آج کی تاریخ

میرا قائد عمران خان فوجی آپریشن کیخلاف تھا، ہم بھی اس کے خلاف ہیں،نو منتخب وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا محمد سہیل آفریدی-میرا قائد عمران خان فوجی آپریشن کیخلاف تھا، ہم بھی اس کے خلاف ہیں،نو منتخب وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا محمد سہیل آفریدی-ایران کا غزہ امن کانفرنس میں شرکت سے انکار، "اپنے عوام پر حملہ کرنے والوں کے ساتھ نہیں بیٹھ سکتے"، ایرانی وزیرِ خارجہ-ایران کا غزہ امن کانفرنس میں شرکت سے انکار، "اپنے عوام پر حملہ کرنے والوں کے ساتھ نہیں بیٹھ سکتے"، ایرانی وزیرِ خارجہ-سپر ٹیکس کیس کی سماعت میں ججز اور وکلا کے درمیان دلچسپ تبادلہ خیال-سپر ٹیکس کیس کی سماعت میں ججز اور وکلا کے درمیان دلچسپ تبادلہ خیال-پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں شدید مندی، کے ایس ای-100 انڈیکس 4 ہزار پوائنٹس گر گیا-پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں شدید مندی، کے ایس ای-100 انڈیکس 4 ہزار پوائنٹس گر گیا-نیتن یاہو کی ہٹ دھرمی: غزہ میں دوبارہ فوجی کارروائی کا اشارہ-نیتن یاہو کی ہٹ دھرمی: غزہ میں دوبارہ فوجی کارروائی کا اشارہ

تازہ ترین

افغان مہاجرین: بحران پر بحران

پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحد پر روزانہ ابھرنے والا منظر دل دہلا دینے والا ہے۔ سینکڑوں افغان خاندان اپنے بچے، سامان اور آنکھوں میں غیر یقینی کا سایہ لیے واپسی کے سفر پر ہیں۔ اپریل سے اب تک پانچ لاکھ سے زائد افغان پاکستان سے واپس جا چکے ہیں، ان میں سے اکثریت وہ ہے جو دباؤ اور مجبوری کے باعث اس راہ پر مجبور کی گئی۔ ستم بالائے ستم یہ کہ ستمبر کے آغاز میں جب محض ایک ہفتے میں ایک لاکھ کے قریب افغان وطن لوٹے تو اس وقت افغانستان کے کئی علاقے زلزلے سے تباہ ہو چکے تھے۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین (UNHCR) نے بجا طور پر اسے “بحران پر بحران” قرار دیا ہے — ایک طرف جبری واپسی اور دوسری طرف فطری آفات، ایسے ملک میں جو پہلے ہی زوال کے دہانے پر کھڑا ہے۔پاکستان پر الزام تراشی کرنا آسان ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ چار دہائیوں میں افغان مہاجرین کا بوجھ زیادہ تر اسی ملک نے اٹھایا ہے۔ لاکھوں افغان خاندانوں کو یہاں پناہ ملی، ان کے بچے پاکستانی اسکولوں میں تعلیم حاصل کرتے رہے، انہیں علاج اور روزگار کے مواقع میسر آئے۔ لیکن اس دوران عالمی برادری نے پاکستان کو وہ مدد فراہم نہیں کی جس کی توقع تھی۔ ترقی یافتہ ممالک اور بین الاقوامی ادارے زیادہ تر دعووں اور کانفرنسوں تک محدود رہے۔ اب جب پاکستان اپنی معاشی مشکلات اور سکیورٹی خدشات کے باعث مہاجرین کی واپسی پر زور دیتا ہے تو دنیا کو بھی یہ سمجھنا ہوگا کہ ایک ملک ہمیشہ کے لیے دوسروں کی ذمہ داری اپنے کندھوں پر نہیں اٹھا سکتا۔تاہم اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ واپسی کے عمل کو بے رحمی سے نافذ کیا جائے۔ خاص طور پر خواتین، بچوں، بزرگوں اور ان افراد کے لیے جو افغانستان سے عملی طور پر کسی تعلق کے بغیر نسلوں سے پاکستان میں آباد ہیں، واپسی کا یہ سفر کسی صدمے سے کم نہیں۔ اگر ریاست سختی اور زبردستی کو ہی واحد راستہ سمجھے گی تو نہ صرف انسانی المیے میں اضافہ ہوگا بلکہ پاکستان کی صدیوں پرانی روایتی مہمان نوازی پر بھی سوال اٹھیں گے۔ دنیا پاکستان کو ایک ایسا ملک سمجھے گی جو پناہ دینے کے بعد بے دخلی میں بھی بے حسی کا مظاہرہ کرتا ہے۔ اس سے نہ صرف سفارتی سطح پر تنقید بڑھے گی بلکہ عالمی امیج بھی متاثر ہوگا۔اصل مسئلہ صرف پاکستان کی پالیسیوں میں نہیں، بلکہ کابل کی طالبان حکومت کے رویے میں بھی ہے۔ طالبان نے اقوام متحدہ اور دیگر اداروں کے لیے انسانی ہمدردی پر مبنی سرگرمیوں کو تقریباً ناممکن بنا دیا ہے۔ افغان خواتین کو اقوام متحدہ کے ساتھ کام کرنے سے روکنے کے بعد ہزاروں روزانہ مستفید ہونے والے کیش سپورٹ سینٹرز اور امدادی مراکز بند کر دیے گئے۔ امدادی کارروائیوں کے لیے خواتین کا کردار لازمی ہے — چاہے وہ انٹرویوز ہوں، بائیو میٹرکس کا عمل یا بنیادی خدمات کی فراہمی۔ جب خواتین امدادی کارکن ہی کام نہیں کر سکتیں تو پھر عالمی فنڈز اور امداد سب بے کار ہو جاتی ہے۔ یوں طالبان اپنے ہی عوام کے زخموں پر مرہم رکھنے کے بجائے انہیں مزید گہرا کر رہے ہیں۔اس وقت سب سے زیادہ ضرورت پاکستان، طالبان اور اقوام متحدہ کے درمیان مربوط اور لچکدار حکمت عملی کی ہے۔ پاکستان کو اپنے ری پیٹری ایشن پلان میں کم از کم ان خاندانوں کے لیے وقت اور سہولت دینی چاہیے جو زیادہ کمزور اور بے سہارا ہیں۔ اس حوالے سے UNHCR نے جو عملی تجاویز دی ہیں — یعنی خطرے سے دوچار گروہوں کی شناخت اور ان کے لیے خصوصی انتظامات — ان پر فوری عمل ہونا چاہیے۔ دوسری طرف طالبان کو یہ سمجھنا ہوگا کہ اگر وہ خواتین پر پابندی نرم نہیں کرتے تو دنیا کی کوئی بھی امداد ان کے عوام تک نہیں پہنچ سکتی۔ انسانی ہمدردی کو ثقافتی اور مذہبی جواز کے پردے میں قربان کرنا دراصل اپنی قوم کو سزا دینے کے مترادف ہے۔یہ بھی حقیقت ہے کہ افغان بحران کا کوئی فوری اور آسان حل نہیں۔ گزشتہ پچاس برسوں میں پناہ گزینی، نقل مکانی اور واپسی کے کئی ادوار دیکھے جا چکے ہیں۔ ہر بار امید کی گئی کہ یہ مسئلہ ختم ہو جائے گا، لیکن جنگ، عدم استحکام اور اب قدرتی آفات نے حالات کو بد سے بدتر بنا دیا ہے۔ ایسے میں یہ سوچنا محض خوش فہمی ہے کہ چند ماہ میں لاکھوں لوگوں کو واپس بھیجنے سے مسئلہ حل ہو جائے گا۔ اصل ضرورت اس بات کی ہے کہ طویل مدتی حکمت عملی اپنائی جائے جس میں ان مہاجرین کے لیے روزگار، تعلیم، رہائش اور سماجی تحفظ کے منصوبے شامل ہوں۔پاکستان کی اپنی سلامتی اور معاشی مشکلات اپنی جگہ، مگر دنیا کو بھی یہ احساس کرنا ہوگا کہ اگر افغان مہاجرین کو ایک بار پھر بے سہارا چھوڑ دیا گیا تو اس کے نتائج پورے خطے کو بھگتنا ہوں گے۔ دہشت گردی کے نیٹ ورک، منشیات کی اسمگلنگ، غربت اور ناخواندگی کے پھیلاؤ میں یہ بے دخلی مزید ایندھن ڈالے گی۔ لہٰذا عالمی برادری کو نہ صرف پاکستان کی مالی اور تکنیکی مدد بڑھانی ہوگی بلکہ طالبان پر بھی دباؤ ڈالنا ہوگا کہ وہ انسانی ہمدردی کے تقاضوں کو تسلیم کریں۔آخرکار سوال یہی ہے کہ کیا ہم لاکھوں بے گھر اور بے سہارا افغانوں کو ایک اور اندھیرے کے حوالے کر دیں گے یا پھر بین الاقوامی تعاون اور انسانی ہمدردی کی بنیاد پر انہیں ایک محفوظ اور باوقار مستقبل دینے کی کوشش کریں گے؟ آج اگر یہ سوال نظرانداز کر دیا گیا تو آنے والے کل میں اس کے اثرات صرف افغانستان تک محدود نہیں رہیں گے، بلکہ پاکستان اور پورے خطے کی سلامتی، معیشت اور معاشرت کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیں گے۔سرائیکی وسیب اور بلوچستان میں افغان مہاجرین کی واپسی اور کیمپوں کے قیام کے اثرات ایک الگ ہی نوعیت کا مسئلہ ہیں۔ یہ علاقے پہلے ہی وسائل کی شدید قلت، پسماندگی اور حکومتی عدم توجہی کا شکار ہیں۔ ایسے میں مہاجرین کے بڑے پیمانے پر آنے یا جانے سے مقامی برادریوں کے مسائل کئی گنا بڑھ جاتے ہیں۔ سرائیکی خطہ، جو تعلیم، صحت اور روزگار کے مواقع کی کمی کا شکار ہے، اب سیلاب اور موسمیاتی آفات کے اثرات بھی جھیل رہا ہے۔ یہاں پہلے سے ہی مقامی آبادی اپنے بچوں کے اسکول ڈوب جانے اور صحت کے مراکز کے ٹوٹ پھوٹ جانے پر پریشان ہے، اور ان حالات میں جب افغان مہاجرین کے خاندان بھی انہی سہولیات پر بوجھ ڈالنے لگیں تو مقامی ردعمل میں بے چینی اور اضطراب بڑھنا فطری بات ہے۔ملتان، ڈیرہ غازی خان، مظفرگڑھ اور لیہ جیسے اضلاع میں افغان خاندانوں کے کیمپ قائم کیے جانے کے بعد عام لوگوں میں یہ احساس پیدا ہوا ہے کہ حکومت ان مہاجرین کی بنیادی ضروریات پوری کرنے کے لیے تو فوری اقدامات کرتی ہے لیکن دہائیوں سے مقامی کسانوں اور مزدوروں کے مسائل کو سننے والا کوئی نہیں۔ لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ آخر کیوں مقامی طلبہ کے لیے اسکولوں کی چھتیں مرمت نہیں ہوتیں، کیوں دیہات میں پینے کا صاف پانی دستیاب نہیں، اور کیوں ہسپتالوں میں دوائیں میسر نہیں، لیکن مہاجرین کے لیے چند ہفتوں میں خیمے، راشن اور طبی سہولیات فراہم ہو جاتی ہیں۔ اس احساس محرومی نے سرائیکی وسیب میں پہلے سے موجود پسماندگی کے بیانیے کو اور مضبوط کیا ہے۔بلوچستان میں صورتحال اس سے بھی زیادہ پیچیدہ ہے۔ یہاں پہلے ہی ہزاروں خاندان دہشت گردی اور فوجی آپریشنز کے باعث بے گھر ہو کر کیمپوں میں رہ رہے ہیں۔ افغان مہاجرین کی حالیہ آمد نے ان کی مشکلات میں اضافہ کر دیا ہے۔ قلعہ عبداللہ، چمن اور کوئٹہ کے اطراف میں قائم کیمپوں میں مقامی لوگ شکایت کرتے ہیں کہ ان کے وسائل پر غیر معمولی دباؤ بڑھ گیا ہے۔ اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں اضافہ، کرایوں کی شرح میں بے تحاشا اضافہ اور روزگار کے مواقع پر مقابلہ عام لوگوں کے لیے مشکلات کھڑی کر رہا ہے۔ ان کی شکایت یہ بھی ہے کہ مہاجرین کے کیمپوں کے اردگرد سیکورٹی چیک پوسٹوں میں اضافہ ہوتا ہے جس کی وجہ سے مقامی لوگوں کی نقل و حرکت بھی متاثر ہوتی ہے۔سرائیکی وسیب اور بلوچستان میں مقامی برادریوں کا ردعمل صرف شکایت تک محدود نہیں رہا۔ کئی جگہوں پر احتجاج بھی دیکھنے میں آیا ہے۔ لوگ مطالبہ کر رہے ہیں کہ اگر افغان مہاجرین کو وقتی طور پر یہاں ٹھہرایا جاتا ہے تو وفاقی اور صوبائی حکومتیں مقامی آبادی کے لیے اضافی سہولتیں بھی فراہم کریں۔ اسکولوں اور ہسپتالوں کو بہتر بنایا جائے، روزگار کے مواقع بڑھائے جائیں اور بنیادی ڈھانچے میں سرمایہ کاری کی جائے۔ بصورت دیگر یہ خدشہ بڑھ رہا ہے کہ مقامی اور مہاجر برادریوں کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہوگا جو سماجی ہم آہنگی کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔یہ صورتحال اس نکتے کو اجاگر کرتی ہے کہ مہاجرین کے مسئلے کو صرف انسانی ہمدردی یا سکیورٹی کے زاویے سے نہیں دیکھا جا سکتا۔ اسے مقامی ترقیاتی تناظر کے ساتھ جوڑنا ہوگا۔ سرائیکی وسیب اور بلوچستان جیسے خطوں کو دہائیوں سے ترقیاتی عمل میں پیچھے رکھا گیا ہے۔ اگر حکومت ان خطوں میں افغان مہاجرین کے لیے کیمپ قائم کرتی ہے تو اسے لازمی طور پر مقامی آبادی کے لیے بھی متوازی ترقیاتی اقدامات کرنے چاہئیں۔ بصورت دیگر یہ پالیسی مزید احساس محرومی اور بے اعتمادی کو جنم دے گی۔آخرکار سوال یہی ہے کہ کیا پاکستان اپنی تاریخ کی اس بھاری ذمے داری کو انصاف اور توازن کے ساتھ نبھائے گا؟ یا پھر ایک بار پھر سرائیکی وسیب اور بلوچستان جیسے محروم خطوں کو قربانی کا بکرا بنایا جائے گا؟ افغان مہاجرین کی واپسی کا مسئلہ یقینی طور پر ایک انسانی بحران ہے، مگر یہ ہمارے داخلی ڈھانچے کی کمزوریوں اور صوبائی محرومیوں کو بھی بے نقاب کر رہا ہے۔ اس بحران کو اگر موقع بنا کر مقامی ترقی کے منصوبوں کو آگے بڑھایا جائے تو شاید یہ خطے کے لیے ایک نیا آغاز ثابت ہو۔ ورنہ یہ ایک اور باب ہوگا محرومی، غربت اور ریاستی بے حسی کی لمبی کہانی میں۔

شیئر کریں

:مزید خبریں