آج کی تاریخ

پیٹرولیم مصنوعات مزید مہنگی ہونے کا امکان، ڈیزل 4 روپے 79 پیسے تک بڑھ سکتا ہے-پیٹرولیم مصنوعات مزید مہنگی ہونے کا امکان، ڈیزل 4 روپے 79 پیسے تک بڑھ سکتا ہے-مریم نواز سیلاب متاثرین کی خدمت ماں اور بہن کی طرح کر رہی ہیں، عظمیٰ بخاری-مریم نواز سیلاب متاثرین کی خدمت ماں اور بہن کی طرح کر رہی ہیں، عظمیٰ بخاری-سیلاب متاثرین کی بحالی تک چین سے نہیں بیٹھیں گے، بلاول بھٹو کا وژن اُمید کی کرن ہے، سینئر وزیر شرجیل انعام میمن-سیلاب متاثرین کی بحالی تک چین سے نہیں بیٹھیں گے، بلاول بھٹو کا وژن اُمید کی کرن ہے، سینئر وزیر شرجیل انعام میمن-سیلاب سندھ میں داخل، کندھکوٹ کے کچے علاقے زیرآب، گڈو بیراج پر پانی کا دباؤ بڑھ گیا-سیلاب سندھ میں داخل، کندھکوٹ کے کچے علاقے زیرآب، گڈو بیراج پر پانی کا دباؤ بڑھ گیا-لاہور کی سیشن عدالت کا یوٹیوبر رجب بٹ کے خلاف توہین مذہب کیس پر تحریری فیصلہ-لاہور کی سیشن عدالت کا یوٹیوبر رجب بٹ کے خلاف توہین مذہب کیس پر تحریری فیصلہ

تازہ ترین

جھوٹے مقدمات اور سیاسی اسیری کی تاریخ

پاکستان کی سیاست کا المیہ یہ رہا ہے کہ یہاں اختلافِ رائے کو دلیل اور مکالمے کے ذریعے دبانے کے بجائے مقدمات، گرفتاریوں اور جیلوں کے ذریعے کچلنے کی روایت پروان چڑھی ہے۔ بلوچ یکجہتی کمیٹی کی قیادت پر لگائے گئے حالیہ الزامات اور ان کے خلاف مسلسل نئے مقدمات کا اندراج اس طویل اور سیاہ روایت کی ایک اور کڑی ہے۔ ڈاکٹر مہرنگ بلوچ، بیبگر بلوچ، گلزادی، بیبو اور صبغت اللہ شاہ بلوچ پر لگاتار ایف آئی آرز کا اندراج اور بار بار ریمانڈ میں توسیع محض ایک عدالتی معاملہ نہیں بلکہ اس امر کی علامت ہے کہ ریاستی نظام اختلافی آوازوں کو برداشت کرنے کے بجائے انہیں خاموش کر دینے کی روش پر قائم ہے۔
یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں کہ جہاں عوامی نمائندوں، انسانی حقوق کے کارکنوں یا سیاسی قیادت کو جھوٹے مقدمات کے ذریعے الجھایا گیا ہو۔ پاکستان کی تاریخ اس تلخ سچائی سے بھری پڑی ہے۔ ایوب خان کے مارشل لا کے دور میں حبیب جالب جیسے شاعروں اور فیض احمد فیض جیسے دانشوروں کو بغاوت اور اشتعال انگیزی کے مقدمات کا سامنا کرنا پڑا۔ ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف جنرل ضیاء الحق کی آمریت نے محض سیاسی انتقام کے تحت ایسا عدالتی مقدمہ بنایا جسے دنیا آج بھی انصاف کا قتل کہتی ہے۔ بے نظیر بھٹو کی قیادت میں پیپلز پارٹی کے کارکنان کو بار بار جیلوں میں ڈالا گیا، ان پر انسداد دہشت گردی کے مقدمات قائم کیے گئے، اور سیاسی سرگرمیوں کو بغاوت کے مترادف قرار دیا گیا۔ مشرف کے دور میں صحافیوں، وکلا اور ججوں کو بغاوت یا غداری کے مقدمات میں گھسیٹا گیا۔ یہ وہی روایت ہے جو آج بلوچ یکجہتی کمیٹی کی قیادت کے خلاف دوہرائی جا رہی ہے۔
یہ مقدمات محض کاغذی کارروائی یا پولیس کے کمرے تک محدود نہیں رہتے، بلکہ ان کا مقصد ایک وسیع تر سیاسی پیغام دینا ہوتا ہے: جو بھی ریاستی پالیسیوں پر سوال اٹھائے گا، اسے عبرت کا نشان بنا دیا جائے گا۔ اس کی مثال بلوچستان کے سیاسی اور سماجی کارکن ہیں جو برسوں سے جبری گمشدگیوں، ماورائے عدالت ہلاکتوں اور انسانی حقوق کی پامالیوں پر آواز اٹھاتے آ رہے ہیں۔ ان کی گرفتاریوں اور جھوٹے مقدمات کا مقصد یہ ہے کہ بلوچستان میں ہونے والے المیوں پر پردہ ڈال دیا جائے اور جو بھی ان پر روشنی ڈالے اسے عدالتوں اور جیلوں کی تاریکیوں میں کھو دیا جائے۔
لیکن یہ صرف بلوچستان کی کہانی نہیں۔ پنجاب، سندھ اور خیبرپختونخوا سب اس روایت کے گواہ ہیں۔ مزدور تحریکوں کے رہنما، کسان تنظیموں کے کارکن، صحافی، طلبہ اور حتیٰ کہ اساتذہ تک اس گرفت سے محفوظ نہیں رہے۔ حبیب جالب کا مقدمہ آج بھی یاد ہے جب ایک شاعر کو صرف اس لیے جیل میں ڈال دیا گیا کہ وہ حکومتوں کو آئینہ دکھا رہا تھا۔ حبیب اللہ خان، میاں افتخار، منظور پشتین یا علی وزیر جیسے رہنما بھی اس سیاسی انتقام کی بھینٹ چڑھتے رہے۔ ہر بار یہی طریقہ اپنایا گیا: جھوٹے مقدمات کا اندراج، بار بار ریمانڈ، اور نئے الزامات کی بوچھاڑ تاکہ ملزم کبھی عدالت سے باہر نہ آ سکے۔
یہ طریقہ کار قانونی نظام کے تقدس پر بھی سوالیہ نشان ہے۔ عدالتیں اگر محض ریاستی طاقت کے آلہ کار بن جائیں اور بنیادی حقوق کی ضمانت دینے کے بجائے مقدمات کے ذریعے سیاسی انتقام کو قانونی جواز فراہم کریں تو پھر عدلیہ کی ساکھ کہاں باقی رہتی ہے؟ بلوچستان ہائی کورٹ کی طرف سے بار بار ریمانڈ میں توسیع، درجنوں نئی ایف آئی آرز کا اندراج اور پھر مزید ریمانڈ دینا اس بات کا ثبوت ہے کہ انصاف کا نظام سیاسی دباؤ سے آزاد نہیں رہا۔ جب عدالت ہی اسیر کو انصاف فراہم نہ کر سکے تو پھر عوام کس دروازے پر دستک دیں؟
یہی وہ لمحہ ہے جہاں بین الاقوامی برادری اور انسانی حقوق کے اداروں کی آواز بلند ہونا ناگزیر ہو جاتا ہے۔ جبری گمشدگیوں کے خلاف آواز اٹھانے والے کارکنوں کو دہشت گردی یا بغاوت کے مقدمات میں پھنسانا، خواتین وکلاء یا طلبہ رہنماؤں کو عدالتوں میں ہراساں کرنا، یا صحافیوں کو غداری کے مقدمات میں گرفتار کرنا سب اسی پالیسی کا حصہ ہیں جس کا مقصد معاشرے کو خوف زدہ رکھنا ہے۔ یہ وہی طریقہ ہے جو آمریتوں نے اپنایا، اور افسوس کہ جمہوری حکومتیں بھی اسی کے تسلسل کو برقرار رکھے ہوئے ہیں۔
ایف آئی آرز کے اندراج کی یہ سیاست دراصل ایک ’’انسٹرومنٹ آف کنٹرول‘‘ ہے۔ ریاست یہ جانتی ہے کہ جھوٹے مقدمات کے ذریعے کسی بھی شخص کو سالوں تک عدالتوں کے چکر لگوانا اس کے لیے سب سے بڑی سزا ہے، چاہے آخر میں وہ بری ہی کیوں نہ ہو جائے۔ مقدمات کی طوالت اور عدالتی کارروائی کا دباؤ اس قدر ہوتا ہے کہ بیشتر لوگ سیاست یا جدوجہد چھوڑنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ یہی وہ خاموش جبر ہے جو معاشرے کو اندر سے مفلوج کرتا ہے۔
یہ سوال بھی اہم ہے کہ آخر یہ مقدمات کب تک اپنا اثر قائم رکھ سکیں گے؟ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ کوئی بھی تحریک جھوٹے مقدمات اور اسیری سے ختم نہیں ہوتی۔ فیض اور جالب کی نظمیں جیلوں میں لکھی گئیں، مگر وہ آج بھی عوام کی زبان پر ہیں۔ بھٹو کو پھانسی کے تختے پر لے جایا گیا مگر ان کا سیاسی ورثہ آج بھی زندہ ہے۔ بے نظیر کو جلاوطن کیا گیا مگر وہ واپس آ کر عوام کی قیادت کرتی رہیں۔ بلوچ قیادت پر جھوٹے مقدمات کا اندراج بھی شاید وقتی طور پر دباؤ ڈالنے کا حربہ ہو، لیکن یہ تحریک کو ختم کرنے کے بجائے مزید تقویت دے گا۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان کے سیاسی اور عدالتی ڈھانچے میں اس روایت کو جڑ سے اکھاڑا جائے۔ سیاسی مخالفت کو مقدمات کے ذریعے ختم کرنے کے بجائے مکالمے اور جمہوری طریقے سے نمٹایا جائے۔ ایف آئی آرز کا سیاسی استعمال دراصل ریاست کی کمزوری اور خوف کی علامت ہے، طاقت کی نہیں۔ ریاست اگر واقعی مضبوط ہے تو اسے اختلافی آوازوں کو برداشت کرنے اور ان سے مکالمہ کرنے کی ہمت دکھانی چاہیے۔
پاکستان کو اب فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ اپنی تاریخ کے اسی سیاہ باب کو دہراتا رہے گا یا پھر ایک نئے باب کا آغاز کرے گا جہاں عدالتیں آزاد، سیاست شفاف اور مکالمہ حقیقی ہوگا۔ جب تک جھوٹے مقدمات کا سلسلہ جاری رہے گا، نہ صرف سیاسی کارکن بلکہ پورا معاشرہ عدم تحفظ اور بداعتمادی کی فضا میں جیتا رہے گا۔ اور یہ فضا کسی بھی ریاست کی پائیداری کے لیے زہرِ قاتل ہے۔
لہٰذا آج سب سے بڑی ضرورت اس سوچ کو چیلنج کرنا ہے جس نے جھوٹے مقدمات کو سیاسی ہتھیار بنا رکھا ہے۔ بلوچ یکجہتی کمیٹی کی قیادت کا معاملہ اس ملک کے ہر شہری کا معاملہ ہے۔ یہ لڑائی صرف چند افراد کی آزادی کی نہیں بلکہ پورے معاشرے کی جمہوری بقا کی ہے۔ اگر آج ہم ان جھوٹے مقدمات کے خلاف نہیں کھڑے ہوتے تو کل ہر اختلافی آواز اسی شکنجے میں کچل دی جائے گی۔ اور اس کے بعد باقی رہ جائے گا ایک ایسا معاشرہ جہاں سوال پوچھنا جرم ہوگا اور خاموشی سب سے بڑی سزا۔
یہ اداریہ اس حقیقت کو دہرانا چاہتا ہے کہ جھوٹے مقدمات کے اندراج سے نہ تحریکیں ختم ہوتی ہیں، نہ سچائی دبتی ہے۔ یہ صرف ریاست کی کمزوری کو عیاں کرتا ہے۔ پاکستان کے لیے وقت آ گیا ہے کہ وہ اس روایت کو ہمیشہ کے لیے دفن کر دے اور ایک ایسے معاشرے کی بنیاد ڈالے جہاں انصاف اور مکالمہ طاقت کے اوزار ہوں، جھوٹے مقدمات نہیں۔

شیئر کریں

:مزید خبریں