(مسافر) تحریر : طارق قریشی
چند روز قبل قومی اسمبلی کی پبلک اکائونٹس کمیٹی کے اجلاس میں یہ شرمناک انکشاف سامنے آیا کہ خدام الحجاج کے نام پر اعلیٰ افسروں نے مفت حج کے مزے لوٹے خدام الحجاج کے نام پر ایک طویل عرصے سے حج جیسے مقدس فریضے کیلئے جعلسازی کی جارہی ہے پہلے تو یہ خدام الحجاج کی ضرورت ہی نہیں کہ سعودی عرب میں حج کے موقع پر انتظامی امور میں سعودی حکومت کسی قسم کی مداخلت برداشت ہی نہیں کرتی اس کے باوجود جب کچھ سال پہلے وزارت حج نے یہ سلسلہ شروع کیا تھا تو خدام الحجاج کےلئے صرف فوج اور پولیس کے محکمے سے جوان منتخب کئے جاتے تھے کہ وہ بزرگ اور معذور حاجی صاحبان کیلئے مدد فراہم کر سکیں۔ آہستہ آہستہ خدام الحجاج کے نام پر بھی اقربا پروری شروع ہو گئی اس میں میرٹ کے بجائے سفارش اور رشتہ داری کی بنیاد پر فیصلے ہونے لگے۔ آج نوبت یہاں تک آ گئی کہ اعلیٰ افسران خدام الحجاج کے نام پر مفت حج کے مزے لینے آ گئے۔ بیان کردہ رپورٹ کے مطابق فہرست میں ایس ایس پی اور ایڈیشنل سیکرٹری کے عہدوں پر فائز افسران بھی شامل تھے۔ اب ان بے شرم بدبخت لوگوں سے کوئی پوچھے کہ اپنی نوکریوں میں تو تم ہر طرح کے فراڈ کرتے آ رہے ہو‘ دھوکہ دہی‘ بدعنوانی‘ کام چوری‘ قانون کی خلاف ورزی کون سا جرم ہے جو یہ افسر شاہی نہیں کر رہی مگر اللہ رب کریم سے تو دھوکہ بازی کرتے ہوئے کچھ خیال کر لیتے۔ اللہ رب کریم جو عالم الغیب ہے وہ جو ہمارے دلوں میں موجود خیالات سے بھی بہ خوبی آگاہ ہے ان بے شرم افسران نے اللہ رب کریم کو بھی اپنی دانست کے مطابق ہی سمجھا کہ نہ اس کو یہ علم ہو گا کہ وہ بدعنوانی سے فہرست میں نام شامل کرا کر حج کرنے آئے ہیں نہ ہی اللہ رب کریم کو یہ علم ہو سکے گا کہ وہ کسی حقدار کا حق مانگ کر غلط طریقے سے حج کا فریضہ ادا کرنے آ گئے ہیں ان افسران کو یہ بھی خیال نہ آیا کہ بدعنوانی سے حج کا فریضہ ادا بھی نہیں ہوتا نہ ہی حج کی سعادت کے ثمرات حاصل ہوتے ہیں۔ حج پر بدعنوانی کے ذریعے آنے والے ان افسران نے کس منہ سے شیطان کو کنکریاں ماری ہوں گی۔ شیطان ابلیس نے اللہ رب کریم کی حکم عدولی کی تھی نہ اللہ رب کریم کو دھوکہ دیا تھا نہ ہی اس کے ساتھ کوئی بدعنوانی کی تھی۔ یہ بدبخت تو اللہ رب کریم سے دھوکہ بھی کر کے گئے اور بدعنوانی کے بھی مرتکب ہوئے تو کس منہ سے یہ شیطان کو کنکریاں مارنے پہنچ گئے تھے۔ ہوس کے مرض میں مبتلا پاکستانی افسر شاہی بے شرمی اور بے غیرتی کے اس مقام پر پہنچ گئی ہے کہ نہ اب انہیں کسی بات پر شرم آتی ہے نہ ہی کسی غلط کام پر ان کی غیرت جوش میں آتی ہے۔ وہ جو قرآن پاک میں اللہ رب کریم نے انسانوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ تمہیں ہوس کثرت لے ڈوبے گی یہاں تک کہ تم قبروں کی تہہ میں اتر جائو گے۔ پاکستانی افسر شاہی تو کثرت کے مرض میں اس طرح گرفتار ہے کہ نہ اس کی ہوس اقتدار میں کمی آتی ہے نہ ہی ہوس زر اور نہ ہی ہوس جاہ میں۔ اپنی ذاتی خواہشات کی تکمیل کی خاطر یہ آخری حد تک گرنے کیلئے تیار رہتے ہیں۔ اچھی پوسٹنگ کی خاطر ان افسران سے کسی بھی قسم کا غیر قانونی کام کا مطالبہ پورا کرانا حکمرانوں کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ اپنی من پسند پوسٹنگ کیلئے نہ ان کی عزت نفس پر حرف آتا ہے نہ عزت و غیرت کا سوال‘ حکمران اگر حکمرانی کی مسند پر بیٹھا ہے تو اس کی زبان سے ادا کردہ حرف ہی قانون کا درجہ اختیار کر لیتا ہے۔ ادھر حکمرانی کا عرصہ ختم ہوا ادھر طوائفوں کی طرح یہ افسر شاہی نئے حکمران کے پہلو گرمانے کیلئے تیار۔ تازہ ترین مثال جناب عمران خان کے سابق پرنسپل سیکرٹری اعظم خان کی ہے کہ عمران خان کے دور اقتدار میں ہر غیر قانونی کام کو قانون کا لبادہ پہنانے والا اعظم خان آج عمران خان کو لالچی اور بدعنوان قرار دے رہا ہے۔ عمران خان کے جرائم اپنی جگہ مگر اعظم خان کہاں سے اتنا معتبر بن گیا کہ اب اس کی گواہی سے جرائم کا فیصلہ ہو گا۔ ظلم تو یہ ہے کہ حکمران جانتے بوجھتے اس افسر شاہی پر نوازشات کی بارش برسانے کیلئے تیار رہتے ہیں۔ حکمرانوں کو بہ خوبی علم ہوتا ہے کہ اقتدار سے ہٹتے ہی ان افسران نے آنکھیں پھیر لینی ہیں اس کے باوجود وہ ان پر بھروسہ کر لیتے ہیں۔ اب تو یہ حالت ہو گئی ہے کہ من پسند پوسٹنگ ہتھیانے کیلئے باقاعدہ بولیاں لگنی شروع ہو گئی ہیں۔ کسی زمانے میں پٹواری‘ تحصیلدار اور ایس ایچ او کی پوسٹ کیلئے سفارش چلتی تھی پھر زمانہ بدلا‘ کمائو پوسٹ کیلئے بولی کا آغاز ہوا اب تو بات یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ کیا ڈپٹی کمشنر‘ کیا کمشنر‘ کیا ایس ایس پی اور کیا ڈی آئی جی ہر عہدے کی بولی لگتی ہے جو بولی زیادہ لگا دے منصب اس کی جھولی میں گر جائے گا۔ قیام پاکستان اور اس کے طویل عرصے بعد تک ڈپٹی کمشنر اسسٹنٹ کمشنر پر فائز افسران کی کوشش ہوتی تھی کہ وہ اپنی تعیناتی والے ضلع یا تحصیل میں عوامی مفاد کے حوالے سے ایسے کام کر جائیں کہ جس سے لوگ انہیں یاد رکھیں۔ میری پیدائش سندھ کے شہر جیکب آباد میں ہوئی تھی ابتدائی تعلیم میں کنڈر گارٹن سکول میں حاصل کی‘ اسے نیاز احمد نامی ڈپٹی کمشنر نے قائم کیا تھا اس کا پورا نام نیاز کنڈر گارٹن سکول تھا۔ یہی نیاز احمد جب کمشنر حیدر آباد بنے تو انہوں نے حیدر آباد کے شہریوں کیلئے نیاز اسٹیڈیم تعمیر کرایا تھا جو آج بھی اندرون سندھ کا سب سے بڑا سٹیڈیم ہے۔ اسی طرح میرا ہائی سکول حیدریہ ہائی سکول ایس ایس حمید نام کے ڈپٹی کمشنر نے قائم کرایا تھا۔ لیہ جیسی جنوبی پنجاب کی دور افتادہ تحصیل میں مشہور شاعر مصطفی زیدی جب اسسٹنٹ کمشنر تعینات تھے تو انہوں نے وہاں ویرا سٹیڈیم تعمیر کرایا تھا۔ آج کے ڈپٹی کمشنر ہوں یا اسسٹنٹ کمشنر‘ کمشنر ہوں یا کوئی اعلیٰ پولیس افسر‘ اپنی ذات کے حصار سے باہر آنے کو تیار ہی نہیں۔ بولی کے ذریعے تعینات ہونے والے افسران کو مفاد عامہ سے کیا تعلق ان کا پہلا ہدف تو تبادلے سے قبل بولی کی ادا شدہ رقم بمعہ منافع وصولی ہوتا ہے تو مفاد عامہ کا سوال کیسا؟ حرص و ہوس کے مارے ان افسران سے دینی شعائر بھی محفوظ نہیں رہے۔ ان افسران کی نظر میں حج بھی ایک فریضہ نہیں تعیناتی بن گیا ہے کہ مفت میں جو بھی مل جائے لے مرو‘ نہ شرم کا سوال نہ غیرت کا سوال‘ خود فریبی کے مرض میں مبتلا یہ بے شرم ٹولہ اب اللہ رب کریم سے بھی دھوکہ دہی کیلئے تیار بلکہ ہر دم تیار۔