بلوچستان کی صوبائی کابینہ نے حالیہ اجلاس میں جو فیصلے کیے ہیں وہ نہ صرف اس صوبے کی سماجی تاریخ میں اہم سنگِ میل ہیں بلکہ یہ پورے پاکستان کے لیے ایک مثبت مثال بھی قائم کرتے ہیں۔ ٹرانس جینڈر کمیونٹی کے لیے پہلی پالیسی کی منظوری، اقلیتی برادری کے لیے اِنڈومنٹ فنڈ کا قیام، اور نفرت انگیز مواد کی اشاعت پر پابندی ایسے اقدامات ہیں جو ریاستی سطح پر شمولیت، مساوات اور ہم آہنگی کے اصولوں کو مضبوط بناتے ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ بلوچستان طویل عرصے سے پسماندگی، بداعتمادی اور شورش کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے۔ ایسے ماحول میں اگر حکومت محروم طبقات کو تسلیم کرتے ہوئے ان کے حقوق کے تحفظ کی پالیسی بناتی ہے تو یہ خوش آئند پیش رفت ہے۔ خاص طور پر ٹرانس جینڈر افراد، جنہیں معاشرے میں سب سے زیادہ امتیاز اور تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے، کے لیے صوبائی سطح پر واضح حکمتِ عملی ایک بڑی پیش رفت ہے۔ یہ پالیسی ان کی سماجی اور معاشی شمولیت کے دروازے کھول سکتی ہے، بشرطیکہ اس پر مؤثر عمل درآمد بھی کیا جائے۔
اسی طرح اقلیتی برادری کے لیے فنڈ کا قیام محض مالی سہولت کا معاملہ نہیں بلکہ یہ ان کے ساتھ ریاستی اعترافِ شراکت کا مظہر ہے۔ ایک ایسے صوبے میں جہاں اقلیتیں اکثر سماجی اور سیاسی دباؤ میں رہتی ہیں، اس طرح کا اقدام انہیں تحفظ اور اعتماد فراہم کر سکتا ہے۔ نفرت انگیز مواد پر پابندی بھی انتہائی ضروری قدم ہے کیونکہ یہی زبان اور بیانیے اکثر فرقہ وارانہ تنازعات اور پرتشدد رویوں کو ہوا دیتے ہیں۔
یہ اقدامات صرف حقوق تک محدود نہیں رہے بلکہ صحت، تعلیم اور بنیادی ڈھانچے کے شعبوں میں بھی منصوبوں کی منظوری دی گئی ہے۔ دل بندین میں جدید اسپتال کا قیام، طبی فضلے کے محفوظ انتظام کے لیے قواعد، اور نئے تحصیلوں کا قیام اس بات کا اشارہ ہے کہ حکومت ترقی کو محض بڑے شہروں تک محدود نہیں رکھنا چاہتی بلکہ سہولتوں کو پسماندہ علاقوں تک پہنچانا چاہتی ہے۔
صوبائی حکومت کی اس پالیسی کو البتہ محض بیانات اور اعلانات تک محدود نہیں رہنا چاہیے۔ پاکستان میں اکثر ترقی پسند قوانین اور پالیسیاں کاغذوں تک محدود رہتی ہیں اور عملی میدان میں ان کے اثرات نہ ہونے کے برابر دکھائی دیتے ہیں۔ بلوچستان کابینہ کے ان فیصلوں کی کامیابی اس وقت ممکن ہوگی جب ان پر شفاف اور سنجیدہ انداز میں عمل درآمد کیا جائے، سول سوسائٹی کو ساتھ شامل کیا جائے، اور ان پالیسیوں کی نگرانی کے لیے آزاد ادارہ جاتی میکانزم تشکیل دیا جائے۔
یہ اقدامات ایک ایسے صوبے کے لیے امید کی کرن ہیں جو طویل عرصے سے مسائل کا شکار رہا ہے۔ اگر بلوچستان اپنی سمت درست رکھتا ہے تو یہ نہ صرف صوبے کی ترقی کا ذریعہ ہوگا بلکہ پورے پاکستان کے لیے ایک پیغام بھی ہوگا کہ ریاست جب محروم اور پسماندہ طبقات کو تسلیم کرتی ہے تو معاشرتی ہم آہنگی اور پائیدار ترقی کا راستہ کھلتا ہے۔ یہ وقت ہے کہ باقی صوبے بھی اس مثال سے سیکھیں اور پاکستان کو ایک ایسا ملک بنانے میں اپنا کردار ادا کریں جہاں ہر شہری کو برابر کے حقوق اور عزت حاصل ہو۔
