آج کی تاریخ

میرا قائد عمران خان فوجی آپریشن کیخلاف تھا، ہم بھی اس کے خلاف ہیں،نو منتخب وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا محمد سہیل آفریدی-میرا قائد عمران خان فوجی آپریشن کیخلاف تھا، ہم بھی اس کے خلاف ہیں،نو منتخب وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا محمد سہیل آفریدی-ایران کا غزہ امن کانفرنس میں شرکت سے انکار، "اپنے عوام پر حملہ کرنے والوں کے ساتھ نہیں بیٹھ سکتے"، ایرانی وزیرِ خارجہ-ایران کا غزہ امن کانفرنس میں شرکت سے انکار، "اپنے عوام پر حملہ کرنے والوں کے ساتھ نہیں بیٹھ سکتے"، ایرانی وزیرِ خارجہ-سپر ٹیکس کیس کی سماعت میں ججز اور وکلا کے درمیان دلچسپ تبادلہ خیال-سپر ٹیکس کیس کی سماعت میں ججز اور وکلا کے درمیان دلچسپ تبادلہ خیال-پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں شدید مندی، کے ایس ای-100 انڈیکس 4 ہزار پوائنٹس گر گیا-پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں شدید مندی، کے ایس ای-100 انڈیکس 4 ہزار پوائنٹس گر گیا-نیتن یاہو کی ہٹ دھرمی: غزہ میں دوبارہ فوجی کارروائی کا اشارہ-نیتن یاہو کی ہٹ دھرمی: غزہ میں دوبارہ فوجی کارروائی کا اشارہ

تازہ ترین

کرکٹ کی روایتی دشمنی اور پاکستان کی مشکلات

ایشیا کپ میں بھارت کے خلاف ایک اور ناکامی نے پاکستانی شائقین کو مایوس کر دیا۔ پچھلے ہفتے سات وکٹوں کی شکست کے بعد دبئی میں چھ وکٹوں سے ہار اس بات کا ثبوت ہے کہ ٹی ٹوئنٹی فارمیٹ میں پاکستان کی کارکردگی بھارت کے مقابلے میں اب تک غیر تسلی بخش رہی ہے۔ پندرہ میچوں میں صرف تین کامیابیاں اس تلخ حقیقت کو ظاہر کرتی ہیں کہ پاکستان کو ابھی بھی بہت کچھ بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔ بھارتی کپتان سوریا کمار یادو کا یہ دعویٰ کہ اب پاکستان کے ساتھ “کوئی مقابلہ” نہیں رہا، نہ صرف پاکستانی کرکٹ کے لیے چیلنج ہے بلکہ ایک تلخ یاد دہانی بھی کہ یہ کھیل صرف حالیہ فارم پر نہیں بلکہ تاریخی وراثت پر بھی کھڑا ہے۔
بھارت نے اس دور میں اپنی برتری ثابت کی ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ٹیسٹ اور ون ڈے کرکٹ میں پاکستان اب بھی مجموعی طور پر آگے ہے۔ کرکٹ کی یہ روایتی دشمنی صرف موجودہ نتائج سے ختم نہیں ہو سکتی کیونکہ یہ دہائیوں پر محیط ایک تاریخی باب ہے جس نے برصغیر کے عوام کو ہمیشہ اپنی گرفت میں رکھا ہے۔ البتہ یہ بھی درست ہے کہ اس وقت بھارت نے کھیل کے ہر شعبے میں ایک معیار قائم کر دیا ہے اور پاکستان کو اس معیار تک پہنچنے کے لیے غیر معمولی محنت اور منصوبہ بندی درکار ہے۔
پاکستانی بیٹنگ لائن میں ابتدائی بہتری ضرور دیکھی گئی اور 171 رنز کا مجموعہ پچھلے میچ کی 127 رنز کی مایوس کن اننگز کے مقابلے میں بہتر تھا۔ لیکن درمیانی اوورز میں پھر وہی پرانی خامیاں سامنے آئیں جنہوں نے بڑے مجموعے کا خواب چکنا چور کر دیا۔ بولنگ میں بھی پاکستانی کھلاڑی ابتدا میں دباؤ ڈالنے میں ناکام رہے اور بھارتی بیٹرز نے جارحانہ کھیل سے میچ کو یکطرفہ بنا دیا۔ آخر میں کچھ وکٹیں ملیں مگر تب تک میچ ہاتھ سے نکل چکا تھا۔
کپتان سلمان علی آغا کا یہ کہنا درست ہے کہ بھارت کو شکست دینے کے لیے ہر شعبے میں کامل ہونا ہوگا۔ یہ وہ معیار ہے جو بھارت نے اپنی محنت، نظم و ضبط اور تسلسل سے قائم کیا ہے۔ پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ وہ مثبت پہلوؤں کو آگے بڑھائے اور بار بار ہونے والی خامیوں کا ازالہ کرے۔ ورنہ روایتی حریف کے سامنے یہ بار بار کی شکستیں ایک نفسیاتی دباؤ میں بدل جائیں گی۔
ابھی بھی پاکستان کے پاس موقع ہے کہ وہ اگلے دونوں میچ جیت کر فائنل میں پہنچے اور ایک بار پھر بھارت کا سامنا کرے۔ یہی وہ موقع ہوگا جس میں پاکستانی ٹیم ثابت کر سکتی ہے کہ یہ روایتی دشمنی اب بھی زندہ ہے اور پاکستان مقابلے سے باہر نہیں ہوا۔ لیکن یہ اسی وقت ممکن ہے جب ہر کھلاڑی اپنی ذمہ داری کو پوری سنجیدگی اور پیشہ ورانہ مہارت کے ساتھ نبھائے۔ اس کے بغیر یہ مایوس کن سلسلہ یونہی چلتا رہے گا اور کرکٹ کی دنیا میں پاکستان کی ساکھ مزید کمزور ہوتی جائے گی۔
پاکستانی کرکٹ کے بحران کو صرف کسی ایک میچ یا کسی ایک کھلاڑی کی کارکردگی تک محدود نہیں کیا جا سکتا۔ یہ ایک گہرے اور دیرینہ ڈھانچے کے بگاڑ کا نتیجہ ہے۔ بھارت نے اپنی کرکٹ میں جو ترقی کی ہے، اس کے پیچھے ایک مضبوط ڈومیسٹک اسٹرکچر، آئی پی ایل جیسا عالمی معیار کا ٹورنامنٹ، کوچنگ اور ٹریننگ میں سائنسی طریقے، اور کھلاڑیوں کے لیے سخت احتساب موجود ہے۔ اس کے برعکس پاکستان میں ڈومیسٹک کرکٹ کا نظام بار بار کے تجربات اور سیاسی مداخلتوں سے تباہ ہو چکا ہے۔ ڈپارٹمنٹس ختم اور بحال ہونے کی بحث، ریجنل اور ایسوسی ایشنز کے باہمی تضادات، اور پی سی بی میں بار بار کی تبدیلیاں کسی ایک مستقل سمت کا پتہ نہیں دیتیں۔
کھلاڑیوں کی ٹریننگ اور فٹنس کا حال بھی سب کے سامنے ہے۔ جدید دور کی کرکٹ میں جہاں فٹنس سب سے بڑی شرط ہے، پاکستان کے کھلاڑی اکثر اس بنیادی تقاضے میں کمزور ثابت ہوتے ہیں۔ اسی وجہ سے میچ کے آخری لمحات میں ٹیم کی کارکردگی گر جاتی ہے اور بڑے دباؤ کے موقع پر اعصاب قابو میں نہیں رہتے۔ بھارت نے اپنی ٹیم کو فٹنس کے عالمی معیار پر ڈھالا ہے جبکہ پاکستان ابھی تک اس معاملے میں سنجیدگی نہیں دکھا سکا۔
ایک اور اہم پہلو ذہنی تیاری کا ہے۔ روایتی حریف بھارت کے خلاف کھیلنا صرف کرکٹ نہیں بلکہ ایک اعصابی جنگ بھی ہے۔ بھارتی کھلاڑی اس موقع کو ایک بڑے اعزاز اور حوصلے کے ساتھ لیتے ہیں، جبکہ پاکستانی کھلاڑی اکثر دباؤ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اس فرق کو ختم کرنے کے لیے کھلاڑیوں کی نفسیاتی تربیت ناگزیر ہے۔ دنیا کی بڑی ٹیمیں کھیلوں کے ماہر نفسیات کے ساتھ کام کرتی ہیں، لیکن پاکستان میں یہ سوچ ابھی تک نہیں پنپ سکی۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان کے نوجوان ٹیلنٹ میں کمی نہیں، مگر ان کی پرورش اور نگہداشت کا کوئی مستقل نظام نہیں ہے۔ ہر بڑے ایونٹ کے بعد ہم کسی ایک نوجوان کھلاڑی کو “نیا ستارہ” قرار دے دیتے ہیں لیکن چند سال بعد وہی کھلاڑی نظر سے اوجھل ہو جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے سسٹم میں تسلسل نہیں ہے۔ بھارت یا آسٹریلیا کی مثال لیجیے، وہاں ایک کھلاڑی کو مسلسل مواقع ملتے ہیں، اس کی خامیوں پر کام کیا جاتا ہے، اور اسے وقت دیا جاتا ہے کہ وہ اپنی صلاحیتوں کو نکھار سکے۔ پاکستان میں چند میچوں کے بعد ہی کھلاڑیوں کو ڈراپ کر دیا جاتا ہے یا وہ سیاسی اثر و رسوخ کے ہاتھوں پس منظر میں چلے جاتے ہیں۔
اگر پاکستان واقعی بھارت کے خلاف اپنی پوزیشن بہتر بنانا چاہتا ہے تو اسے محض ٹیم کے انتخاب یا کوچنگ اسٹاف کی تبدیلیوں پر بھروسہ نہیں کرنا چاہیے بلکہ ایک طویل مدتی حکمتِ عملی اپنانا ہوگی۔ سب سے پہلے ڈومیسٹک کرکٹ کو مستقل بنیادوں پر مستحکم کیا جائے۔ پی ایس ایل جیسے ایونٹس کو صرف کمرشل فائدے تک محدود نہ رکھا جائے بلکہ اس کے ذریعے نوجوان کھلاڑیوں کو عالمی معیار کے دباؤ میں کھیلنے کا تجربہ دیا جائے۔
دوسرا، فٹنس اور جدید ٹریننگ کے معیار پر کوئی سمجھوتہ نہ کیا جائے۔ ہر کھلاڑی کو سخت جانچ اور تربیت کے عمل سے گزرنا ہوگا۔ تیسرا، کھلاڑیوں کی ذہنی مضبوطی پر توجہ دینا ہوگی تاکہ وہ دباؤ میں ٹوٹنے کے بجائے کھیل کو اپنے حق میں موڑ سکیں۔ اور سب سے بڑھ کر پی سی بی کو سیاسی اثر و رسوخ سے آزاد کر کے ایک پیشہ ور ادارہ بنایا جائے جو طویل مدتی منصوبہ بندی پر عمل کر سکے۔

شیئر کریں

:مزید خبریں