آج کی تاریخ

میرا قائد عمران خان فوجی آپریشن کیخلاف تھا، ہم بھی اس کے خلاف ہیں،نو منتخب وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا محمد سہیل آفریدی-میرا قائد عمران خان فوجی آپریشن کیخلاف تھا، ہم بھی اس کے خلاف ہیں،نو منتخب وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا محمد سہیل آفریدی-ایران کا غزہ امن کانفرنس میں شرکت سے انکار، "اپنے عوام پر حملہ کرنے والوں کے ساتھ نہیں بیٹھ سکتے"، ایرانی وزیرِ خارجہ-ایران کا غزہ امن کانفرنس میں شرکت سے انکار، "اپنے عوام پر حملہ کرنے والوں کے ساتھ نہیں بیٹھ سکتے"، ایرانی وزیرِ خارجہ-سپر ٹیکس کیس کی سماعت میں ججز اور وکلا کے درمیان دلچسپ تبادلہ خیال-سپر ٹیکس کیس کی سماعت میں ججز اور وکلا کے درمیان دلچسپ تبادلہ خیال-پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں شدید مندی، کے ایس ای-100 انڈیکس 4 ہزار پوائنٹس گر گیا-پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں شدید مندی، کے ایس ای-100 انڈیکس 4 ہزار پوائنٹس گر گیا-نیتن یاہو کی ہٹ دھرمی: غزہ میں دوبارہ فوجی کارروائی کا اشارہ-نیتن یاہو کی ہٹ دھرمی: غزہ میں دوبارہ فوجی کارروائی کا اشارہ

تازہ ترین

مالی شفافیت اور جیو پالیٹکس

امریکہ کے محکمہ خارجہ کی جانب سے جاری ہونے والی 2025 فِسکل ٹرانسپیرنسی رپورٹ نے پاکستان کو ایک بار پھر تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کے فوجی اور انٹیلی جنس بجٹ کو پارلیمانی یا سویلین نگرانی کے تابع ہونا چاہیے تاکہ مالیاتی شفافیت اور احتساب کے عمل کو بہتر بنایا جا سکے۔ بظاہر یہ ایک تکنیکی سفارش ہے، مگر گہرائی میں دیکھا جائے تو یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا یہ رپورٹ واقعی خالص مالیاتی شفافیت کو مدنظر رکھ کر تیار کی گئی ہے یا پھر اس کے پیچھے جیو پالیٹیکل ترجیحات اور ذاتی پسند و ناپسند کارفرما ہیں۔
یہ حقیقت سب پر عیاں ہے کہ امریکہ کی اپنی عسکری اسٹیبلشمنٹ دنیا کی سب سے بڑی فوجی طاقت ہے جس کا بجٹ کھربوں ڈالر سے تجاوز کر چکا ہے، مگر اس بجٹ کے بڑے حصے کی نگرانی محض چند کمیٹیوں تک محدود رہتی ہے۔ مزید یہ کہ دنیا کے کئی ایسے ممالک، جو امریکی پالیسیوں کی اندھی تقلید کرتے ہیں، ان کے دفاعی اخراجات کی تفصیلات نہ عوامی سطح پر دستیاب ہیں اور نہ پارلیمانی نگرانی میں، لیکن ان پر امریکی رپورٹوں میں لب کشائی تک نہیں کی جاتی۔ یوں یہ رپورٹ محض مالیاتی شفافیت کا مطالبہ نہیں بلکہ سیاسی دباؤ کا ہتھیار دکھائی دیتی ہے۔
پاکستان کے بارے میں تنقید کی اصل وجہ اس کی بدلتی ہوئی جیو پالیٹیکل ترجیحات بھی ہیں۔ چین کے ساتھ سی پیک کا پھیلاؤ محض ایک اقتصادی منصوبہ نہیں بلکہ خطے میں تزویراتی توازن کا اہم ستون ہے۔ روس کے ساتھ توانائی اور دفاعی تعاون کی راہیں تلاش کرنا بھی واشنگٹن کو ناگوار گزرتا ہے۔ ایران کے ساتھ سرحدی تعاون اور سعودی عرب کے ساتھ حالیہ دفاعی معاہدہ امریکی پالیسیوں کے برعکس پیش رفت ہیں۔ یہی وہ تناظر ہے جس میں پاکستان پر مالیاتی شفافیت کے نام پر تنقید کو زیادہ نمایاں کیا جا رہا ہے۔
تاہم اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ پاکستان کی اپنی مالیاتی پالیسیوں اور ادارہ جاتی ڈھانچوں میں سنگین نقائص موجود ہیں۔ دفاعی اور انٹیلی جنس اخراجات کا بڑا حصہ آج بھی پارلیمانی نگرانی سے باہر ہے۔ ریاستی اداروں کے قرضے اور واجبات کی تفصیلات اکثر مبہم رہتی ہیں۔ ترقیاتی بجٹ کا بڑا حصہ یا تو استعمال ہی نہیں ہوتا یا پھر سیاسی ترجیحات کے تحت غیر شفاف طریقے سے خرچ کر دیا جاتا ہے۔ اس پس منظر میں یہ ضروری ہے کہ ہم محض بیرونی تنقید کو جیو پالیٹکس کا شاخسانہ قرار دے کر مطمئن نہ ہو جائیں بلکہ اپنی داخلی اصلاحات کی ضرورت کو بھی تسلیم کریں۔
پاکستان کے لیے آگے کا راستہ یہ ہے کہ ایک طرف اپنی خودمختاری کا تحفظ کرے اور امریکی یا کسی اور طاقت کے دباؤ میں آ کر اپنی خارجہ یا دفاعی پالیسی نہ بدلے، اور دوسری طرف مالیاتی شفافیت کو بہتر بنانے کے لیے عملی اقدامات کرے۔ قرضوں کی تفصیلات کی بروقت فراہمی، دفاعی اخراجات پر کم از کم پارلیمانی سطح پر بحث، اور بجٹ سازی کے عمل کو زیادہ عوامی و شفاف بنانا نہ صرف عوامی اعتماد کی بحالی کے لیے ضروری ہے بلکہ بیرونی سرمایہ کاروں کے لیے بھی مثبت اشارہ ہوگا۔
اصل سوال یہ نہیں کہ امریکہ ہمیں کیا کہہ رہا ہے بلکہ یہ ہے کہ ہم اپنے عوام کو کیا جواب دے رہے ہیں۔ کیا ہم اپنی معیشت اور مالیاتی اداروں کو اس قابل بنا رہے ہیں کہ وہ کرپشن، بدانتظامی اور عدم شفافیت سے پاک ہوں؟ کیا ہم بجٹ سازی اور قرضوں کے معاملات میں وہ اعتماد پیدا کر پا رہے ہیں جو عوام اور عالمی برادری دونوں کے لیے قابلِ قبول ہو؟ اگر ہم نے ان سوالوں کو نظرانداز کیا تو نہ صرف امریکی رپورٹیں بار بار ہمارے لیے پریشانی کا باعث بنتی رہیں گی بلکہ ہماری اپنی معیشت اور عوامی اعتماد بھی کمزور سے کمزور تر ہوتا جائے گا۔
پاکستان کے حکمران طبقات کو یہ سمجھنا ہوگا کہ جیو پالیٹیکل مجبوریوں کا سہارا لے کر داخلی کمزوریوں پر پردہ ڈالنا زیادہ دیر ممکن نہیں۔ ہمیں اپنی خودمختاری پر سمجھوتہ کیے بغیر اصلاحات کو آگے بڑھانا ہوگا۔ یہی وہ راستہ ہے جو ایک طرف ہمیں بیرونی دباؤ سے محفوظ رکھے گا اور دوسری طرف عوامی اعتماد اور عالمی سرمایہ کاروں کا یقین بھی بحال کرے گا۔
پاکستان کی تاریخ میں یہ کوئی پہلا موقع نہیں کہ اس کے مالیاتی ڈھانچے پر سوالات اٹھائے گئے ہوں۔ 1980ء اور 1990ء کی دہائیوں میں بھی پاکستان کو اکثر بیرونی مالیاتی اداروں جیسے آئی ایم ایف اور عالمی بینک سے یہ تنقید سننی پڑتی تھی کہ بجٹ میں شفافیت نہیں، قرضوں کی تفصیلات چھپائی جاتی ہیں، اور ترقیاتی منصوبوں پر اخراجات کی تفصیلات مبہم رکھی جاتی ہیں۔ لیکن ان تنقیدوں کے باوجود اکثر اوقات یہ ادارے اپنی سیاسی مصلحتوں کے تحت پاکستان کو قرضے دیتے رہے۔ اس تضاد نے یہ سوال جنم دیا کہ کیا مالیاتی شفافیت واقعی ان اداروں اور امریکہ کے لیے بنیادی اصول ہے یا پھر یہ اصول صرف اسی وقت لاگو ہوتا ہے جب کوئی ملک امریکی پالیسیوں سے ہٹ کر چل رہا ہو۔
امریکی رپورٹ میں دفاعی اور انٹیلی جنس بجٹ پر زیادہ زور دیا گیا ہے۔ یہ بات درست ہے کہ پاکستان کے دفاعی اخراجات کی تفصیلات عموماً عوامی سطح پر دستیاب نہیں ہوتیں اور پارلیمان میں ان پر کھلی بحث نہیں ہوتی۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ دنیا کے کئی ممالک، بشمول امریکہ اور بھارت، اپنے دفاعی بجٹ کے کچھ حصے کو خفیہ رکھتے ہیں۔ امریکہ کے “بلیک بجٹ” کی مثال سامنے ہے جس میں سی آئی اے اور دیگر انٹیلی جنس اداروں کے اربوں ڈالر کے اخراجات شامل ہوتے ہیں اور ان پر نہ عوامی سطح پر بحث ہوتی ہے اور نہ ہی انہیں تفصیلاً جاری کیا جاتا ہے۔ تو پھر سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان سے اس معاملے میں وہ معیار مانگنا جس پر خود بڑی طاقتیں عمل نہیں کرتیں، انصاف کے اصولوں کے مطابق ہے؟
یہاں یہ بھی دیکھنا ضروری ہے کہ پاکستان نے حالیہ برسوں میں اپنی معیشت اور مالیاتی ڈھانچے کو بہتر بنانے کے لیے کچھ اہم اقدامات کیے ہیں۔ نیشنل فنانشل انکلوزن پالیسی، ایف اے ٹی ایف کی شرائط پر عمل درآمد، ٹیکس نیٹ کو بڑھانے کے اقدامات، اور آڈیٹر جنرل کے ادارے کو مزید خودمختار بنانے جیسے اقدامات کم نہیں ہیں۔ ان کوششوں کو نظرانداز کر کے صرف مخصوص شعبوں کو ہدف تنقید بنانا اس امر کی نشاندہی کرتا ہے کہ امریکی رپورٹ کا مقصد محض اصلاحات کی نشاندہی نہیں بلکہ سیاسی دباؤ ڈالنا بھی ہے۔
پاکستان کے بدلتے ہوئے دفاعی اور خارجہ تعلقات کو اس تنقید کے تناظر میں دیکھنا ضروری ہے۔ سعودی عرب کے ساتھ “اسٹریٹجک میوچوئل ڈیفنس ایگریمنٹ”، چین کے ساتھ نئی سرمایہ کاری اور ٹیکنالوجی کے معاہدے، ایران کے ساتھ بارڈر سیکیورٹی تعاون اور روس کے ساتھ توانائی کی شراکت—یہ سب ایسے اقدامات ہیں جو امریکہ کو پسند نہیں آ سکتے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ کے نزدیک پاکستان کو “مالیاتی شفافیت” کے پیمانے پر پرکھنا اب محض ایک اقتصادی سوال نہیں بلکہ سیاسی دباؤ کا ذریعہ بھی ہے۔
تاہم پاکستان کے لیے سب سے بڑی آزمائش یہ ہے کہ وہ اپنے عوام کو کیسے مطمئن کرتا ہے۔ اگر بجٹ سازی اور اخراجات کے نظام میں شفافیت نہیں ہوگی تو عوامی اعتماد مزید متزلزل ہوگا۔ مثال کے طور پر، ترقیاتی بجٹ کے بارے میں اکثر رپورٹیں آتی ہیں کہ اس کا بڑا حصہ یا تو استعمال ہی نہیں ہوتا یا پھر غیر ضروری منصوبوں پر خرچ کر دیا جاتا ہے۔ اس سے نہ صرف معیشت کمزور ہوتی ہے بلکہ عوام میں بداعتمادی بھی بڑھتی ہے۔
اسی لیے پاکستان کو چاہیے کہ وہ اپنی مالیاتی پالیسیوں میں تین بڑے اقدامات کرے:
اول، دفاعی اور انٹیلی جنس بجٹ کے کم از کم کچھ حصے کو پارلیمانی کمیٹیوں کے سامنے پیش کیا جائے تاکہ عوامی نمائندے یہ جان سکیں کہ قومی وسائل کہاں اور کس طرح استعمال ہو رہے ہیں۔ دوم، قرضوں کی تفصیلات، خاص طور پر ریاستی اداروں کے قرضوں کی، باقاعدگی سے شائع کی جائیں تاکہ عوام اور سرمایہ کاروں کو حقیقت معلوم ہو سکے۔ سوم، ترقیاتی منصوبوں پر اخراجات کی تفصیلات شفاف انداز میں سامنے لائی جائیں اور ان کے نتائج کی جانچ کے لیے ایک آزاد ادارہ قائم کیا جائے۔
یہ اقدامات صرف بیرونی دباؤ کو کم کرنے کے لیے نہیں بلکہ داخلی استحکام اور عوامی اعتماد کی بحالی کے لیے بھی ضروری ہیں۔ پاکستان کو اپنی پالیسیوں میں اتنی قوت پیدا کرنی ہوگی کہ بیرونی طاقتوں کی تنقید محض رسمی محسوس ہو اور عوامی سطح پر اس کا کوئی اثر نہ ہو۔
یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ مالیاتی شفافیت صرف حکومتی اخراجات تک محدود نہیں ہونی چاہیے بلکہ سیاسی جماعتوں کے فنڈز، ریاستی اداروں کے ٹھیکوں اور بڑے منصوبوں کی بولیوں تک بھی پھیلنی چاہیے۔ جب تک یہ پورا نظام صاف اور شفاف نہیں ہوگا، پاکستان بار بار ایسی رپورٹوں کا نشانہ بنتا رہے گا اور عوام بھی اپنی قیادت پر سوال اٹھاتے رہیں گے۔
پاکستان کے حکمران طبقات کو یہ حقیقت تسلیم کرنی ہوگی کہ وہ امریکہ یا کسی بھی بیرونی طاقت کے دباؤ سے زیادہ اپنے عوام کے سامنے جواب دہ ہیں۔ اگر عوامی اعتماد بحال ہوگا، تو بیرونی تنقید خود بخود اپنی اہمیت کھو دے گی۔ لیکن اگر اندرونی اصلاحات کو مسلسل نظرانداز کیا گیا تو نہ صرف امریکی رپورٹیں بار بار پاکستان کو کمزور دکھائیں گی بلکہ عالمی سرمایہ کار بھی ہچکچاتے رہیں گے۔
یہ وقت ہے کہ پاکستان داخلی اصلاحات کو اپنی ترجیح بنائے اور مالیاتی شفافیت کو ایک قومی ایجنڈا قرار دے۔ یہی راستہ ہے جو ہمیں بیرونی دباؤ سے نجات بھی دے گا اور ہماری معیشت کو بھی مستحکم کرے گا۔

شیئر کریں

:مزید خبریں