ملتان(میاں غفار سے)یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ ملتان ڈویژن اور علی پور میں حالیہ سیلاب نےجوتباہی مچائی ہے اس طرح کی بربادی اس سے زیادہ بڑ ے سیلابی ریلوں میں بھی ماضی میں نہیں ہوئی اور اگر علی پور کا خاص طور پر ذکر کیا جائے تو وہاں ہمیشہ دریائے سندھ میں آنے والے سیلابی ریلے سے جزوی نقصان ہوا کرتا تھا مگر ایسا پہلی مرتبہ ہوا کہ چناب کے پانی نے ہیڈ پنجند سے نیچا اور اونچائی کے شہر علی پور کے80فیصد علاقوں کو10سے 15فٹ سیلابی ریلوے کے ساتھ تباہ و برباد کردیا اور بڑی تعداد میں اموات ہوئیں جسے دانستہ ضلعی انتظامیہ چھپاتی رہی حالانکہ اس تباہی اور بڑے پیمانے پر بربادی کی ذمہ داری کسی بھی طورر پر نہ تو انتظامیہ پر ڈالی جاسکتی ہے اور نہ ہی موجودہ حکومت پنجاب پر جبکہ اس تباہی کی اصل وجہ ہیڈ پنجند کے ڈائون سٹریم یعنی بہائو کی سمت ہیڈ کے دروازوں یعنی گیٹ سے صرف 90 میٹر کے فاصلے پر چند سال قبل بنائی گئی جو دیوار ہے جس سے پانی کو روکا اور پانی کا7لاکھ کے ریلے پر ہی نہ صرف بہائو بری طرح متاثر ہوا بلکہ اس دیوار کی وجہ سے پانی کی سطح مسلسل بلند ہوتی رہی اور سیلابی پانی سے جلالپور ضلع ملتان اور علی پور ضلع مظفرگڑھ کی تحصیلوں کو تباہ کرکے رکھ دیا ،سوال یہ پیدا ہوتا ہےکہ جب اس بربادی کی ذمہ کس بھی طور پر موجودہ حکومت اور انتظامیہ پر ڈالی ہی نہیں جاسکتی نہ ہی موجودہ حکومت کے دور میں یہ پراجیکٹ مکمل ہوا او نہ ہی اس کی منظوری اس حکومت نے دی تو پھر حکومت فوری طور پر آبی ماہرین کی اعلی سطحی انکوائری کمیشن بنا کیوں نہیں رہی، حالانکہ انجینئرنگ یونیورسٹی لاہور کے بیراجز اورہیڈ ورکس کے ماہر انجینئر پروفیسر ڈاکٹر ذوالفقار گزشتہ 15 سال سے ہر فورم پر آواز بلند کررہے ہیں محکمہ انہار پی ایم او بیراجز پنجاب صوبے بھر کے ہیڈ ورکس اور بیراجز کو ری ماڈلنگ کی آڑ میں تباہ کررہے ہیں اور ڈاکٹر ذوالفقار نے چوہدری پرویز الہیٰ کے دور میں جب یہ پراجیکٹ سب سے پہلے ہیڈ تونسہ پر اس ماڈلنگ آف تونسہ بیراج کی آڑ میں شروع ہوا تھا تو انہوں نے اس پر پراجیکٹ سٹڈی کے بعد موقف اختیار کیا تھا کہ یہ بیراج کے ساتھ بہت بڑا کھلواڑ ہورہا ہے اور حکومت اسے بند کرائے مگر یہ کام جاری رہا اور پھر یہی کام جناح بیراج پر ہوا پھر بعد میں لوٹ مار کیلئے ہیڈ پنجند کا انتخاب ہووا مر محکمہ انہار کے ماہرین پی ایم او بیراجز اور ان پراجیکٹس کی کی کنسلٹنٹ فرم یہ بات نظر انداز کرگئے کہ جناح بیراج اور تونسہ بیراج ک مقابےل میں ہیڈ پنجند کے مقام پر زمین کی گڈو بیراج کی طرف ڈھلوان میں کمی آجاتی ہے اور گڈو بیراج کے بعد کوٹری بیراج حتیٰ کہ ٹھٹھہ تک دریائے سندھ میں زمینی ڈھلواں کی کمی کی وجہ سے دریانی پانی کے بہائو میں مسلسل کمی ہوتی جاتی ہے یہی وجہ ہے کہ سندھ میں جب دریائ سندھ کا پانی سیلاب کی وجہ سے دریا سے باہر نکل کر پھیلتا ہے تو کئی کئی ماہ واپس نہیں جاتا۔ری ماڈلنگ کی آڑ میں کرپشن ک اس کھیل کیلئے جب ہیڈ پنجند کے ڈائون سٹریم میں دیوار بنادی گئی تو پہلے ہی سیلاب نے لاکھوں افراد کو اربوں روپے کا نقصان پہنچاتے ہوئے ملکی معیشت کو برباد کردیا حیران کن امر یہ ہے کہ حکومت پنجاب جس پر اس پراجیکٹ کے حوالے سے کسی بھی طرح کی ذمہ داری نہیں آرہی وہ اعلیٰ سطح پر تحقیقات کیلئے گریز کیوں کررہی ہے۔
