پنجاب کی جانب سے بین الصوبائی گندم کی ترسیل پر غیر اعلانیہ پابندی نے خیبر پختونخوا اور سندھ میں آٹے کی شدید قلت اور قیمتوں میں تیزی سے اضافے کی صورت اختیار کر لی ہے۔ صوبائی حکام اس اقدام کو محض ’’چیک پوائنٹس‘‘ قرار دے رہے ہیں، مگر زمینی حقیقت یہ ہے کہ دیگر صوبے اسے عملی طور پر ایک ’’پابندی‘‘ تصور کر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ فلور ملز ایسوسی ایشن اور دیگر متعلقہ حلقے اسے آئین کے آرٹیکل 151 کی خلاف ورزی قرار دے رہے ہیں، جو بین الصوبائی تجارت کی آزادی کی ضمانت دیتا ہے۔ خیبر پختونخوا اسمبلی کی قرارداد اور گورنر کا بیان اس بحران کو محض معاشی نہیں بلکہ سیاسی اور وفاقی ہم آہنگی کے مسئلے میں بھی بدل رہا ہے۔یہ صورتحال نئی نہیں۔ گزشتہ چند برسوں میں جب بھی گندم کی قلت پیدا ہوئی تو صوبائی سطح پر ایسی ہی رکاوٹیں کھڑی کی گئیں۔ 2020، 2022 اور 2023 کی مثالیں اس حقیقت کو دہراتی ہیں۔ تاہم اس بار فرق یہ ہے کہ پنجاب نے اپنی روایتی حیثیت — بطور سب سے بڑے خریدار اور ذخیرہ اندوز — سے پیچھے ہٹتے ہوئے سالانہ 40 لاکھ ٹن سے زائد گندم کی خریداری اور ذخیرہ اندوزی کے عمل کو کمزور کر دیا ہے۔ یہی پسپائی مارکیٹ کو غیر مستحکم اور زیادہ نازک بنا رہی ہے۔ پنجاب اب آٹے کی قیمتوں کو قابو میں رکھنے کی تگ و دو اور اپنی قوتِ خرید کھو دینے کے درمیان پھنس کر ایسا راستہ اختیار کر رہا ہے جو نہ صرف بے اثر ہے بلکہ نقصان دہ بھی۔سب سے بڑی ناکامی یہ ہے کہ پابندی کے باوجود پنجاب کے اندر ہی آٹے کی قیمتیں مسلسل بڑھ رہی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پابندی کے مقاصد حاصل نہیں ہو رہے بلکہ اس کے منفی اثرات پورے ملک میں پھیل رہے ہیں۔ اس پالیسی نے نہ صرف وفاقی یکجہتی کو متاثر کیا ہے بلکہ ذخیرہ اندوزی کو بھی بڑھا دیا ہے۔ مزید یہ کہ سرمایہ کار، جنہیں حکومت نے نجی شعبے کے ذریعے بڑی سطح پر گندم خریدنے اور ذخیرہ کرنے کی ترغیب دی تھی، اب حکومتی مداخلت سے سخت پریشان ہیں۔ وہ یہ سوال اٹھانے میں حق بجانب ہیں کہ اگر مارکیٹ کو ڈی ریگولیٹ کرنے کے بعد بھی حکومت اچانک سیاسی یا انتظامی بنیادوں پر مداخلت کرے گی تو سرمایہ کاری اور اعتماد کا کیا مستقبل ہوگا؟یہ بحران دراصل آدھے تیتر آدھے بٹیر قسم کی اصلاحات کا نتیجہ ہے۔ گندم مارکیٹ کو جزوی طور پر آزاد تو کیا گیا لیکن ایسی حکمتِ عملی نہیں بنائی گئی جس سے گندم کی کمی والے صوبوں میں ناجائز منافع خوری اور قیمتوں کا فرق روکا جا سکتا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ چھوٹے صوبے سب سے زیادہ متاثر ہوئے۔ اس صورتحال کا فوری حل یہ ہے کہ معاملے کو مشترکہ مفادات کونسل (CCI) میں لے جایا جائے، جہاں ایک جامع اور مستقل پالیسی وضع ہو۔ ایسی پالیسی جو نہ صرف صارفین کو تحفظ دے بلکہ نجی سرمایہ کاری اور ذخیرہ اندوزی کے جدید ڈھانچے کو بھی نقصان سے بچائے۔وفاق کی روح اسی وقت محفوظ رہ سکتی ہے جب بڑے صوبے اپنی برتری کو قومی ذمہ داری میں ڈھالیں، اور کمزور صوبوں کے خدشات کو نظرانداز نہ کیا جائے۔ گندم محض ایک اجناس نہیں بلکہ پاکستان کی خوراکی سلامتی اور وفاقی یکجہتی کا ستون ہے۔ اگر اسے صوبائی سیاست کی نذر کر دیا گیا تو نہ صرف معاشی عدم استحکام بڑھے گا بلکہ وفاقی اعتماد بھی ٹوٹے گا۔ مستقل استحکام کے لیے حکومت کو وقتی اقدامات کی بجائے ایک ایسی جامع حکمتِ عملی اپنانا ہوگی جس میں گندم کی پیداوار، ترسیل اور تقسیم کا ایک شفاف، منصفانہ اور دیرپا نظام شامل ہو۔ یہی راستہ ہے جو پاکستان کو غذائی بحران اور سیاسی دراڑوں سے بچا سکتا ہے۔
