پاکستان کے میدان، بستیاں اور شہر ایک بار پھر شدید بارشوں کے بعد نہ صرف پانی میں ڈوب گئے ہیں بلکہ بیماریوں کی آماجگاہ بھی بن گئے ہیں۔ پنجاب اور سندھ کے اسپتال مریضوں سے بھر گئے ہیں جہاں ہر طرف ڈینگی، ملیریا، ہیضہ، دست اور گیسٹرو کے شکار لوگ دکھائی دیتے ہیں۔ بچوں کے چہرے پیلا پڑے ہیں، خواتین کمر کے بل جھکی ہوئی ہیں، اور مرد کھانسی و بخار سے بے حال ہیں۔ عارضی شیلٹرز اور ریلیف کیمپوں میں یہ المیہ اور بھی شدید ہے۔ وہاں نہ پینے کے صاف پانی کا بندوبست ہے، نہ بیت الخلا کی سہولت اور نہ ہی دواؤں کی مسلسل فراہمی۔ نتیجہ یہ ہے کہ جلدی امراض، آنکھوں کے انفیکشن اور سانس کے مسائل بھی تیزی سے پھیل رہے ہیں۔یہ کوئی نئی حقیقت نہیں۔ ہر برس برسات کے بعد یہی مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ریاست نے دہائیوں میں ان مسائل سے سبق کیوں نہیں سیکھا؟ کیوں ہر بارش کے بعد حکومتیں ایمرجنسی اجلاس بلاتی ہیں، اخبارات میں بڑے بڑے دعوے کرتی ہیں، مگر بنیادی ڈھانچے کی بہتری پر کوئی مستقل سرمایہ کاری نہیں کی جاتی؟محکمہ موسمیات نے ستمبر سے دسمبر کے آغاز تک ڈینگی کے پھیلاؤ کے لیے ہائی الرٹ جاری کیا ہے۔ موسمیاتی تبدیلی اور موسلادھار بارشوں کے بعد جب نمی کی سطح 60 فیصد سے اوپر چلی جاتی ہے، تو ایڈیز ایجپٹائی مچھر کی افزائش کے لیے حالات مثالی بن جاتے ہیں۔ لیکن یہ انتباہ بھی حکومتوں کو محض کاغذی منصوبہ بندی سے آگے نہیں بڑھا پایا۔ بلدیاتی ادارے کچھ دن کے لیے محلے محلے میں دھواں کرتے ہیں، مگر ان کی کارکردگی بھی زیادہ تر فوٹو سیشن تک محدود رہتی ہے۔ اسپتال کے منتظمین ویکسین اور ادویات کی کمی پر شور مچاتے ہیں، لیکن سننے والا کوئی نہیں ہوتا۔اس سنگین صورتحال میں سب سے زیادہ متاثر وہ لوگ ہوتے ہیں جو غربت اور پسماندگی کا شکار ہیں۔ متوسط یا خوشحال طبقہ تو پرائیویٹ اسپتالوں اور صاف پانی خریدنے کی استطاعت رکھتا ہے، لیکن دیہی علاقوں اور شہری کچی آبادیوں کے رہائشی مجبوراً آلودہ پانی پیتے اور نیم حکیموں کے پاس علاج کروانے پر مجبور ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بیماریوں کی شرح سب سے زیادہ انہی طبقات میں ہے۔المیہ یہ ہے کہ صحت کا یہ بحران ایک وقتی آفت نہیں بلکہ ایک ڈھانچہ جاتی ناکامی ہے۔ پاکستان کے شہروں کا انفراسٹرکچر، خصوصاً نکاسیٔ آب اور سیوریج کا نظام، بوسیدہ اور ناقابلِ استعمال ہو چکا ہے۔ غیر منصوبہ بند شہری توسیع نے گلیوں اور محلوں کو ایسے دلدلی تالابوں میں بدل دیا ہے جہاں پانی ہفتوں کھڑا رہتا ہے۔ جب تک ان بنیادی ڈھانچوں کی بحالی اور توسیع نہیں کی جاتی، ہر سال بارش کے بعد یہی منظرنامہ دہرایا جائے گا۔ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت وقتی آگ بجھانے کی پالیسی چھوڑ کر مستقل حکمت عملی اپنائے۔ بیماریوں کی نگرانی کے لیے جدید ڈیزیز سرویلنس نیٹ ورک قائم کیا جائے تاکہ وباؤں کا پھیلاؤ ابتدائی مرحلے میں ہی روکا جا سکے۔ ریلیف کیمپوں میں پانی صاف کرنے کی گولیاں اور آر او پلانٹس مستقل بنیادوں پر مہیا کیے جائیں، تاکہ متاثرہ خاندان بار بار دست و اسہال کا شکار نہ ہوں۔ ویکٹر کنٹرول یعنی مچھروں کی افزائش روکنے کے اقدامات پورا سال جاری رہنے چاہئیں، نہ کہ صرف اس وقت جب سیلاب اور بارش سب کچھ ڈبو دے۔یہ اداریہ صرف حکومت پر تنقید کے لیے نہیں بلکہ ایک تلخ حقیقت کی یاد دہانی ہے کہ اگر ریاست نے اپنی ترجیحات میں عوام کی صحت اور شہروں کی صفائی کو شامل نہ کیا تو ہر برسات کے بعد یہ ملک بیماریوں کے سیلاب میں ڈوبتا رہے گا۔ ہمیں اب یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ بارش سے پیدا ہونے والے خطرات محض قدرتی آفت نہیں بلکہ ہماری اپنی غفلت اور بدانتظامی کا شاخسانہ ہیں۔سرائیکی وسیب اور بلوچستان کے وہ علاقے جو حالیہ بارشوں اور سیلاب سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں، وہاں کے حالات اس بحران کی سنگینی کو کئی گنا بڑھا دیتے ہیں۔ یہ وہ خطے ہیں جہاں عام دنوں میں بھی صحت اور تعلیم جیسی بنیادی سہولتیں ناپید ہیں، ہسپتال یا تو کئی کلومیٹر دور ہیں یا وہاں ماہر ڈاکٹر اور دوائیں موجود نہیں ہوتیں۔ ایسے میں جب بارشوں نے گاؤں گاؤں کو پانی میں ڈبو دیا، اسکولوں اور گھروں کو تباہ کیا اور زمین کو دلدل میں بدل دیا، تو ان علاقوں کے لوگ بیماریوں کی یلغار کے مقابلے میں بے یار و مددگار کھڑے رہ گئے۔سرائیکی وسیب کے دیہی علاقوں میں کھڑا پانی اب دیہات کی گلیوں اور کھیتوں میں مستقل تالابوں کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ یہاں پہلے ہی پینے کا صاف پانی ایک مسئلہ تھا، اب ندی نالے اور ہینڈ پمپ تک آلودہ ہو گئے ہیں۔ اس آلودگی نے ڈائریا، ہیضہ، یرقان اور معدے کی بیماریوں کو عام کر دیا ہے۔ بچوں کے پیٹ خراب ہیں، خواتین کمزوری اور خون کی کمی کا شکار ہیں اور مچھروں کی افزائش نے ڈینگی و ملیریا کی وبا کو کئی گاؤں میں جڑ پکڑنے دیا ہے۔بلوچستان کی صورتحال اس سے بھی زیادہ ابتر ہے۔ یہاں کے پسماندہ اضلاع میں بارش کے بعد جب رابطہ سڑکیں کٹ گئیں تو امدادی سرگرمیاں معطل ہو گئیں۔ چھوٹے چھوٹے ریلیف کیمپ قائم ہوئے ہیں مگر ان میں نہ مناسب خیمے ہیں، نہ بیت الخلا اور نہ ہی ادویات۔ مقامی کمیونٹیز کے لوگ اگرچہ روایت کے مطابق متاثرہ خاندانوں کو اپنے گھروں میں جگہ دیتے ہیں، مگر وسائل کی کمی کے باعث یہ مہمان نوازی زیادہ دیر تک ممکن نہیں رہتی۔ نتیجہ یہ ہے کہ مہاجرین جیسے حالات مقامی برادریوں اور آنے والے متاثرین، دونوں کے لیے مسائل پیدا کرتے ہیں۔ان علاقوں کے لوگ سوال کرتے ہیں کہ جب اسلام آباد اور بڑے شہروں میں ہر سال ڈینگی اور ملیریا کی روک تھام کے دعوے کیے جاتے ہیں تو وسیب اور بلوچستان ہمیشہ کیوں نظرانداز رہتے ہیں؟ کیا یہ خطے پاکستان کا حصہ نہیں؟ یہاں کے بچے اور عورتیں کیوں ہمیشہ ریاستی نااہلی کا پہلا شکار بنتے ہیں؟ یہ احساس محرومی پہلے ہی گہرا ہے اور ہر قدرتی آفت اسے مزید بڑھا دیتی ہے۔مزید یہ کہ مقامی برادریوں پر مہاجرین کے کیمپوں کا بوجھ بھی پڑتا ہے۔ سرائیکی وسیب میں جہاں زمینیں پہلے ہی کم پیداوار دے رہی ہیں، وہاں متاثرہ خاندانوں کی آمد نے خوراک، پانی اور صحت کے وسائل پر دباؤ بڑھا دیا ہے۔ بلوچستان میں یہ دباؤ اور بھی سخت ہے، کیونکہ خشک سالی اور بارشوں کی شدت نے پہلے ہی زراعت اور مویشی برباد کر دیے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ مقامی آبادی اور متاثرین دونوں کی زندگی اجیرن ہو رہی ہے۔یہ سب کچھ ہمیں ایک بڑے سوال کی طرف لے جاتا ہے: کیا ریاست نے ان خطوں کو ہمیشہ محض ریلیف کے وقتی پیکج دینے کے لیے رکھا ہے یا یہاں کے لوگوں کو مستقل بنیادوں پر صحت، نکاسیٔ آب اور صاف پانی کی سہولت دینے کا بھی کوئی منصوبہ ہے؟ اگر ہر سال انہی علاقوں کو بیماریوں اور آفات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جائے تو یہ نہ صرف انسانی المیہ ہے بلکہ ریاستی ناکامی کا بھی زندہ ثبوت ہے۔اس وقت ضرورت ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں ریلیف سے آگے بڑھ کر بحالی اور بنیادی ڈھانچے کی تعمیر پر توجہ دیں۔ سرائیکی وسیب اور بلوچستان میں نکاسیٔ آب کے منصوبے، صاف پانی کی اسکیمیں، بنیادی صحت مراکز کی بحالی اور بیماریوں کی نگرانی کے نظام کو اولین ترجیح دی جائے۔ اگر ایسا نہ ہوا تو ہر برسات کے بعد یہ خطے بیماریوں، غربت اور محرومی کے اندھیروں میں ڈوبتے رہیں گے اور عوام کا اعتماد ریاست پر مزید متزلزل ہوگا۔
