آج کی تاریخ

میرا قائد عمران خان فوجی آپریشن کیخلاف تھا، ہم بھی اس کے خلاف ہیں،نو منتخب وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا محمد سہیل آفریدی-میرا قائد عمران خان فوجی آپریشن کیخلاف تھا، ہم بھی اس کے خلاف ہیں،نو منتخب وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا محمد سہیل آفریدی-ایران کا غزہ امن کانفرنس میں شرکت سے انکار، "اپنے عوام پر حملہ کرنے والوں کے ساتھ نہیں بیٹھ سکتے"، ایرانی وزیرِ خارجہ-ایران کا غزہ امن کانفرنس میں شرکت سے انکار، "اپنے عوام پر حملہ کرنے والوں کے ساتھ نہیں بیٹھ سکتے"، ایرانی وزیرِ خارجہ-سپر ٹیکس کیس کی سماعت میں ججز اور وکلا کے درمیان دلچسپ تبادلہ خیال-سپر ٹیکس کیس کی سماعت میں ججز اور وکلا کے درمیان دلچسپ تبادلہ خیال-پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں شدید مندی، کے ایس ای-100 انڈیکس 4 ہزار پوائنٹس گر گیا-پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں شدید مندی، کے ایس ای-100 انڈیکس 4 ہزار پوائنٹس گر گیا-نیتن یاہو کی ہٹ دھرمی: غزہ میں دوبارہ فوجی کارروائی کا اشارہ-نیتن یاہو کی ہٹ دھرمی: غزہ میں دوبارہ فوجی کارروائی کا اشارہ

تازہ ترین

تیراہ کے سانحے اور ریاستی ذمہ داری کا سوال

خیبر پختونخوا کے ضلع خیبر کے علاقے تیراہ میں مبینہ فضائی بمباری کے نتیجے میں عام شہریوں، خصوصاً خواتین اور بچوں کی ہلاکت کی خبریں ایک بار پھر ریاستی پالیسیوں اور انسدادِ دہشت گردی اقدامات پر سنگین سوالات کھڑے کر رہی ہیں۔ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (HRCP) نے اس پر شدید صدمے کا اظہار کرتے ہوئے فوری اور غیر جانب دارانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔ ابھی تک حکومت یا عسکری اداروں کی جانب سے واقعے کی واضح وضاحت سامنے نہیں آئی، جس سے شکوک و شبہات مزید گہرے ہورہے ہیں۔ ایک پولیس افسر نے غیر رسمی طور پر بتایا کہ چار گھروں کو جیٹ طیاروں نے نشانہ بنایا اور وہ مکمل طور پر تباہ ہوگئے۔ اس افسوسناک واقعے میں صوبائی اسمبلی کے اسپیکر بابراعظم سواتی، صوبائی مشیر سہیل آفریدی اور قومی اسمبلی کے رکن محمد اقبال خان آفریدی سمیت کئی سیاسی رہنماؤں نے اپنی تشویش اور غم کا اظہار کیا ہے، مگر ریاستی سطح پر اب تک خاموشی ہی غالب ہے۔
یہ پہلا موقع نہیں کہ فاٹا کے سابقہ اضلاع یا خیبر پختونخوا کے قبائلی خطوں میں عام شہری عسکری کارروائیوں یا مشتبہ فضائی حملوں کی زد میں آئے ہوں۔ اس سے پہلے بھی وزیرستان اور ملحقہ علاقوں میں ڈرون یا مبینہ کوآڈ کاپٹر حملوں کے نتیجے میں بچوں اور خواتین کی ہلاکت کی خبریں سامنے آچکی ہیں۔ چند ماہ پہلے جنوبی وزیرستان کے وانا اور شمالی وزیرستان کے میرعلی میں ایسے ہی واقعات رونما ہوئے جن میں متعدد معصوم جانیں ضائع ہوئیں۔ ان کے بارے میں بھی شروع میں یہی کہا گیا کہ سیکورٹی فورسز ذمہ دار ہیں، مگر بعد میں عسکری ذرائع نے اسے تحریک طالبان پاکستان (TTP) کی کارروائی قرار دیا۔ اس طرح کے تضاد سے عام لوگوں کے شکوک مزید بڑھتے ہیں اور ریاست پر اعتماد مجروح ہوتا ہے۔
تیراہ کے سانحے نے ایک بار پھر یہ سوال زندہ کردیا ہے کہ انسدادِ دہشت گردی کی جنگ میں عام شہریوں کا تحفظ ریاستی ترجیح کیوں نہیں بن پایا؟ آئین پاکستان کی رو سے ریاست پر لازم ہے کہ ہر شہری کی جان، مال اور عزت کی حفاظت کرے۔ لیکن جب بچوں اور خواتین کی لاشیں ملبے سے برآمد ہوتی ہیں، جب پورے کے پورے گھر مٹھی بھر بموں کی زد میں آجاتے ہیں، تو یہ سوال شدت اختیار کر لیتا ہے کہ ریاست اپنی بنیادی آئینی ذمہ داریوں سے کیوں قاصر ہے؟
یہ بھی حقیقت ہے کہ قبائلی علاقوں نے گزشتہ دو دہائیوں میں سب سے زیادہ قربانیاں دی ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر ان علاقوں میں فوجی آپریشنز ہوئے، لاکھوں لوگ بے گھر ہوئے، ہزاروں جانیں ضائع ہوئیں۔ مگر آج بھی اگر انہی علاقوں کے عوام پر بم برسائے جائیں اور ریاست خاموش رہے تو اس کا مطلب ہے کہ تاریخ سے کچھ نہیں سیکھا گیا۔ ریاستی ادارے اگر یہ سمجھتے ہیں کہ چند دہشت گردوں کو ختم کرنے کے لیے پورے دیہات کو نشانہ بنایا جاسکتا ہے تو یہ نہ صرف غیر اخلاقی ہے بلکہ عسکری حکمتِ عملی کے لحاظ سے بھی نقصان دہ ہے۔ کیونکہ اس سے دہشت گردی ختم نہیں ہوتی بلکہ عام لوگوں کے دلوں میں ریاست کے خلاف غم و غصہ اور نفرت جنم لیتی ہے۔
اس المیے کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ ابھی تک متاثرہ خاندانوں کے لیے کسی قسم کے ریلیف، معاوضے یا بحالی کا اعلان سامنے نہیں آیا۔ صوبائی اسمبلی کے اسپیکر اور مشیر نے اگرچہ تحقیقات اور معاوضے کا مطالبہ کیا ہے، مگر سوال یہ ہے کہ کتنے ایسے واقعات میں متاثرین کو حقیقتاً انصاف اور ازالہ ملا؟ ماضی کے تجربات بتاتے ہیں کہ اکثر متاثرہ خاندان برسوں دربدر رہتے ہیں اور ان کی شکایات فائلوں میں دفن ہوجاتی ہیں۔ اس طرزِ عمل نے ریاست اور مقامی آبادی کے درمیان اعتماد کی خلیج کو مزید وسیع کیا ہے۔
یہ معاملہ صرف انسانی حقوق کی پامالی نہیں بلکہ قومی سلامتی کے تناظر میں بھی نہایت حساس ہے۔ ایک طرف ہم بیرونی دنیا کو یہ باور کراتے ہیں کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف فرنٹ لائن اسٹیٹ ہے، دوسری طرف اندرون ملک اگر عام شہریوں کی لاشیں ہی گرائی جائیں تو عالمی سطح پر ہمارا موقف کمزور ہوجاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہیومن رائٹس کمیشن جیسے ادارے فوری تحقیقات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اگر حکومت ان مطالبات کو نظرانداز کرتی ہے تو یہ نہ صرف اندرونی طور پر سیاسی اور سماجی دباؤ میں اضافے کا سبب بنے گا بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی پاکستان کے خلاف انسانی حقوق کی پامالی کے الزامات کو تقویت دے گا۔
یہاں یہ پہلو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ ایسے واقعات دہشت گرد گروہوں کے لیے پروپیگنڈہ مواد فراہم کرتے ہیں۔ جب معصوم بچوں اور عورتوں کی ہلاکت کی خبریں پھیلتی ہیں تو دہشت گرد تنظیمیں اسے ریاست مخالف بیانیے کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ نتیجتاً ان علاقوں میں ریاست کے خلاف نفرت بڑھتی ہے اور نوجوان دہشت گردوں کے ہاتھوں میں کھیلنے لگتے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ ریاست اپنی حکمتِ عملی میں بنیادی تبدیلی لائے اور عام شہریوں کو کسی بھی کارروائی میں نشانہ بنانے سے گریز کرے۔
پاکستان کی سیاسی قیادت کو بھی اس واقعے پر محض رسمی بیانات دینے کے بجائے عملی اقدامات کرنا ہوں گے۔ پارلیمنٹ میں اس معاملے پر بحث ہونی چاہیے، مشترکہ تحقیقاتی کمیشن بنایا جانا چاہیے اور اس کی رپورٹ کو عوام کے سامنے لایا جانا چاہیے۔ متاثرہ خاندانوں کو فوری معاوضہ اور بحالی کا پیکیج دیا جانا چاہیے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ آئندہ ایسے واقعات کو روکنے کے لیے واضح اور شفاف پالیسی ترتیب دینی ہوگی۔
تیراہ کے معصوم شہداء کی جانوں کا نذرانہ ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ اگر ریاست اپنی پالیسیوں میں شفافیت اور احتساب کو شامل نہیں کرے گی تو نہ صرف انسانی حقوق کی پامالی جاری رہے گی بلکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بھی ہم کامیاب نہیں ہوسکیں گے۔ دہشت گردی کو جڑ سے ختم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ریاست اپنی طاقت صرف اور صرف دہشت گردوں کے خلاف استعمال کرے، نہ کہ بے گناہ شہریوں پر۔ اس کے ساتھ ساتھ متاثرہ علاقوں میں تعلیم، صحت، روزگار اور سماجی انصاف کے مواقع فراہم کرنا ہوں گے تاکہ عوام کا اعتماد بحال ہو اور وہ ریاست کو اپنا محافظ سمجھ سکیں، نہ کہ اپنے گھروں کے مسمار کرنے والا۔
یہ اداریہ اسی مطالبے کے ساتھ ختم کرنا مناسب ہے کہ تیراہ سانحے کی غیر جانبدارانہ اور شفاف تحقیقات فوری طور پر کرائی جائیں، ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے اور متاثرہ خاندانوں کو فوری ریلیف دیا جائے۔ آئین پاکستان کی روح یہی ہے کہ ہر شہری کی جان کی حفاظت ریاست کی اولین ذمہ داری ہے۔ اگر یہ ذمہ داری پوری نہ کی گئی تو نہ صرف انسانی حقوق کی پامالی ہوگی بلکہ ریاستی عملداری بھی کمزور پڑ جائے گی، جو کسی بھی ملک کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔

شیئر کریں

:مزید خبریں