نیپال میں ابھرنے والی حالیہ عوامی تحریک نے دنیا کو ایک بار پھر یہ دکھایا ہے کہ جب معاشرے میں بے روزگاری، مہنگائی، کرپشن اور ریاستی جبر ایک ساتھ جمع ہو جاتے ہیں تو پھر کوئی طاقت عوام کو سڑکوں پر نکلنے سے روک نہیں سکتی۔ نوجوانوں کی قیادت میں چلنے والی یہ تحریک، جس نے حکومت کا تختہ الٹ دیا اور فوج کو عبوری سیٹ اپ پر مذاکرات پر مجبور کیا، ہمارے خطے کی اس تاریخ کو دہرا رہی ہے جو ہم نے کل سری لنکا اور بنگلہ دیش میں دیکھی تھی۔ وہاں بھی یہی کہانی تھی: بے قابو مہنگائی، بے روزگار نوجوان، کرپٹ اشرافیہ، اور پھر ایک عوامی لاوا جو آخرکار پھٹ پڑا۔یہ درست ہے کہ عالمی طاقتیں اکثر ایسی تحریکوں کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ لیکن یہ محض سازشوں کا کھیل نہیں ہوتا۔ اگر عوامی غصہ اور حقیقی محرومی نہ ہو تو کوئی تحریک کامیاب نہیں ہو سکتی۔ نیپال کے عوام کی بغاوت، سری لنکا کی سڑکوں پر ابھرتی ہوئی عوامی طاقت، اور ڈھاکہ میں نوجوانوں کے احتجاج اس بات کا اعلان ہیں کہ جب ریاست اپنی ذمہ داریاں بھول جائے تو عوام اپنی طاقت یاد دلا دیتے ہیں۔پاکستان میں سوال یہ اٹھتا ہے کہ یہاں ایسا کیوں نہیں ہوتا؟ کیوں ہمارے نوجوان مہنگائی، بے روزگاری اور کرپشن کے خلاف ویسے متحد نہیں ہوتے جیسے ہمسایہ ملکوں میں دیکھنے کو ملا؟ یہ سوال تلخ ضرور ہے مگر حقیقت سے خالی نہیں۔پاکستان کی تاریخ احتجاج سے خالی نہیں۔ ایوب خان کے خلاف تحریک، ضیا الحق کے خلاف جدوجہد، مشرف کے خلاف وکلاء کی تحریک—یہ سب ہماری تاریخ کا حصہ ہیں۔ مگر اس کے باوجود آج وہ اجتماعی ولولہ غائب ہے۔ آج سڑکیں سنسان ہیں، حالانکہ ملک بدترین معاشی بحران سے گزر رہا ہے۔ مہنگائی کی شرح عام آدمی کو دو وقت کی روٹی سے محروم کر رہی ہے، لیکن کوئی بڑی تحریک نہیں اٹھ رہی۔یہاں یہ سوال بھی اُبھرتا ہے کہ آخر ہمارا سماج ایسے رہنما کیوں پیدا نہیں کر رہا جو عوام کے اندر امید جگا سکیں؟ کہاں ہیں وہ لوگ جو مولانا عبدالحمید بھاشانی کی طرح بائیں بازو کی سیاست کو عوامی نعروں میں ڈھالیں؟ کہاں ہیں وہ رہنما جو شیخ مجیب الرحمن کی طرح اپنے لوگوں کو ایک نظریے کے گرد مجتمع کر دیں؟ کہاں ہے کوئی بھٹو، جو مزدور اور کسان کو زبان دے سکے؟یہ سماج تو اب اُن خطیبوں سے بھی خالی ہو گیا ہے جو اپنے زورِ خطابت سے عوام کو رات بھر اپنے سحر میں باندھ لیتے تھے۔ کہاں گئے عطاء اللہ شاہ بخاری؟ کہاں ہیں مولانا فیض الحسن آلومہار شریف یا شورش کاشمیری جیسے مقرر جو اپنے الفاظ سے ہزاروں لوگوں کو جھنجھوڑ دیتے تھے؟اور ادب و شاعری کا حال بھی کچھ بہتر نہیں۔ آج کہاں ہیں وہ شاعر جو حبیب جالب کی طرح عوام کے دکھ درد کو اپنی نظموں میں ڈھالیں اور ظلم کے خلاف بغاوت کا ترانہ بنائیں؟ کہاں ہیں وہ افسانہ نگار جو منٹو کی طرح سماج کے ننگے سچ کو بے نقاب کر سکیں؟ ہم نے اپنی فکری دنیا کو بھی زوال کے حوالے کر دیا ہے۔ ادیب اور شاعر درباروں، این جی اوز اور ٹی وی ٹاک شوز تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں۔مگر یہ تصویر مکمل تاریک بھی نہیں۔ اس سماج میں نئی آوازیں بھی جنم لے رہی ہیں، اگرچہ وہ ابھی کمزور اور منتشر ہیں۔ بلوچستان کی گلیوں میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کی تحریکیں، خیبر پختونخوا میں نوجوانوں کی امن اور حقوق کے لیے آوازیں، کسانوں اور مزدوروں کے احتجاج، اور حالیہ برسوں میں سوشل میڈیا پر ابھرتی ہوئی نئی نسل کی تحریریں اور نعرے—یہ سب اس بات کے اشارے ہیں کہ بغاوت کی چنگاری ابھی مکمل طور پر بجھی نہیں۔یقیناً یہ چنگاریاں فی الحال کوئی بڑی آگ نہیں بن سکیں۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ہمارا ریاستی اور سماجی ڈھانچہ لوگوں کو مکمل طور پر بے دخل نہیں ہونے دیتا۔ ہر خاندان، چاہے امیر ہو یا غریب، کسی نہ کسی سطح پر سرپرستی اور مفاد کے اس جال میں بندھا ہوا ہے جو بالآخر ریاست تک پہنچتا ہے۔ جب کوئی نظام آپ کو تھوڑے بہت فائدے دے رہا ہو تو بغاوت کا حوصلہ کم ہو جاتا ہے۔لیکن ساتھ ہی یہ بھی حقیقت ہے کہ نئی نسل ڈیجیٹل دنیا سے جڑی ہوئی ہے۔ ان کا سیاسی شعور ٹوئٹر، فیس بک اور یوٹیوب پر پروان چڑھ رہا ہے۔ ان کے احتجاج آن لائن ہیں مگر سڑکوں پر نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ طاقت، جو کل سری لنکا اور نیپال کی سڑکوں پر ظاہر ہوئی، پاکستان میں اب تک بکھری ہوئی ہے۔اس جمود کو توڑنے کے لیے ہمیں اپنے سماج کو فکری و تخلیقی طور پر بیدار کرنا ہوگا۔ ہمیں نئے جالب، نئے منٹو، نئے بھاشانی اور نئے بھٹو پیدا کرنے ہوں گے۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب ہم اپنے نوجوانوں کو سیاسی و سماجی تحریکوں میں شامل کریں، انہیں محض تماشائی نہ رہنے دیں۔ شاعر اور ادیب اگر پھر سے عوامی دکھ کو اپنی تحریروں کا محور بنائیں، اور سیاستدان اگر اپنی ذات کے بجائے عوامی مفاد کو اپنا ہدف بنائیں تو شاید یہ سماج پھر سے جاگ اٹھے۔آخر میں سوال یہی ہے: کیا ہم اپنے اندر وہ حوصلہ پیدا کریں گے جو ہمیں نئے رہنما اور نئے خواب دے؟ یا ہم صرف ماضی کی یادوں میں زندہ رہیں گے اور اپنے حال کو مزید اندھیروں کے حوالے کر دیں گے؟ اگر آج ہم نے جواب نہ ڈھونڈا تو کل ہمارے بچے یہی سوال ہم سے پوچھیں گے: “ہمارا سماج آخر کہاں کھو گیا تھا؟”
