آج کی تاریخ

گستاخ (قسط اول)

روحانی باپ یا شیطانی پاپ

تحریر: میاں غفار (کارجہاں)

۔34 سالہ صحافتی زندگی میں یہ حسرت ہی رہی کہ کسی طاقت ور‘ بااختیار اور صاحب حیثیت کی طرف سے کھلے عام کئے جانے والے ظلم کی پردہ پوشی اور حمایت کرنے والے ’’نام نہاد شرفا‘‘ ان کی وکالت کیلئے سامنے نہ آئیں۔ کسی بااختیار کے ظلم کو بھی ظلم ہی سمجھیں اس کا حق قرار نہ دیں۔ حسرت ہی رہی کہ میرے کانوں میں یہ آواز نہ پڑے‘ چھوڑیں رہنے دیں‘ کیوں کسی ’’شریف آدمی‘‘ کے پیچھے پڑ گئے ہیں کہ یہاں شرافت کا ہر کسی کا پیمانہ ہی الگ الگ ہے۔ پھر میں ان ’’شرفا‘‘ کے چہرے دیکھتا ہوں۔ اپنے میز‘ دراز یا موبائل میں سے ثبوت نکال کر ان کے سامنے رکھتا ہوں اور
یہ سب میرے اللہ ہی کے کرم سے ممکن ہے کہ جس نے نبی آخر الزماں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر دنیا بھر کے لوگ تمہارا نقصان کرنا چاہیں مگر تمہارا اللہ بھلا کرنا چاہیے تو تمہارا بھلا ہی ہو گا اور اگر دنیا بھر کے لوگ تمہارا بھلا کرنا چاہیں مگر تمہارا اللہ ایسا نہ چاہے تو بھلا نہیں نقصان ہی ہو گا۔
پروفیسر بے چارہ نوکری سے جائے گا کیوں کسی کا روزگار چھینتے ہیں۔ میرا تب بھی یہی مؤقف تھا کہ ہم نے تو ایک ہی لڑکی کا نام دیا جو خود اپنے والد کے ہمراہ ہمارے دفتر آئی اور اصرار کیا کہ اس کا بیان شائع کیا جائے جبکہ پروفیسر واصف نعمان جس طالبہ کو بلیک میل کرتے تھے اس طالبہ بارے مکمل معلومات رکھنے کے باوجود کبھی اس کا نام یا شناخت ظاہر نہیں ہونے دی کہ مجھے بیٹیوں کا باپ ہونے کے ناطے بخوبی علم ہے کہ
اسلامیہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر اطہر محبوب کے ہاتھ کتنے لمبے ہیں ؟ ان کی لاہور کے پوش ترین علاقے میں عالیشان کوٹھی کے مہمان کون کون اور کتنے ہیں؟ آج کل ہر گھر میں سی سی ٹی وی کیمرے نصب ہیں۔ مہماں نظر بھی نہ آئیں تو نمبر پلیٹوں سمیت گاڑیاں نظر آ جاتی ہیں۔ وائس چانسلر ہر بدکردار کی سرپرستی کیوں کرتے ہیں؟ بہاولنگر کیمپس کے انچارج پروفیسر ڈاکٹر ابو بکر جو کہ یونیورسٹی طالبہ کے ساتھ پکڑے گئے تھے‘ جن کی اخلاقی گراوٹ کے حوالے سے خفیہ ایجنسیوں کی رپورٹس محترم وائس چانسلر اسلامیہ یونیورسٹی ڈاکٹر اطہر محبوب کے پاس بھی تو ہیں۔ موصوف جب پکڑے گئے تو کیا ان کی پتلون اتری ہوئی نہ تھی؟ کیا وہ سرکاری گاڑی میں سوار نہ تھے؟ کیا ان کے ہمراہ دو طالبات نہ تھیں؟ کیا وہ انکوائری رپورٹ آپ نے دبا کر نہیں رکھی جس میں پروفیسر ڈاکٹر اصغر ہاشمی اور میجر ثاقب نے لکھ رکھا تھا کہ پروفیسر ڈاکٹر ابو بکر زانی‘ شرابی اور منشیات کا عادی ہے‘ کیا اس انکوائری میں یہ نہیں لکھا گیا کہ اس کی ہوس سے طالبات حتیٰ کہ فی میل سٹاف بھی محفوظ نہیں؟ کیا آپ نے ایکشن لینے کی بجائے ڈاکٹر ابو بکر کو مزید عہدوں سے نہیں نوازا؟ کیا آپ نے بہاولنگر کیمپس کے ڈائریکٹر کے ساتھ ساتھ انہیں اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے خزانہ دار کے عہدے سے اضافی طور پر نہیں نوازا؟ کیا پروفیسر ڈاکٹر ابو بکر کے موبائل میں بڑی تعداد میں برہنہ تصاویر‘ چیٹنگ اور ویڈیوز نہیں تھیں؟ کیا پروفیسر ابو بکر کے ساتھ پکڑی جانے والی لڑکیوں کو پولیس نے یہ جانتے ہوئے بھی کہ کیس کمزور ہو گا گھر جانے کی اجازت نہیں دی؟ میرے پاس الفاظ نہیں کہ لکھ سکوں کہ گرفتار شدہ پروفیسر ابو بکر جو ناقابل اعتراض حالت میں تھے ‘ کو کیسے نارمل حالت میں کیا گیا کہ پولیس ڈر رہی تھی وہ کہیں اوور ڈوز کی وجہ سے دوران حراست مر ہی نہ جائے اور یہ بھی بتاتا چلوں کہ پولیس کے پاس اس سارے عمل کی ویڈیو موجود ہے۔
جناب وی سی صاحب! روحانی باپ تو آپ ہیں مگر کیا روحانی باپ کا کردار ڈی پی او بہاولپور سید عباس ادا نہیں کر رہے؟ آپ کی فیملی کراچی اور بیرون ملک ہے پھر ڈی ایچ اے کا عالیشان گھر کس مقصد کیلئے
آپ نے رحیم یار خان کے کیمپس کو جس طرح برباد کیا وہ سب کے سامنے ہیں۔ جناب ڈاکٹر اطہر محبوب صاحب آپ کے پاس کون سا بھاری پتھر ہے جو ہر انکوائری رپورٹ کو سالہا سال تک آپ دبائے ہوئے ہیں؟
آپ کے پاس کون سا پیر کامل ہے کہ چیف منسٹر انسپکشن ٹیم آپ کے خلاف سخت ایکشن کی سفارش کرتی ہے اور لکھتی ہے کہ آپ کو کسی انتظامی عہدے پر نہ لگایا جائے مگر آپ مسلسل وی سی تعینات رہتے ہیں۔

شیئر کریں

:مزید خبریں