اسلام آباد: سپریم کورٹ میں سپر ٹیکس سے متعلق درخواستوں پر سماعت کے دوران جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دیے کہ جب عام انکم ٹیکس لاگو نہیں کیا جا سکتا تو پھر سپر ٹیکس کیسے نافذ ہو سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر آج فنڈ پر 100 روپے ٹیکس عائد ہوتا ہے تو 25 سال بعد یہی رقم بڑھتے بڑھتے 550 روپے تک پہنچ جائے گی، جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ریٹائرمنٹ کے بعد ملنے والے فوائد متاثر ہوں گے۔
پانچ رکنی آئینی بینچ جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں کیس کی سماعت کر رہا ہے۔ سماعت کے دوران وکیل عاصمہ حامد نے مؤقف اختیار کیا کہ قانون ساز ادارے نے پروویڈنٹ فنڈ کے معاملے میں کسی حد تک چھوٹ رکھی ہے۔ جس پر جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ فنڈ کسی کی ذاتی جاگیر نہیں ہوتا بلکہ یہ ٹرسٹ اتھارٹیز کے ذریعے چلایا جاتا ہے اور اس پر ٹیکس متعلقہ افراد سے وصول کیا جاتا ہے۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے مؤقف دیا کہ سیکنڈ شیڈول میں پروویڈنٹ فنڈ پر سپر ٹیکس سمیت دیگر تمام ٹیکسوں میں چھوٹ شامل ہے۔ اس پر جسٹس جمال خان نے ریمارکس دیے کہ “آپ تو محترمہ کو خود ہی راستہ دکھا رہے ہیں۔”
عاصمہ حامد نے مزید کہا کہ ٹیکس دہندگان اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے اور سیکشن فور سی کو ملا کر یہ مؤقف اپناتے ہیں کہ وہ سپر ٹیکس دینے کے پابند نہیں ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ جس سال اضافی ٹیکس کی ضرورت ہو گی، اس کا تعین ٹیکس ڈیپارٹمنٹ کرے گا، البتہ ایک مخصوص حد کے بعد انکم ٹیکس اور سپر ٹیکس کم تو ہوتے ہیں لیکن مکمل ختم نہیں ہوتے۔
سماعت کے دوران جسٹس محمد علی مظہر نے یہ بھی سوال اٹھایا کہ سپر ٹیکس کو ایڈوانس کیسے تصور کیا جا سکتا ہے اور اس کی کیلکولیشن کس بنیاد پر ہوگی، جس پر عاصمہ حامد نے کہا کہ مالی سال کا منافع سامنے ہوتا ہے، اسی سے حساب لگایا جا سکتا ہے۔
