجی تک رسائی فراہم کرے۔مزید یہ کہ معدنی شعبے کو الگ تھلگ رکھنے کے بجائے صنعتی ترقی، توانائی پالیسی اور مقامی روزگار سے جوڑنا ہوگا۔ بلوچستان اور خیبر پختونخوا جیسے پسماندہ اور بدامنی سے متاثرہ صوبے اگر اپنے وسائل سے براہِ راست مستفید ہوں تو یہ نہ صرف وہاں غربت میں کمی اور روزگار میں اضافے کا ذریعہ ہوگا بلکہ امن و استحکام کی نئی راہیں بھی کھلیں گی۔تاہم اس خواب کو حقیقت بنانے کے لیے گورننس کے ڈھانچے کو ازسرِ نو ترتیب دینا ہوگا۔ اٹھارویں ترمیم کے بعد وسائل پر صوبائی خودمختاری ایک حقیقت ہے لیکن وفاق اور صوبوں کے درمیان اختیارات کی کشمکش نے اکثر سرمایہ کاری کو الجھا کر رکھ دیا ہے۔ غیر ملکی سرمایہ کار اس ابہام سے خوفزدہ ہو کر پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔ وفاق اور صوبے مل کر ایک واضح اور ہم آہنگ پالیسی بنائیں تاکہ کوئی سرمایہ کار قانونی اور انتظامی پیچیدگیوں میں نہ الجھے۔یہ بھی حقیقت ہے کہ معدنیات کا شعبہ صرف کان کنی تک محدود نہیں ہونا چاہیے بلکہ اس سے منسلک صنعتوں کے قیام پر زور دینا ہوگا۔ خام مال کی بجائے ویلیو ایڈیڈ مصنوعات کی برآمدات ہی پاکستان کو زیادہ زرمبادلہ فراہم کر سکتی ہیں۔ اس کے لیے انسانی وسائل کی تربیت، انجینئرنگ یونیورسٹیوں اور ٹیکنیکل انسٹی ٹیوٹس کو اس شعبے کی ضروریات کے مطابق ڈھالنا ہوگا۔پاکستان کا سب سے بڑا چیلنج پالیسی کا عدم تسلسل ہے۔ ہر نئی حکومت پچھلی حکومت کے منصوبے معطل کر دیتی ہے، نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری ضائع ہو جاتی ہے۔ اس رویے کو بدلنا ہوگا۔ سرمایہ کار کو یہ یقین ہونا چاہیے کہ اس کی سرمایہ کاری سیاسی تبدیلیوں سے متاثر نہیں ہوگی۔آج دنیا کی نظریں پاکستان پر ہیں۔ چین، سعودی عرب، قطر اور متحدہ عرب امارات جیسے ممالک معدنی شعبے میں سرمایہ کاری کے خواہاں ہیں۔ امریکہ بھی اس شعبے میں دلچسپی دکھا رہا ہے تاکہ چین کے بڑھتے اثر و رسوخ کو متوازن کیا جا سکے۔ پاکستان کو اپنی جیوپولیٹیکل حیثیت کو ایک موقع کے طور پر استعمال کرنا چاہیے مگر اس انداز میں کہ کسی بڑی طاقت کے دباؤ یا جھگڑے میں نہ پھنسے۔ وسائل کو سفارتی سودے بازی کے بجائے قومی ترقی کے لیے بروئے کار لانا ہی دانشمندی ہوگی۔ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنے کا وقت آگیا ہے۔ اگر ریکوڈک جیسے منصوبے بار بار تاخیر اور تنازعات کا شکار ہوتے رہے تو ہم ایک اور صدی ضائع کر دیں گے۔ اس وقت ضرورت صرف سرمایہ کاری کی نہیں بلکہ وژن، سیاسی عزم اور شفاف احتساب کی ہے۔ یہ وسائل صرف اعداد و شمار نہیں بلکہ پاکستان کے کروڑوں عوام کی زندگی بدلنے کی طاقت رکھتے ہیں۔ شرط یہ ہے کہ ریاست انہیں قومی ترقی کا محور بنائے، نہ کہ چند مخصوص حلقوں کے مفاد کا ذریعہ۔اگر پاکستان نے دانشمندی اور تدبر سے فیصلے کیے تو معدنی وسائل آنے والی نسلوں کے لیے خوشحالی کی ضمانت بن سکتے ہیں۔ لیکن اگر یہ موقع بھی ضائع ہوا تو تاریخ پاکستان کے حکمرانوں کو اس بدترین غفلت پر کبھی معاف نہیں کرے گی۔
