بلوچستان کے سرحدی شہر چمن میں جمعرات کے روز ٹیکسی اسٹینڈ کے قریب ہونے والے بم دھماکے نے ایک بار پھر اس حقیقت کو آشکار کر دیا ہے کہ پاکستان خصوصاً بلوچستان دہشت گردی کی اس لہر سے نکلنے میں کامیاب نہیں ہو سکا جو گزشتہ چار دہائیوں سے وقفے وقفے سے شدت اختیار کرتی رہی ہے۔ پانچ قیمتی جانوں کا ضیاع اور متعدد افراد کے زخمی ہونے کا یہ واقعہ محض ایک سانحہ نہیں بلکہ ایک علامت ہے اس بحران کی جس میں ریاست، عوام اور معیشت تینوں بیک وقت پھنسی ہوئی ہیں۔
چمن، جو پاک افغان بارڈر پر تجارتی اور انسانی آمد و رفت کا سب سے اہم راستہ ہے، گزشتہ برسوں میں بارہا دہشت گردوں کا نشانہ بنتا رہا ہے۔ یہ علاقہ نہ صرف تجارت کا مرکز ہے بلکہ افغان پناہ گزینوں، اسمگلنگ کی معیشت اور دہشت گرد نیٹ ورکس کی گزرگاہ بھی رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں امن و امان کی صورتحال کبھی بھی مستحکم نہ ہو سکی۔ چمن دھماکہ اسی حقیقت کا تسلسل ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب ریاست جانتی ہے کہ یہ علاقہ حساس ہے اور یہاں دہشت گرد عناصر آسانی سے دندناتے پھرتے ہیں تو پھر وہ اقدامات کیوں نہیں کیے جا سکے جو عوام کو محفوظ بنانے کے لیے ضروری تھے؟
بلوچستان گزشتہ دو دہائیوں سے ایک مسلسل جنگی کیفیت کا شکار ہے۔ کبھی علیحدگی پسند مسلح گروہ حملے کرتے ہیں، کبھی فرقہ وارانہ تنظیمیں اپنی کارروائیاں تیز کرتی ہیں اور کبھی مذہبی شدت پسند اپنے ایجنڈے کی تکمیل کے لیے عوام کو نشانہ بناتے ہیں۔ یہ کثیر الجہتی دہشت گردی بلوچستان کو باقی ملک سے زیادہ کمزور کر چکی ہے۔ حالیہ ہفتوں میں صرف چمن ہی نہیں بلکہ شیرانی، قلعہ عبداللہ، مستونگ اور کوئٹہ جیسے اضلاع میں بھی پولیس اسٹیشنوں پر حملے اور سیاسی ریلیوں میں دھماکے ہوئے ہیں۔ بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل کے جلسے پر ہونے والا دھماکہ اس بات کی یاد دہانی ہے کہ دہشت گرد نہ عوام کو بخش رہے ہیں نہ سیاسی قوتوں کو۔
پاکستان اس وقت دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جہاں دہشت گردی کی شدت سب سے زیادہ ہے۔ گلوبل ٹیررازم انڈیکس 2025 کے مطابق پاکستان دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثرہ ممالک میں دوسرے نمبر پر ہے اور صرف ایک سال کے اندر دہشت گردی سے ہونے والی ہلاکتوں میں 45 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اس اعداد و شمار کا مطلب یہ ہے کہ دہشت گردی محض ایک سیکورٹی چیلنج نہیں رہی بلکہ یہ ریاستی حکمت عملی کی ناکامی کی علامت ہے۔ اگر ریاست کی پالیسیاں درست سمت میں ہوتیں تو اتنے بڑے پیمانے پر ہلاکتیں نہ ہوتیں اور دہشت گردی کی شدت میں کمی آتی۔
چمن دھماکہ اور اس جیسے دیگر واقعات اس بات کو اجاگر کرتے ہیں کہ پاکستان کی انسدادِ دہشت گردی کی حکمت عملی اب بھی ردِ عمل پر مبنی ہے۔ دھماکہ ہوتا ہے، پولیس اور لیویز علاقہ گھیر لیتے ہیں، شواہد اکٹھے کیے جاتے ہیں، بیانات جاری ہوتے ہیں، اور پھر معاملہ سرد خانے میں ڈال دیا جاتا ہے۔ کوئی جامع حکمت عملی، کوئی عوامی آگاہی مہم، کوئی مقامی سطح پر انسدادِ دہشت گردی کے مستقل اقدامات نظر نہیں آتے۔ نتیجہ یہ ہے کہ دہشت گرد بار بار کامیاب ہو جاتے ہیں اور عوام بار بار لاشیں اٹھاتے ہیں۔
اس صورتحال کی ایک بڑی وجہ ریاستی اداروں کی ترجیحات میں عوامی تحفظ کا فقدان ہے۔ وفاق اور صوبے کے درمیان اختیارات کی کشمکش، سیاسی جماعتوں کی باہمی چپقلش اور بیوروکریسی کی نااہلی نے انسدادِ دہشت گردی کے اقدامات کو غیر مؤثر بنا دیا ہے۔ بلوچستان میں پولیس اور لیویز فورس بنیادی سطح پر وسائل کی کمی کا شکار ہیں۔ ان کے پاس جدید اسلحہ نہیں، تربیت ناکافی ہے، اور دہشت گردوں سے لڑنے کے لیے ان کے پاس نہ تو مناسب انفارمیشن ہے اور نہ ہی ٹیکنالوجی۔ ایسے میں دہشت گردی کی روک تھام خواب ہی رہتی ہے۔
چمن دھماکے کے بعد یہ سوال زیادہ شدت سے اٹھتا ہے کہ ریاست دہشت گردی کے خاتمے کے لیے اپنی پالیسیوں پر نظرِ ثانی کیوں نہیں کرتی۔ 1979 کے بعد افغانستان میں شروع ہونے والی جنگ اور پاکستان کی اس میں شمولیت نے ہمارے معاشرے میں تشدد، اسلحے اور انتہا پسندی کو جنم دیا۔ افغان جہاد کے دوران ہم نے عسکریت پسندی کو ریاستی پالیسی کے طور پر اپنایا، جس کا نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے۔ لاکھوں کی تعداد میں مہاجرین، اسمگلنگ کی معیشت، فرقہ واریت اور مسلح گروہوں کی مضبوط جڑیں وہ بوجھ ہیں جو پاکستان اب تک اٹھائے ہوئے ہے۔ چمن جیسا بارڈر ٹاؤن اسی تاریخ کا عکس ہے، جہاں ریاستی کمزوریاں سب سے زیادہ نمایاں ہوتی ہیں۔
ریاست کے لیے ضروری ہے کہ وہ صرف سکیورٹی آپریشنز پر انحصار کرنے کے بجائے ایک جامع پالیسی اختیار کرے۔ انسدادِ دہشت گردی صرف گولی اور بندوق سے نہیں ہو سکتی۔ یہ ایک ہمہ جہت مسئلہ ہے جس کا تعلق تعلیم، معیشت، سماجی انصاف اور عوامی شمولیت سے بھی ہے۔ جب تک بلوچستان کے عوام کو ترقی کے یکساں مواقع نہیں ملیں گے، جب تک مقامی نوجوانوں کو روزگار، تعلیم اور صحت جیسی بنیادی سہولتیں نہیں دی جائیں گی، تب تک وہ انتہا پسندی کے خلاف فطری اتحادی نہیں بن سکیں گے۔
عوامی اعتماد کی بحالی اس وقت سب سے بڑی ضرورت ہے۔ بدقسمتی سے بلوچستان کے عوام میں یہ احساس جڑ پکڑ چکا ہے کہ ریاست ان کے دکھوں اور مسائل کو سمجھنے کے بجائے محض طاقت کے ذریعے انہیں قابو میں رکھنا چاہتی ہے۔ یہ احساس ہی دہشت گردوں کے لیے سب سے بڑی طاقت ہے، کیونکہ وہ ریاست کی ناکامی کو اپنے بیانیے کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ اس صورتحال کو بدلنے کے لیے حکومت کو چاہیے کہ وہ مقامی سطح پر عوامی جرگوں، سول سوسائٹی اور سیاسی قیادت کو شامل کر کے انسدادِ دہشت گردی کے اقدامات کرے تاکہ لوگ خود کو اس جدوجہد کا حصہ سمجھیں۔
چمن دھماکہ ایک اور پیغام بھی دیتا ہے، اور وہ یہ کہ پاکستان اب دہشت گردی کو صرف داخلی مسئلہ سمجھنے کی غلطی نہیں کر سکتا۔ افغانستان کی صورتحال، بھارت کے ساتھ کشیدگی، اور خطے میں طاقت کی نئی صف بندی سب کے سب پاکستان کی داخلی سلامتی پر براہ راست اثرانداز ہو رہے ہیں۔ اگر افغانستان کی سرزمین سے دہشت گرد پاکستان پر حملے کر سکتے ہیں تو پاکستان کو بھی اپنی خارجہ پالیسی کو اس تناظر میں ازسرنو ترتیب دینا ہوگا۔ محض بیانات یا عارضی دباؤ کے ذریعے افغانستان کی طالبان حکومت کو مجبور نہیں کیا جا سکتا کہ وہ دہشت گردوں کو پناہ نہ دے۔ اس کے لیے ایک جامع علاقائی حکمت عملی درکار ہے جس میں چین، ایران اور وسطی ایشیائی ممالک کو بھی شامل کرنا ہوگا۔
اب سوال یہ ہے کہ آخر کب تک چمن، کوئٹہ، مستونگ اور دیگر شہروں کے عوام دہشت گردی کے نشانے پر رہیں گے؟ کب تک ریاست محض بیانات اور تحقیقات پر اکتفا کرے گی؟ اور کب تک بلوچستان کے عوام کو یہ احساس رہے گا کہ ان کی جان و مال کا تحفظ کسی کی ترجیح نہیں؟ یہ سوالات صرف بلوچستان کے نہیں بلکہ پورے پاکستان کے ہیں۔ کیونکہ جب تک بلوچستان محفوظ نہیں ہوگا، پاکستان محفوظ نہیں ہو سکتا۔
چمن دھماکہ ریاست کے لیے ایک لمحۂ فکریہ ہے۔ اگر اب بھی ہم نے اپنی پالیسیوں کو درست نہ کیا، اگر اب بھی ہم نے دہشت گردی کو محض سکیورٹی کا مسئلہ سمجھا، اگر اب بھی ہم نے عوامی اعتماد کو بحال نہ کیا، تو یہ آگ مزید پھیلے گی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ایک نئی حکمت عملی بنائی جائے جس میں عوام، سیاست، معیشت اور خارجہ پالیسی سب کو ایک وحدت میں جوڑا جائے۔ یہی وہ راستہ ہے جو بلوچستان اور پاکستان کو دہشت گردی کے اندھیروں سے نکال کر امن اور استحکام کی روشنی کی طرف لے جا سکتا ہے۔
