(مسافر)طارق قریشی
تحریر کا عنوان دیکھ کر میرے پڑھنے والے اس غلط فہمی کا شکار نہ ہو جائیں کہ آج کی اس تحریر میں پاکستانی سیاست کے حوالے سے کوئی بریکنگ نیوز دیتے ہوئے چٹ پٹی خبر کے طور پر پیشہ ور طوائفوں کا ذکر کر رہا ہوں۔ اگرچہ پاکستان میں سیاست اور سیاستدانوں کا تذکرہ طوائفوں کے ذکر کے بغیر پورا بھی نہیں ہوتا۔ اس حوالے سے ہمارے صحافی برادری کے وکیل انجم نے کافی عرصہ پہلے “پارلیمنٹ سے بازار حسن تک” نامی کتاب میں بہت سے پردہ نشینوں کے راز افشاء کئے تھے۔ میرا آج کا موضوع بالکل اس حوالے سے نہیں ہے۔ سب سے پہلے تو لفظ طوائف بارے کچھ تفصیل‘ طوائف کا لفظ اردو زبان میں عربی زبان سے مستعار لیا گیا۔ ایسی پیشہ ور عورت جو کسی ایک مرد کے ساتھ نہ رہتی ہو بلکہ مختلف مردوں کے ساتھ تعلقات استوار رکھتی ہو، طوائف کہلاتی ہے۔ واضح رہے کہ عرب کلچر میں کنیز اور لونڈی کا تصور قدیم زمانے سے چلا آ رہا تھا۔ اسلام کی آمد کے بعد بھی کنیز اور لونڈی کے حوالے سے کوئی واضح پابندی کا تصور نہیں ملتا۔ عرب کلچر میں لونڈی یا کنیز کو اسی لئے کبھی بھی قابل اعتراض نہ سمجھا گیا جبکہ طوائف کو ہمیشہ سے بری نگاہ سے دیکھا گیا۔ طوائف کو کبھی قابل عزت نہیں گردانا گیا۔ برصغیر کے بادشاہوں کی تاریخ میں بھی کنیز اور لونڈی کا بہت ذکر ملتا ہے مگر تاریخ میں کنیز اور لونڈی کو کبھی اس طرح قابل تحقیر نہیں بیان کیا گیا جس طرح طوائفوں کا تذلیل شدہ ذکر ملتا ہے۔ اردو شاعری میں بھی طوائفوں کے لالچی مزاج اور ہرجائی پن پر بہت کہا اور لکھا گیا۔ ذاتی اور مالی مفادات کی بنیاد پر نئے سے نئے مرد سے تعلقات قائم کرنا طوائف کی خاص ادا بیان کی جاتی ہے۔ کسی ایک کی پابندی میں نہ رہنے کو طوائف کی خاص نشانی بیان کیا جاتا ہے اسی حوالے سے کسی مملکت کا نظام جب کمزور ہو جائے وہاں کا طاقتور طبقہ اپنا اپنا اختیار اور اپنا اپنا نظام اختیار کر لے تو ایسی صورتحال کو اسی لئے طوائف الملوکی کا نام دیا جاتا ہے۔ اسی تفصیلی تعارف سے پڑھنے والوں کیلئے طوائف کے معانی میں کسی قسم کا ابہام باقی نہ رہا ہو گا۔ تو اب ذکر آج کے موضوع کا۔ جیسے کہ بیان کیا گیا کہ طوائف کی خاص ادا یہ ہوتی ہے کہ وہ کسی ایک کی پابند ہو کر زندگی نہیں گزار سکتی، تبدیلی کی بنیاد مالی مفادات‘ ذاتی مفادات یا پھر سماجی مفادات بھی ہو سکتے ہیں۔ ہندوستان میں والیان ریاست کے درمیان طوائفوں کے حوالے سے بڑی بڑی کہانیاں تاریخ میں ملتی ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ طوائف تو طوائف ہوتی ہے اس نے تو ایک کے ساتھ مستقل رہنا ہی نہیں ہوتا اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ کسی زمانے میں طوائف کی ولدیت کے خانے میں لفظ پیسہ پانی دولت لکھا جاتا تھا۔ طوائفانہ سیاست میں زبردستی لانے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ طوائف نے تو مستقل کسی ایک کے ساتھ رہنا ہی نہیں جس دن اس کے مفادات کی تکمیل ہو جائے گی یا اسے کوئی مضبوط گھر نظر آ گیا اس نے نئے ٹھکانے پر پہنچ جانا ہے۔ سیاست میں بھی طوائفانہ مزاج کے کرداروں کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی سیاست کی اپنی تاریخ۔ پاکستانی سیاست بھی ان سیاسی طوائفوں سے بھری پڑی ہے۔ برصغیر میں جب انگریز حکمرانوں نے باقاعدہ سیاسی جماعتوں کو ہندوستان میں عوامی سطح پر کام کرنے کی اجازت دی تو پورے ہندوستان میں مختلف النوع سیاسی جماعتیں قائم ہو گئیں۔ مذہب کی بنیاد پر بھی اور نظریات کی بنیاد پر بھی۔ تمام سیاسی جماعتوں میں دو طرح کے افراد شامل تھے۔ ایک طبقہ تو مکمل طور پر نظریات کی بنیاد پر مختلف جماعتوں میں شامل تھا جبکہ دوسرا طبقہ ان افراد پر مشتمل تھا جن کے نہ نظریات تھے‘ نہ کوئی سیاسی بنیاد‘ اس طبقے سے تعلق رکھنےوالے افراد کسی بھی جماعت میں شمولیت اپنے ذاتی اور مالی مفادات کے حوالے سے کرتے تھے۔ صوبہ پنجاب اس حوالے سے خصوصی شناخت کا حامل تھا۔ یہاں قیام پاکستان سے پہلے بھی سیاسی طوائفوں کا بڑا زور تھا کبھی یہاں زمیندارہ لیگ بنتی، کبھی شفیع لیگ تو کبھی یونینسٹ پارٹی۔ طوائفوں کی طرح سیاسی جماعتوں کے اراکین راتوں رات اپنا ڈیرہ دور جدید کے مطابق فارم ہاؤس تبدیل کر لیتے تھے۔ قیام پاکستان کے حوالے سے 1946ء میں منعقد کئے گئے انتخابات میں بھی پنجاب میں مسلم لیگ حکومت بنانے کیلئے اکثریت حاصل کرنے میں ناکام ہو گئی تھی۔ ان انتخابات میں یونینسٹ پارٹی کو اکثریت ملی تھی یونینسٹ پارٹی کی طرف سے خضر حیات ٹوانہ وزیر اعلیٰ پنجاب بنے تھے۔ اس حوالے سے ایک تاریخی لطیفہ بڑا مشہور ہے۔ ہندوستان بھر میں مسلم ووٹ کی اکثریت مسلم لیگ کو حاصل ہو گئی تھی اس لئے پاکستان کا قیام ایک حقیقت کی صورت اختیار کر گیا تھا۔ مسلم لیگ نے پنجاب میں خضر ٹوانہ کے خلاف ایک بڑی احتجاجی مہم کا آغاز کر دیا۔ لاہور میں بڑے بڑے جلوس نکلتے جس میں خضر ٹوانہ کے خلاف نعرے لگائے جاتے۔ ایک دن ایسا ہی جلوس لاہور کی مال روڈ پر نکلا ہوا تھا جس میں خضر ٹوانہ کے خلاف نعرے لگائے جا رہے تھے۔ اچانک جلوس میں کسی نے اطلاع دی کہ خضر ٹوانہ نے مسلم لیگ کی حمایت کا اعلان کر دیا ہے بس پھر جلوس میں فوراً نیا نعرہ گونجنے لگا ’’تازہ خبر آئی اے ٹوانہ ساڈا بھائی اے‘‘ یہ ذکر تو بر سبیل تذکرہ تھا حقیقت یہ ہے کہ پنجاب میں راتوں رات یونینسٹ پارٹی کا نام و نشان ختم ہو گیا۔ پاکستان کو ایک حقیقت محسوس کرتے ہوئے یونینسٹ پارٹی کے تمام سرکردہ اراکین مسلم لیگ میں شامل ہو گئے۔ سیاست میں یہ طوائفانہ مزاج آج بھی پنجاب کی سیاست کا بنیادی جز ہے۔ آج بھی پنجاب میں بڑے بڑے سیاسی گھرانے وہی ہیں جن کے بزرگ یونینسٹ پارٹی کے اراکین تھے۔ پاکستان بننے کے بعد ان سیاسی طوائفوں نے کبھی ری پبلکن پارٹی بنائی تو کبھی کنونشن لیگ کبھی وٹو لیگ تو کبھی چٹھہ لیگ‘ کبھی مساوات پارٹی تو کبھی نیشنل پیپلز پارٹی‘ کبھی پیٹریاٹ تو کبھی (ق) لیگ۔ ہر نئے انتخابات میں پہلے یہ سیاسی طوائفیں انفرادی طور پر بھی اور اجتماعی طور پر بھی اپنے نئے ڈیروں کی تلاش میں سرگرم ہو جاتی ہیں۔ ان سیاسی طوائفوں میں حبہ و دستار والے نظر آتے ہیں تو مخادیم اور سردار بھی۔ بڑی پگ والے جاگیردار ہوں یا خوانین سیاسی طوائفوں کا یہ گروہ اپنے اندر سب کو سموئے ہوئے نظر آتا ہے۔ اب تو روایتی سیاستدانوں کے ساتھ ساتھ سیاست میں نئے داخل ہونے والے طبقات میں شامل کالے کوٹ والے قانون کے خود ساختہ محافظوں کے ساتھ ساتھ ٹائی کوٹ اور مخصوص حجامت والے بھی نئے ڈیروں کی تلاش میں سرگرداں نظر آتے ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ان سیاسی طوائفوں کا ماضی سب پر عیاں ہے پاکستانی سیاست کا کوئی ڈیرہ ایسا نہیں جہاں ان سیاسی طوائفوں کے قدم نہ پہنچے ہوں اس کے باوجود سیاسی مارکیٹ میں ان سیاسی طوائفوں کی مانگ ہر دور میں موجود رہی ہے۔ قارئین بھی اپنے دائیں بائیں نظر ڈالیں تو ہر طرف سیاسی طوائفوں کی سرگرمیاں نظر آئیں گی۔ کیا مخدوم‘ کیا سردار تو کیا نواب‘ کیا چوہدری تو کیا خان‘ چہرے اور نام جدا مگر مزاج میں سب ایک۔