نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا 80واں اجلاس شروع ہوچکا ہے اور دنیا کے تقریباً 150 ممالک کے رہنما اس میں شریک ہیں۔ یہ اجلاس ایسے وقت میں منعقد ہورہا ہے جب عالمی امن فورم خود شدید دباؤ اور بحرانوں کی زد میں ہے۔ خاص طور پر غزہ میں جاری نسل کشی، مشرق وسطیٰ میں بڑھتی ہوئی کشیدگی، بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر کی صورت حال، یوکرین جنگ، موسمیاتی تبدیلی، عالمی اقتصادی بحران اور اسلاموفوبیا جیسے مسائل نے دنیا کے اجتماعی ضمیر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ آیا یہ اجلاس محض جوشیلی تقاریر، رسمی قراردادوں اور سفارتی بیانات پر ختم ہوگا یا واقعی دنیا کو امن، انصاف اور انسانی وقار کی سمت آگے بڑھانے کے لیے کوئی عملی راستہ متعین کرے گا۔
غزہ کے سانحے کو دیکھنا اس وقت سب سے بڑی اخلاقی اور انسانی ذمہ داری ہے۔ اکتوبر 2023 کے بعد سے اسرائیل نے نہ صرف غزہ کو کھنڈر میں بدل دیا بلکہ لاکھوں فلسطینیوں کو بے گھر اور ہزاروں کو شہید کر دیا ہے۔ اقوام متحدہ کی اپنی انکوائری کمیشن نے واضح طور پر کہا ہے کہ اسرائیلی قیادت نے نسل کشی کے جرم کو بھڑکایا اور اس پر عمل کیا ہے۔ دنیا بھر کے معتبر ادارے — ایمنسٹی انٹرنیشنل، ہیومن رائٹس واچ، ڈاکٹرز وِد آؤٹ بارڈرز، اور اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندگان — سب اس ظلم کو نسل کشی قرار دے چکے ہیں۔ مگر المیہ یہ ہے کہ سلامتی کونسل کی سطح پر ہر بار امریکہ اپنے ویٹو کے ذریعے اسرائیل کو بچا لیتا ہے۔ صرف گزشتہ برس سے اب تک چھ بار امریکہ نے جنگ بندی کی قراردادوں کو ویٹو کیا۔ اس طرح یہ پیغام دنیا کو ملتا ہے کہ عالمی قانون اور انسانی حقوق صرف کمزور ممالک کے لیے ہیں، طاقتور اتحادیوں کے لیے نہیں۔
اسی پس منظر میں جنرل اسمبلی کا یہ اجلاس عالمی برادری کو موقع فراہم کرتا ہے کہ وہ امریکہ کی رکاوٹوں کو نظر انداز کرتے ہوئے اکثریتی آواز بلند کرے۔ جنرل اسمبلی کے پاس اگرچہ سلامتی کونسل جیسے نافذ العمل اختیارات نہیں، لیکن عالمی ضمیر کی نمائندگی اور سیاسی دباؤ پیدا کرنے کا سب سے بڑا فورم یہی ہے۔ اگر جنرل اسمبلی اسرائیل پر معاشی اور سفارتی پابندیوں کی قرارداد منظور کرتی ہے، اس کے ساتھ اسلحہ کی ترسیل پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کرتی ہے اور عالمی فوجداری عدالت میں اسرائیلی قیادت کے خلاف مقدمات کو سپورٹ کرتی ہے، تو یہ ایک بڑی پیش رفت ہوگی۔
پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف اس اجلاس میں پاکستان کی نمائندگی کررہے ہیں۔ ان کا ایجنڈا نہ صرف فلسطین بلکہ بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر کے عوام کی جدوجہدِ حقِ خودارادیت کو بھی عالمی برادری کے سامنے پیش کرنا ہے۔ دونوں مسائل ایک دوسرے سے جڑے ہیں: ایک طرف غزہ میں فلسطینی عوام کو ان کے گھروں سے بے دخل کیا جارہا ہے اور دوسری طرف کشمیر میں کشمیری عوام کو مسلسل کرفیو، گرفتاریوں اور انسانی حقوق کی پامالی کا سامنا ہے۔ اگر عالمی ضمیر فلسطین پر خاموش رہا تو کل کو کشمیر میں بھی اسی طرح کے مظالم مزید شدت اختیار کرسکتے ہیں۔ پاکستان کو اس اجلاس میں واضح اور بلند آواز میں یہ موقف دہرانا ہوگا کہ دنیا کے کسی بھی حصے میں مقبوضہ عوام کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم نہیں کیا جاسکتا۔
پاکستانی وفد کا یہ بھی فرض ہے کہ وہ اجلاس کے دوران مسلم دنیا کے رہنماؤں کے ساتھ قریبی رابطے استوار کرے۔ گزشتہ دنوں دوحہ میں ہونے والی اسلامی ممالک کی سربراہی کانفرنس کے ناکام نتائج نے واضح کیا ہے کہ مسلم دنیا اب بھی عملی اقدامات کرنے پر آمادہ نہیں۔ جنرل اسمبلی میں پاکستان، ترکی، سعودی عرب، ایران، ملائشیا اور دیگر مسلم ممالک اگر مشترکہ قرارداد لائیں اور عالمی اکثریت کو ساتھ ملائیں تو اسرائیل پر دباؤ ڈالا جاسکتا ہے۔ صرف نعروں اور بیانات سے آگے بڑھ کر ٹھوس منصوبہ بندی کرنا وقت کی ضرورت ہے۔
یہ اجلاس پاکستان کے لیے ایک اور موقع فراہم کرتا ہے کہ وہ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو عالمی ایجنڈے پر رکھے۔ گزشتہ برسوں میں پاکستان کو تباہ کن سیلابوں کا سامنا رہا جس نے کروڑوں لوگوں کو بے گھر کیا اور اربوں ڈالر کا نقصان پہنچایا۔ جنوبی ایشیا، مشرق وسطیٰ اور افریقہ کے ممالک سب اس بحران کے شکار ہیں۔ پاکستان کو چاہیے کہ وہ ’’کلائمیٹ جسٹس” کے اصول کو عالمی برادری کے سامنے رکھے، یعنی وہ ممالک جو صنعتی آلودگی کے سب سے بڑے ذمہ دار ہیں، انہیں ماحولیاتی تباہی کے شکار ممالک کی امداد اور بحالی میں مرکزی کردار ادا کرنا چاہیے۔
اسی طرح اسلاموفوبیا کے بڑھتے ہوئے رجحان پر بھی بات ضروری ہے۔ یورپ اور امریکہ میں مسلمانوں کے خلاف تعصب بڑھ رہا ہے، اور قرآنِ پاک کی بے حرمتی جیسے واقعات عالمی سطح پر مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کررہے ہیں۔ پاکستان کو جنرل اسمبلی کے پلیٹ فارم پر یہ موقف بھرپور انداز میں پیش کرنا ہوگا کہ مذہبی آزادی اور احترامِ عقائد عالمی اصول ہیں اور ان کی پامالی عالمی امن کو خطرے میں ڈال دیتی ہے۔
یہ اجلاس اس لحاظ سے بھی تاریخی ہے کہ اقوام متحدہ اپنی 80ویں سالگرہ منا رہا ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ گزشتہ آٹھ دہائیوں میں اقوام متحدہ نے کتنے تنازعات کو مستقل بنیادوں پر حل کیا؟ فلسطین کا مسئلہ تو اقوام متحدہ کی پیدائش سے ہی جڑا ہے، مگر آج بھی حل طلب ہے۔ کشمیر کا مسئلہ بھی اقوام متحدہ کی قراردادوں کے باوجود حل نہیں ہوا۔ یہ صورتحال اقوام متحدہ کی ساکھ پر ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔ اگر جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل دونوں ہی عالمی طاقتوں کی مرضی کے بغیر بے اثر رہتے ہیں تو پھر یہ ادارہ دنیا کے کمزور ممالک کے لیے کس کام کا ہے؟
اب وقت آگیا ہے کہ اقوام متحدہ اپنی ساکھ بحال کرنے کے لیے عملی اقدامات کرے۔ فلسطین میں فوری جنگ بندی، انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد کی فراہمی، اسرائیل پر پابندیاں، اور کشمیری عوام کو حقِ خودارادیت دلوانے کی کوششیں — یہ وہ اقدامات ہیں جو اقوام متحدہ کی اہمیت کو دوبارہ تسلیم کروا سکتے ہیں۔
آخر میں یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ جنرل اسمبلی کا یہ اجلاس عالمی ضمیر کا امتحان ہے۔ اگر دنیا کے رہنما محض تقاریر اور رسمی بیانات پر اکتفا کریں گے تو نہ صرف فلسطینی عوام کی نسل کشی جاری رہے گی بلکہ عالمی امن مزید غیر محفوظ ہوگا۔ لیکن اگر عالمی اکثریت ہمت دکھائے اور امریکہ کے ویٹو کی دیوار کو جنرل اسمبلی کے پلیٹ فارم سے توڑنے کی کوشش کرے تو تاریخ کا دھارا بدلا جاسکتا ہے۔ پاکستان کو چاہیے کہ وہ اپنے اصولی موقف کے ساتھ ڈٹ کر کھڑا ہو، مظلوموں کی آواز بنے اور دنیا کو یاد دلائے کہ اقوام متحدہ کا اصل مقصد جنگ کو روکنا اور انسانی وقار کو بلند کرنا ہے، نہ کہ طاقتور ممالک کی مرضی کے مطابق کمزوروں پر ظلم کو جائز ٹھہرانا۔
