آج کی تاریخ

میرا قائد عمران خان فوجی آپریشن کیخلاف تھا، ہم بھی اس کے خلاف ہیں،نو منتخب وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا محمد سہیل آفریدی-میرا قائد عمران خان فوجی آپریشن کیخلاف تھا، ہم بھی اس کے خلاف ہیں،نو منتخب وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا محمد سہیل آفریدی-ایران کا غزہ امن کانفرنس میں شرکت سے انکار، "اپنے عوام پر حملہ کرنے والوں کے ساتھ نہیں بیٹھ سکتے"، ایرانی وزیرِ خارجہ-ایران کا غزہ امن کانفرنس میں شرکت سے انکار، "اپنے عوام پر حملہ کرنے والوں کے ساتھ نہیں بیٹھ سکتے"، ایرانی وزیرِ خارجہ-سپر ٹیکس کیس کی سماعت میں ججز اور وکلا کے درمیان دلچسپ تبادلہ خیال-سپر ٹیکس کیس کی سماعت میں ججز اور وکلا کے درمیان دلچسپ تبادلہ خیال-پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں شدید مندی، کے ایس ای-100 انڈیکس 4 ہزار پوائنٹس گر گیا-پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں شدید مندی، کے ایس ای-100 انڈیکس 4 ہزار پوائنٹس گر گیا-نیتن یاہو کی ہٹ دھرمی: غزہ میں دوبارہ فوجی کارروائی کا اشارہ-نیتن یاہو کی ہٹ دھرمی: غزہ میں دوبارہ فوجی کارروائی کا اشارہ

تازہ ترین

توانائی پالیسی اور صنعتی میدان کا بحران

پاکستان کی معیشت اس وقت جس نازک موڑ پر کھڑی ہے، وہاں توانائی پالیسی کے ہر فیصلے کے دور رس نتائج ہیں۔ تازہ ترین تجویز یہ ہے کہ حکومت نئی صنعتی پالیسی کے تحت صنعتوں کے لیے “کراس سبسڈی” اور پیک ریٹس” کو ختم کرنے پر غور کر رہی ہے۔ اصولی طور پر یہ اقدام درست سمت میں ہے، کیونکہ صنعتوں کو خطے اور دنیا بھر کے حریفوں کے ساتھ مساوی میدان میں کھڑا کرنے کے لیے توانائی کی قیمتوں کا شفاف اور منصفانہ ہونا لازمی ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا ریاست کے مالی حالات، سیاسی دباؤ اور ادارہ جاتی تضادات ایسے فیصلے کے نفاذ کی اجازت دیں گے؟کراس سبسڈی اس وقت تقریباً 200 سے 250 ارب روپے سالانہ پر محیط ہے۔ اس رقم کو پورا کرنے کے لیے مالی گنجائش پیدا کرنا ایک مشکل ترین مرحلہ ہوگا۔ اگر حکومت یہ جگہ پیدا بھی کرلے، تو غالب امکان ہے کہ آئی ایم ایف اس رقم کو براہِ راست توانائی صارفین کو منتقل کرنے کے بجائے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام (BISP) کے ذریعے منتقل کرنے پر اصرار کرے۔ یہ طریقہ کار ایک نئے پنڈورا باکس کو کھول دے گا، کیونکہ BISP جیسے پروگرام صرف ان گھرانوں کو اہل مانتے ہیں جن کی آمدن ایک خاص حد سے کم ہو۔ نتیجتاً وہ لاکھوں صارفین جو اس وقت سبسڈی سے فائدہ اٹھا رہے ہیں مگر BISP کے معیار پر پورا نہیں اترتے، اچانک زیادہ بل ادا کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔یہ ایک سیاسی طور پر انتہائی حساس نکتہ ہے۔ توانائی کے نرخ بڑھتے ہی متوسط اور نچلے متوسط طبقے کی چیخ و پکار حکومت کو گھیر لے گی۔ موجودہ معاشی بحران، مہنگائی اور بے روزگاری کی فضا میں ایسا فیصلہ کسی بھی حکومت کو سیاسی طور پر مہنگا پڑ سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر اوقات پالیسی ساز ابتدا میں بلند بانگ دعوے کرتے ہیں مگر نفاذ کے وقت کولڈ فِیٹ” کا شکار ہو جاتے ہیں۔اصل مقصد صنعتوں کو عالمی سطح پر مسابقت کے قابل بنانا ہے۔ اس مقصد کو پورا کرنے کے لیے کم پیچیدہ راستے بھی موجود ہیں۔ مثال کے طور پر اگر صنعتوں کو ان کی کیپٹو پاور جنریشن کے لیے مارکیٹ ریٹ پر آر ایل این جی فراہم کر دی جائے، تو وہ خود اپنی توانائی پیدا کرنے کے قابل ہیں۔ مگر حکومت نے اس راہ میں بھاری لیوی عائد کر رکھی ہے، جسے فوری طور پر ختم کرنے کی ضرورت ہے۔صنعتوں کے لیے سب سے بڑا مسئلہ محض قیمت کا نہیں بلکہ بھروسے کا ہے۔ نیشنل گرڈ کی ناقابلِ اعتماد فراہمی اور بار بار تعطل نے بڑے صنعتکاروں کو متبادل ذرائع توانائی کی طرف دھکیل دیا ہے۔ پہلے انہوں نے فرنس آئل پر انحصار کیا، اور جب اس پر بھاری ٹیکس لگا تو اب وہ بایو فیول درآمد کر رہے ہیں، جبکہ بیشتر صنعتیں تیزی سے شمسی توانائی اور بیٹری اسٹوریج میں سرمایہ کاری کر رہی ہیں۔ اس صورتحال کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ سرکاری گرڈ دن کے اوقات میں “غیر متعلق” ہوتا جا رہا ہے اور صرف رات کے وقت بوجھ سنبھالتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی تقسیم کار کمپنیاں (Discos) چوری اور ناقابلیت کی بھاری قیمت بھی اٹھا رہی ہیں، جس کا بوجھ آخرکار عوام پر ڈالا جاتا ہے۔اس لیے محض کراس سبسڈی کا خاتمہ مسئلے کا حل نہیں ہوگا۔ حکومت کو توانائی پالیسی کو ایک جامع فریم ورک میں بدلنا ہوگا۔ اس میں “یکساں نرخ” ختم کر کے “مقابلتی تجارتی دو طرفہ معاہدوں کی منڈی” (CTBCM) متعارف کرانا وقت کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ ہی ویہلنگ چارجز” کو منصفانہ سطح پر مقرر کرنا اور کیپٹو پاور پلانٹس کے لیے گیس کی قیمتوں کا مسئلہ حل کرنا بھی ناگزیر ہے۔پاکستان جیسے ملک میں جہاں 26 ملین بچے تعلیم سے محروم ہیں، صحت کے نظام پر عوامی اعتماد ختم ہو چکا ہے اور روزگار کے مواقع تیزی سے سکڑ رہے ہیں، وہاں توانائی پالیسی کا ہر فیصلہ براہ راست عوام کی زندگیوں پر اثرانداز ہوتا ہے۔ اگر حکومت واقعی صنعت کو مسابقتی نرخ فراہم کرنا چاہتی ہے تو اسے سیاسی دباؤ سے بالاتر ہو کر فیصلہ کرنا ہوگا۔ لیکن ساتھ ہی یہ بھی یقینی بنانا ہوگا کہ نچلے اور متوسط طبقے پر اس فیصلے کا غیر متناسب بوجھ نہ پڑے۔یہ وقت ہے کہ حکومت وقتی سیاسی فائدے کے بجائے طویل المدتی اصلاحات کا بیانیہ اپنائے۔ توانائی کے شعبے میں سبسڈی کے نظام کو شفاف اور منصفانہ بنایا جائے، گرڈ کی قابلِ اعتمادیت بڑھائی جائے، متبادل توانائی ذرائع کو فروغ دیا جائے اور صنعتی شعبے کو حقیقی معنوں میں مقابلے کے قابل بنایا جائے۔ بصورت دیگر ہم بار بار انہی مسائل کا شکار رہیں گے: بجلی کی چوری، گردشی قرضوں کا بڑھتا بوجھ، صنعتوں کا غیر مسابقتی ہونا اور عوامی بے اطمینانی۔

شیئر کریں

:مزید خبریں