آج کی تاریخ

میرا قائد عمران خان فوجی آپریشن کیخلاف تھا، ہم بھی اس کے خلاف ہیں،نو منتخب وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا محمد سہیل آفریدی-میرا قائد عمران خان فوجی آپریشن کیخلاف تھا، ہم بھی اس کے خلاف ہیں،نو منتخب وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا محمد سہیل آفریدی-ایران کا غزہ امن کانفرنس میں شرکت سے انکار، "اپنے عوام پر حملہ کرنے والوں کے ساتھ نہیں بیٹھ سکتے"، ایرانی وزیرِ خارجہ-ایران کا غزہ امن کانفرنس میں شرکت سے انکار، "اپنے عوام پر حملہ کرنے والوں کے ساتھ نہیں بیٹھ سکتے"، ایرانی وزیرِ خارجہ-سپر ٹیکس کیس کی سماعت میں ججز اور وکلا کے درمیان دلچسپ تبادلہ خیال-سپر ٹیکس کیس کی سماعت میں ججز اور وکلا کے درمیان دلچسپ تبادلہ خیال-پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں شدید مندی، کے ایس ای-100 انڈیکس 4 ہزار پوائنٹس گر گیا-پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں شدید مندی، کے ایس ای-100 انڈیکس 4 ہزار پوائنٹس گر گیا-نیتن یاہو کی ہٹ دھرمی: غزہ میں دوبارہ فوجی کارروائی کا اشارہ-نیتن یاہو کی ہٹ دھرمی: غزہ میں دوبارہ فوجی کارروائی کا اشارہ

تازہ ترین

ٹرانس جینڈر افراد کے قتل کی بڑھتی وارداتیں اور ریاستی ذمہ داری

کراچی کے علاقے میمن گوٹھ سے تین ٹرانس جینڈر افراد کی لاشوں کا برآمد ہونا ایک ہولناک سانحہ ہے جو نہ صرف انسانی جان کے ضیاع کا المیہ ہے بلکہ ہمارے معاشرے کی گہری تعصباتی جڑوں کو بھی آشکار کرتا ہے۔ لاشوں پر گولیوں کے نشان اور سفاکیت کا مظاہرہ یہ بتاتا ہے کہ یہ کوئی اتفاقی واردات نہیں بلکہ ایک سوچے سمجھے نفرت پر مبنی عمل ہے۔ سوال یہ ہے کہ آخر پاکستان میں ٹرانس جینڈر افراد کو کب تک اس ظلم و بربریت کا سامنا کرنا پڑے گا؟
یہ پہلا واقعہ نہیں۔ پشاور، مردان، ملاکنڈ اور ملک کے دیگر حصوں سے ایسی وارداتوں کی خبریں بار بار سامنے آتی رہی ہیں۔ کبھی فائرنگ، کبھی چھریوں کے وار اور کبھی اجتماعی حملے—یہ سب ہمارے لیے لمحۂ فکریہ ہونا چاہیے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ اصل اعداد و شمار کہیں زیادہ ہیں کیونکہ خوف اور سماجی بدنامی کے باعث زیادہ تر واقعات رپورٹ ہی نہیں ہوتے۔
اس صورتحال کے کئی پہلو ہیں۔ سب سے پہلے یہ کہ ٹرانس جینڈر افراد پہلے ہی سماجی اور معاشی طور پر انتہائی کمزور طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ خاندانوں کی جانب سے بے دخلی، روزگار کے مواقع نہ ملنا، تعلیم تک محدود رسائی اور سماجی امتیاز انہیں مزید کمزور بنا دیتا ہے۔ نتیجتاً وہ ایسے حالات میں رہنے پر مجبور ہوتے ہیں جہاں ان پر حملے کرنا آسان اور سزا سے بچنا بھی سہل ہو جاتا ہے۔
یہ بات بھی افسوسناک ہے کہ اگرچہ سندھ حکومت اور پولیس حکام نے فوری نوٹس لیا ہے اور خصوصی ٹیمیں تشکیل دی گئی ہیں، لیکن اس طرح کے اقدامات اکثر وقتی ثابت ہوتے ہیں۔ ماضی کے تجربات بتاتے ہیں کہ ایسے واقعات کے بعد سخت بیانات اور اعلیٰ سطح پر ہدایات تو جاری ہوتی ہیں، لیکن مجرموں کو سزا تک پہنچانے میں ریاست اکثر ناکام رہتی ہے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ قاتلوں کے حوصلے بلند ہوتے ہیں اور ٹرانس جینڈر کمیونٹی مزید خوف اور عدم تحفظ کا شکار ہو جاتی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں ٹرانس جینڈر افراد کے ساتھ امتیازی سلوک اور نفرت انگیز رویے محض جرائم پیشہ عناصر کی کارستانیاں نہیں بلکہ یہ رویے ہمارے سماجی ڈھانچے اور سوچ میں سرایت کر چکے ہیں۔ جب تک معاشرے میں یہ سوچ موجود رہے گی کہ ٹرانس جینڈر افراد کسی طرح “کمتر” یا “قابلِ تمسخر” ہیں، اس وقت تک ان پر ہونے والے تشدد کو روکنا ممکن نہیں ہوگا۔
ریاست کو یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ یہ محض چند افراد کے قتل کا مسئلہ نہیں بلکہ ایک پورے طبقے کے بنیادی انسانی حقوق کی پامالی ہے۔ نفرت انگیز تقریر، امتیازی رویوں اور تشدد کو روکنے کے لیے صرف پولیس کارروائی کافی نہیں بلکہ ایک جامع پالیسی کی ضرورت ہے۔ اس میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی تربیت، کمیونٹی کی شمولیت، تعلیمی نصاب میں برداشت اور انسانی حقوق کی تعلیم، اور میڈیا پر مثبت نمائندگی جیسے اقدامات شامل ہونے چاہئیں۔
یہ بھی ضروری ہے کہ ٹرانس جینڈر افراد کو محض “خیرات یا ہمدردی” کے دائرے میں نہ دیکھا جائے بلکہ انہیں مساوی شہری کے طور پر تسلیم کیا جائے۔ جب تک انہیں تعلیم، صحت، روزگار اور رہائش کے یکساں مواقع نہیں ملیں گے، وہ معاشرتی طور پر کمزور رہیں گے اور ایسے حملوں کا آسان شکار بنتے رہیں گے۔
کراچی کا حالیہ واقعہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ ریاستی ادارے اور حکومتیں محض بیانات کے ذریعے اپنی ذمہ داری سے سبکدوش نہیں ہو سکتیں۔ اصل امتحان اس وقت ہوگا جب قاتل گرفتار ہو کر قانون کے مطابق سزا پائیں گے اور اس کے ساتھ ساتھ مستقبل میں ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے ٹھوس اقدامات کیے جائیں گے۔
پاکستان کے عوام اور ریاست دونوں کو یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ کیا ہم ایک ایسا معاشرہ چاہتے ہیں جو اپنے کمزور ترین طبقے کے تحفظ کی ضمانت دے یا پھر ایک ایسا سماج جہاں نفرت، تشدد اور امتیاز کی آگ سب کچھ جلا ڈالے۔ ٹرانس جینڈر افراد کے قتل کے بڑھتے واقعات ہمیں بار بار یہ یاد دلاتے ہیں کہ یہ محض ایک کمیونٹی کا مسئلہ نہیں بلکہ ہمارے اجتماعی ضمیر کا امتحان ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ حالیہ المناک واقعے کو محض ایک اور خبر سمجھ کر نظرانداز نہ کیا جائے بلکہ اسے اس بڑے سماجی المیے کا حصہ تصور کیا جائے جس کا سامنا پاکستان میں ٹرانس جینڈر کمیونٹی برسوں سے کر رہی ہے۔ یہ واقعات ہمیں اس بنیادی سوال کی طرف لے جاتے ہیں کہ آخر ریاست اپنی ہی شہریوں کی جان و مال کے تحفظ میں کیوں ناکام ہے؟ اور معاشرہ ان کمزور اور غیر محفوظ افراد کے لیے نفرت کیوں پال رہا ہے جنہیں سب سے زیادہ ہمدردی اور معاونت کی ضرورت ہے۔
پاکستان نے 2018ء میں ٹرانس جینڈر پرسنز (تحفظِ حقوق) ایکٹ منظور کر کے دنیا کو یہ پیغام دیا تھا کہ وہ صنفی اقلیتوں کے بنیادی حقوق کی حفاظت کرے گا۔ اس قانون کے تحت ٹرانس جینڈر افراد کو شناختی کارڈ، تعلیم، روزگار اور وراثت میں حق دینے کی ضمانت دی گئی۔ لیکن عملاً یہ قانون آج بھی کاغذوں میں قید ہے۔ اگرچہ چند مقامات پر اس کی بنیاد پر روزگار اور تعلیم میں دروازے کھلے، مگر بڑے پیمانے پر معاشرتی رویے اور ریاستی اداروں کا طرزِ عمل اب بھی انہی پرانے تعصبات اور نفرتوں کا عکاس ہے۔
یہ سوال بھی اہم ہے کہ آخر پولیس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے ٹرانس جینڈر افراد پر حملوں کے پیچھے چھپی نفرت انگیز سوچ کو کیوں نہیں پہچان پاتے؟ اکثر دیکھا گیا ہے کہ ایسے مقدمات میں یا تو تاخیر سے ایف آئی آر درج ہوتی ہے، یا پھر نامعلوم افراد کے خلاف کارروائی شروع کر کے معاملہ سرد خانے کی نذر کر دیا جاتا ہے۔ قاتل اور حملہ آور اکثر چھوٹ جاتے ہیں اور متاثرہ خاندان یا برادری مزید خوف اور خاموشی میں دب جاتی ہے۔ اس بے عملی اور نااہلی نے معاشرے میں یہ تاثر مضبوط کیا ہے کہ ٹرانس جینڈر افراد کی جان کی کوئی قیمت نہیں۔
اس کے برعکس ہمیں ایک ایسا قومی بیانیہ تشکیل دینا ہوگا جو یہ واضح کرے کہ ٹرانس جینڈر افراد بھی اسی زمین کے شہری ہیں، اور ان کی زندگی اتنی ہی قیمتی ہے جتنی کسی اور شہری کی۔ مدارس، مساجد، اسکولوں اور یونیورسٹیوں کے نصاب میں صنفی مساوات اور انسانی وقار کے پہلو کو شامل کرنا وقت کی ضرورت ہے۔ میڈیا کو بھی چاہیے کہ وہ ان کی مثبت نمائندگی کرے تاکہ معاشرے میں بیداری آئے۔
مزید یہ کہ سول سوسائٹی اور انسانی حقوق کی تنظیموں کو حکومت پر دباؤ ڈالنا ہوگا کہ وہ محض بیانات پر اکتفا نہ کرے بلکہ ایک جامع قومی حکمتِ عملی وضع کرے جس کے تحت:
(1)نفرت انگیز جرائم کے خلاف سخت قوانین پر عمل درآمد کیا جائے اور انہیں قابلِ گرفت اور ناقابلِ ضمانت جرم قرار دیا جائے۔
(2)پولیس میں خصوصی تربیت یافتہ یونٹس تشکیل دیے جائیں جو صنفی اقلیتوں کے تحفظ اور ان کے مقدمات کی حساسیت کو سمجھ سکیں۔
(3)پناہ گاہوں اور قانونی امداد کے مراکز قائم کیے جائیں تاکہ متاثرہ افراد فوری طور پر تحفظ اور انصاف حاصل کر سکیں۔
(4)معاشی خودمختاری کے منصوبے شروع کیے جائیں، خاص طور پر تعلیم، ہنر سکھانے اور روزگار کی فراہمی کے پروگرام تاکہ یہ کمیونٹی محتاجی اور غیر رسمی پیشوں پر انحصار نہ کرے۔
(5)نفرت انگیز تقاریر اور سوشل میڈیا مہمات کے خلاف سخت کارروائی کی جائے تاکہ یہ زہر معاشرے میں مزید نہ پھیلے۔
کراچی کا سانحہ ایک بار پھر ہمیں جھنجھوڑ رہا ہے کہ اگر اب بھی ہم نے اجتماعی طور پر اپنی ذمہ داری محسوس نہ کی تو آنے والے وقت میں یہ نفرت اور زیادہ پھیلے گی اور مزید زندگیاں چھین لے گی۔

شیئر کریں

:مزید خبریں