یہ حقیقت اپنی جگہ قائم ہے کہ فلسطینیوں نے 1988ء میں اپنی آزادی کا اعلان کر دیا تھا، مگر اب برطانیہ، آسٹریلیا اور کینیڈا کی طرف سے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنا تاخیر سے کیا گیا فیصلہ ہونے کے باوجود ایک اہم پیش رفت ہے۔ یہ وہ ممالک ہیں جو عشروں سے اسرائیل کے سب سے بڑے پشت پناہ سمجھے جاتے رہے ہیں۔ خاص طور پر گزشتہ دو برسوں میں جب غزہ پر وحشیانہ بمباری اور نسل کشی کی مہم جاری رہی، مغربی طاقتوں نے یا تو خاموشی اختیار کی یا تل ابیب کے اقدامات کو تحفظ فراہم کیا۔ اس پس منظر میں یہ منظوری محض ایک علامتی قدم نہیں بلکہ ایک اعترافِ جرم بھی ہے — کہ مغرب نہ صرف بے عملی کا شکار رہا بلکہ اسرائیل کے جرائم میں شریک بھی سمجھا جاتا ہے۔
یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ فلسطین کو تسلیم کرنے والے ممالک کی اکثریت بہت پہلے یہ قدم اٹھا چکی ہے۔ اقوامِ متحدہ کے 193 اراکین میں سے 140 سے زائد فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کر چکے ہیں۔ اب فرانس سمیت کئی دیگر یورپی ممالک بھی اس صف میں شامل ہونے والے ہیں۔ دراصل اب وہ چند ممالک اقلیت میں رہ گئے ہیں جو فلسطینی ریاست کے وجود کے انکاری ہیں: امریکہ، جاپان، جنوبی کوریا اور چند یورپی و بحرالکاہلی جزائر۔ اس صورت میں برطانیہ، آسٹریلیا اور کینیڈا کا فیصلہ ایک بدلتی ہوئی عالمی رائے عامہ کا حصہ ہے جسے مزید وسعت مل سکتی ہے۔
اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے مغربی ممالک کی اس پالیسی کو “دہشت گردی کے لیے انعام” قرار دیا ہے۔ یہ سراسر جھوٹ ہے۔ دراصل یہ اقدام فلسطینیوں پر کیے گئے تاریخی مظالم کی جزوی تلافی ہے۔ خاص طور پر برطانیہ، جس نے 1917ء میں بدنام زمانہ بالفور اعلامیہ جاری کیا، جس نے نہ صرف فلسطینی عوام کی زمین چھینی بلکہ “نکبت” (نکبہ) جیسے سانحے کی بنیاد ڈالی۔ اس پس منظر میں موجودہ برطانوی وزیر اعظم کیئر اسٹارمر کا فلسطین کو تسلیم کرنا محض ایک سیاسی فیصلہ نہیں بلکہ برطانیہ کی ایک دیرینہ اخلاقی اور تاریخی ذمہ داری کا ادراک ہے۔
تاہم اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ صرف تسلیمیت کافی نہیں۔ اسرائیل کھلے عام اعلان کر چکا ہے کہ وہ کسی صورت فلسطینی ریاست کے قیام کی اجازت نہیں دے گا اور مغربی کنارے کو ضم کرنے کے منصوبوں پر عمل کر رہا ہے۔ لہٰذا اگر عالمی برادری خصوصاً مغربی ممالک واقعی دو ریاستی حل چاہتے ہیں تو انہیں محض زبانی بیانات یا علامتی اقدامات سے آگے بڑھنا ہوگا۔ اسرائیل پر فوری اور غیر مشروط جنگ بندی کے لیے دباؤ ڈالنا ضروری ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس پر اسلحے اور معیشت دونوں حوالوں سے مکمل پابندیاں لگائی جانی چاہئیں۔
یہ بھی واضح ہونا چاہیے کہ اگر اسرائیل اپنی نسل کشی کی پالیسی جاری رکھتا ہے اور فلسطینی علاقوں کو مستقل طور پر ہتھیانے کی کوشش کرتا ہے تو اس کے سنگین نتائج ہوں گے۔ یہ نتائج صرف بیانات تک محدود نہیں رہنے چاہئیں بلکہ اسرائیل کو عالمی قانون کے مطابق سخت اقتصادی، سفارتی اور عسکری پابندیوں کا سامنا کرنا چاہیے۔ اس کے ساتھ ساتھ عالمی عدالت انصاف اور دیگر بین الاقوامی اداروں میں اسرائیلی قیادت کو نسل کشی اور جنگی جرائم پر جواب دہ بنایا جانا چاہیے۔
فلسطینی عوام دہائیوں سے قربانیاں دے رہے ہیں۔ ان کے خون سے لتھڑی زمین پر آج بھی انصاف کے نعرے بلند ہیں۔ مغربی ممالک کی تاخیر سے تسلیمیت ایک قدم ضرور ہے لیکن اگر اس کے ساتھ عملی اقدامات نہ کیے گئے تو یہ محض ایک دکھاوے کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ وقت کا تقاضا ہے کہ عالمی برادری صرف فلسطینی ریاست کے وجود کو تسلیم نہ کرے بلکہ اسرائیل کو ظلم و جبر سے روکنے کے لیے متحدہ حکمت عملی بھی اپنائے۔ یہی انصاف کا تقاضا ہے اور یہی دنیا کے امن کے لیے ضروری ہے۔
پاکستان کے تناظر میں دیکھا جائے تو فلسطین کی حالیہ تسلیمیت کے اعلان نے اسلام آباد کے لیے بھی نئی سفارتی جہتیں کھول دی ہیں۔ پاکستان قیامِ فلسطین کے آغاز ہی سے اس مسئلے پر ایک واضح اور دو ٹوک مؤقف رکھتا آیا ہے۔ قیامِ اسرائیل کے خلاف رائے دہی کرنے والے اولین ممالک میں پاکستان شامل تھا اور آج بھی ہمارا سرکاری بیانیہ یہی ہے کہ فلسطینی عوام کی جدوجہد دراصل آزادی اور حقِ خودارادیت کی جدوجہد ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا صرف بیانیہ کافی ہے؟ جب مغربی طاقتیں، جنہیں طویل عرصے تک اسرائیل کے پشت پناہ سمجھا جاتا تھا، اب فلسطین کو تسلیم کر رہی ہیں تو پاکستان کو محض علامتی یکجہتی سے آگے بڑھ کر عملی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ اس میں سب سے اہم یہ ہے کہ پاکستان اپنی سفارتی قوت کو او آئی سی اور اقوامِ متحدہ کے پلیٹ فارمز پر مربوط انداز میں استعمال کرے۔
او آئی سی کا کردار طویل عرصے سے کمزور اور غیر مؤثر رہا ہے۔ جب بھی فلسطین یا کشمیر کے حوالے سے اسرائیل یا بھارت کے مظالم کی خبریں آتی ہیں تو مشترکہ بیانات ضرور جاری ہوتے ہیں، مگر عملی اقدامات شاذونادر دیکھنے کو ملتے ہیں۔ اب جبکہ مغربی بلاک کے تین اہم ممالک نے فلسطین کو تسلیم کر لیا ہے، او آئی سی کو ایک متحدہ پالیسی اختیار کرتے ہوئے اسرائیل پر سفارتی دباؤ بڑھانا چاہیے۔ اس دباؤ میں تجارتی بائیکاٹ، اسرائیلی مصنوعات پر پابندیاں اور فلسطینی عوام کی براہِ راست مالی و انسانی مدد جیسے اقدامات شامل ہو سکتے ہیں۔ پاکستان کو اس میں قائدانہ کردار ادا کرنا ہوگا۔
اسی طرح اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کا 80واں اجلاس ایک موقع فراہم کرتا ہے کہ پاکستان اور دیگر ترقی پذیر ممالک مغربی طاقتوں کے دوہرے معیار کو بے نقاب کریں۔ اگر امریکہ اور چند دیگر اتحادی ممالک اب بھی فلسطین کی ریاست کو تسلیم کرنے سے انکاری ہیں تو پاکستان کو چاہیے کہ وہ اس رویے کو کھل کر چیلنج کرے۔ یہ بھی واضح کرنا ضروری ہے کہ فلسطین کی تسلیمیت کسی “انعام برائے دہشت گردی” کے مترادف نہیں بلکہ یہ ایک دیرینہ تاریخی ناانصافی کا ازالہ ہے۔ فلسطینی عوام کی قربانیوں نے دنیا کو مجبور کیا ہے کہ وہ حقیقت کو تسلیم کرے۔
یہ نکتہ بھی اہم ہے کہ پاکستان کے اندرونی حالات بھی فلسطین کاز کے لیے زیادہ مؤثر کردار ادا کرنے میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ سیاسی انتشار، معاشی بحران اور دہشت گردی کی لہر نے پاکستان کی سفارتی توانائی کو محدود کر رکھا ہے۔ مگر اس کے باوجود، اگر قیادت سنجیدگی دکھائے تو پاکستان اپنی پالیسی کو فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے ایک اخلاقی و سیاسی ہتھیار بنا سکتا ہے۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب ہماری اپنی سیاسی جماعتیں اور ادارے اس مسئلے کو محض جذباتی نعرے بازی سے نکال کر ایک مربوط قومی ایجنڈا بنائیں۔
یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ فلسطین کی آزادی محض فلسطینی عوام کا نہیں بلکہ پوری مسلم امہ کا مسئلہ ہے۔ جب تک غزہ اور مغربی کنارے میں انسانی حقوق کی پامالی جاری ہے، جب تک اسرائیل زمین ہتھیانے اور بستیاں بسانے کی پالیسی پر قائم ہے، تب تک دنیا میں امن کی کوئی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔ مغربی ممالک کی تازہ تسلیمیت ایک مثبت آغاز ہے مگر اسے انجام تک پہنچانے کے لیے مضبوط عالمی اتحاد اور عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔
پاکستان کو اپنی تاریخ اور اقدار کے مطابق یہ کردار ادا کرنا ہوگا کہ فلسطین صرف اقوامِ متحدہ کی قراردادوں میں ایک نام نہ رہے بلکہ زمین پر ایک آزاد، خودمختار اور محفوظ ریاست کے طور پر ابھرے۔ بصورت دیگر، اگر تسلیمیت محض کاغذی بیانات تک محدود رہی تو یہ ایک اور “کھوکھلا وعدہ” بن جائے گی جس سے فلسطینی عوام کی امیدیں مزید ٹوٹیں گی۔ یہی وقت ہے کہ پاکستان اور دنیا یہ فیصلہ کرے کہ وہ تاریخ کے کس طرف کھڑے ہیں: مظلوموں کے ساتھ یا ظالموں کے ساتھ۔
