پاکستان میں خواجہ سرا اور ٹرانس جینڈر برادری کی زندگی ایک ایسے دوہرے پن میں گزرتی ہے جہاں قانون کبھی انہیں تسلیم کرتا ہے تو کبھی انکار کی طرف دھکیل دیتا ہے۔ 2011 میں سپریم کورٹ کے تاریخی فیصلے نے ان افراد کو آئینی اور انسانی سطح پر پہلی مرتبہ وہ مقام دیا جس کے وہ برسوں سے منتظر تھے۔ لیکن 2023 میں وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے نے دوبارہ اس راہ کو مسدود کر دیا اور خود شناخت کے حق کو میڈیکل جانچ پر پرکھنے کی شرط لگا دی۔ یہ بار بار کا آگے بڑھنا اور پیچھے ہٹنا ان ہزاروں انسانوں کی زندگی کو غیر یقینی اور اذیت ناک بنائے ہوئے ہے جو اپنی شناخت کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔
قانونی اعتراف کے باوجود عملی سطح پر صورتحال مختلف ہے۔ نادرا کی جانب سے فراہم کیا گیا ’’X‘‘ مارکر ظاہری طور پر ایک سہولت ضرور ہے لیکن درحقیقت یہ شناخت کے بجائے انکار کا ہتھیار بن گیا ہے۔ ایک طرف تو 2018 کے ایکٹ نے خود شناخت کے حق کو تسلیم کیا، دوسری طرف نادرا کے فارم میں ’’X‘‘ شامل کر کے خواجہ سرا اور ٹرانس جینڈر افراد کو ایک ایسی زمرہ بندی میں ڈال دیا گیا جو ان کی حقیقی شناخت کو مزید دھندلا دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے لوگ اسے قبول کرنے سے انکار کرتے ہیں کیونکہ یہ نہ انہیں مرد مانتا ہے نہ عورت، بلکہ ایک مبہم ’’دیگر‘‘ کے خانے میں دھکیل دیتا ہے۔
یہ مسئلہ صرف شناختی کارڈ یا پاسپورٹ کا نہیں بلکہ روزمرہ زندگی کے ہر مرحلے کا ہے۔ کوئی نوکری ہو، کوئی تعلیمی ادارہ یا سفری مرحلہ — ’’X‘‘ مارکر ان افراد کو الگ کر دیتا ہے اور ان پر سوالیہ نشان لگا دیتا ہے۔ یہ سوال صرف یہ نہیں کہ وہ کون ہیں بلکہ یہ کہ وہ کیوں موجود ہیں۔ یہی سماجی رویہ انہیں نہ صرف معاشی مواقع سے محروم کرتا ہے بلکہ انہیں مسلسل تحقیر اور امتیاز کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
پاکستانی معاشرت میں خواجہ سرا کمیونٹی تاریخی طور پر موجود رہی ہے۔ درباروں، شاہی محلات اور صوفی خانقاہوں سے لے کر لوک روایات تک ان کا ذکر احترام کے ساتھ ملتا ہے۔ لیکن جدید ریاستی ڈھانچے نے ان کی پہچان کو قانونی کاغذوں اور شناختی خانوں تک محدود کر دیا ہے۔ یہ ایک عجیب تضاد ہے کہ جنہیں ماضی میں سماجی تانے بانے کا حصہ سمجھا جاتا تھا، آج وہ اپنے ہی وطن میں اجنبی بنا دیے گئے ہیں۔
ان کی زندگی کے مسائل صرف قانونی یا سماجی نہیں بلکہ جذباتی اور انسانی بھی ہیں۔ ’’گِریہ‘‘ جیسے رشتے، جو خواجہ سرا ثقافت میں محبت اور تحفظ کی علامت سمجھے جاتے ہیں، ریاست کے لیے سرے سے وجود ہی نہیں رکھتے۔ اس خلا نے ان کی زندگی کو مزید غیر محفوظ بنا دیا ہے۔ یہ وہ پہلو ہے جس پر کبھی سنجیدگی سے غور نہیں کیا گیا۔ کیا ایک شہری کو صرف اس کی شناخت کی بنیاد پر محبت، رفاقت اور ازدواجی تحفظ سے محروم کیا جا سکتا ہے؟
ٹرانس جینڈر مردوں اور عورتوں کی کہانیاں اس معاشرتی انکار کی کھلی شہادت ہیں۔ ایک مرد جسے زبردستی شادی کے بندھن میں باندھا گیا، بچوں کو جنم دینے پر مجبور کیا گیا، اور بعد میں جب وہ اپنی اصل شناخت کے ساتھ جینے لگا تو ریاست نے اسے نہ مرد مانا نہ باپ۔ اسی طرح ایک عورت جس نے اپنی بچت سے سرجری کروا کر اپنی شناخت کے ساتھ جینے کی کوشش کی، اسے اسپتال میں طالب علموں کے سامنے ذلیل کیا گیا، اور نادرا نے اس کی شناختی تبدیلی کے حق کو ’’X‘‘ کے بہانے مسخ کر دیا۔ یہ واقعات محض ذاتی تکالیف نہیں بلکہ ریاستی اداروں کی بے حسی اور عدم برداشت کا چہرہ ہیں۔
اداری طور پر یہ سوال سب کے سامنے کھڑا ہے کہ کیا پاکستانی معاشرہ اور ریاست انسانی وقار کو صرف اکثریتی شناخت کے لیے مخصوص رکھنا چاہتی ہے؟ کیا اقلیتوں، خواجہ سرا اور ٹرانس جینڈر افراد کے بنیادی حقوق کو مذہبی یا ثقافتی تعبیرات کے نام پر مستقل طور پر قربان کیا جائے گا؟
یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ شناخت کا حق محض قانونی سہولت نہیں بلکہ انسانی وجود کا بنیادی حصہ ہے۔ جسے اپنی شناخت سے محروم کر دیا جائے، وہ صرف سماج سے نہیں بلکہ خود اپنی ذات سے بھی بیگانہ ہو جاتا ہے۔ پاکستان میں اس وقت ضرورت ہے کہ معاشرہ اور ریاست دونوں اپنی روش بدلیں۔ قانون سازی صرف تب کارآمد ہوگی جب اس پر عمل درآمد کرنے والے ادارے اپنی سوچ کو بدلیں گے۔
اس کے لیے اسکولوں میں احترام اور شمولیت کی تعلیم دینا ہوگی، میڈیا میں منصفانہ نمائندگی یقینی بنانی ہوگی، اور نادرا جیسے اداروں میں امتیازی رویوں کو ختم کرنا ہوگا۔ مذہبی و سماجی رہنماؤں کو یہ پیغام دینا ہوگا کہ ہر انسان کی شناخت اس کا بنیادی حق ہے، جس پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا۔
خواجہ سرا اور ٹرانس جینڈر کمیونٹی محض شناخت کی لڑائی نہیں لڑ رہی، وہ اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے۔ یہ جنگ ان کی نہیں بلکہ پورے معاشرے کی ہے۔ اگر ہم ان کے وجود کو تسلیم کرنے میں ناکام رہے تو دراصل ہم اپنے ہی انسانی ضمیر کو کچل رہے ہوں گے۔ آج وقت ہے کہ ہم یہ طے کریں کہ پاکستان ایک ایسا ملک ہوگا جو اپنے تمام شہریوں کو ان کی اصل شناخت کے ساتھ قبول کرے گا یا پھر وہی رہے گا جہاں ’’X‘‘ کے پردے میں انسانیت کو مسلسل مٹایا جاتا ہے۔
یہ اداریہ ہمیں اس نتیجے پر لے آتا ہے کہ جنس اور شناخت کا مسئلہ محض کسی ایک طبقے کا معاملہ نہیں، یہ پورے معاشرے کے وقار اور انصاف کی آزمائش ہے۔ پاکستان کے اداروں، قیادت اور عوام کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ بھید بھاؤ کے اس دائرے کو توڑ کر سب کو برابر کی عزت اور وقار دیں گے یا پھر تاریخ کے کٹہرے میں ہمیشہ کے لیے کھڑے رہیں گے۔
