آج کی تاریخ

پیٹرولیم مصنوعات مزید مہنگی ہونے کا امکان، ڈیزل 4 روپے 79 پیسے تک بڑھ سکتا ہے-پیٹرولیم مصنوعات مزید مہنگی ہونے کا امکان، ڈیزل 4 روپے 79 پیسے تک بڑھ سکتا ہے-مریم نواز سیلاب متاثرین کی خدمت ماں اور بہن کی طرح کر رہی ہیں، عظمیٰ بخاری-مریم نواز سیلاب متاثرین کی خدمت ماں اور بہن کی طرح کر رہی ہیں، عظمیٰ بخاری-سیلاب متاثرین کی بحالی تک چین سے نہیں بیٹھیں گے، بلاول بھٹو کا وژن اُمید کی کرن ہے، سینئر وزیر شرجیل انعام میمن-سیلاب متاثرین کی بحالی تک چین سے نہیں بیٹھیں گے، بلاول بھٹو کا وژن اُمید کی کرن ہے، سینئر وزیر شرجیل انعام میمن-سیلاب سندھ میں داخل، کندھکوٹ کے کچے علاقے زیرآب، گڈو بیراج پر پانی کا دباؤ بڑھ گیا-سیلاب سندھ میں داخل، کندھکوٹ کے کچے علاقے زیرآب، گڈو بیراج پر پانی کا دباؤ بڑھ گیا-لاہور کی سیشن عدالت کا یوٹیوبر رجب بٹ کے خلاف توہین مذہب کیس پر تحریری فیصلہ-لاہور کی سیشن عدالت کا یوٹیوبر رجب بٹ کے خلاف توہین مذہب کیس پر تحریری فیصلہ

تازہ ترین

بار اور بینچ کے درمیان لکیر

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سردار محمد سرفراز ڈوگر اور وکیل و حقوقِ انسانی کارکن ایمان مزاری کے درمیان ہونے والے حالیہ مکالمے نے ایک بار پھر عدلیہ کے وقار اور رویوں پر سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ عدالت کا کمرہ قانون کی بالادستی اور وقار کا استعارہ ہونا چاہیے، لیکن اگر وہی جگہ طاقت کے اظہار، ذاتی ریمارکس اور صنفی تعصب کا مظہر بن جائے تو یہ نہ صرف بار اور بینچ کے رشتے کو مجروح کرتا ہے بلکہ عوام کے اعتماد کو بھی ہلا دیتا ہے۔
عدالتی کارروائی کے دوران چیف جسٹس کی جانب سے ایمان مزاری کو مبینہ طور پر ’’بچہ‘‘ یا ’’بیٹی‘‘ کہہ کر مخاطب کرنا اور ان کے شوہر کو یہ کہنا کہ ’’انہیں سمجھا دیں‘‘ ایک ایسے پدرانہ رویے کی عکاسی کرتا ہے جسے وکلا برادری نے سختی سے مسترد کر دیا ہے۔ ایمان مزاری نے بجا طور پر یہ نکتہ اٹھایا کہ وہ عدالت میں ایک پیشہ ور وکیل کے طور پر موجود تھیں، نہ کہ کسی ذاتی تعلق یا سرپرستی کے رشتے کے تحت۔ وکیل اور جج کے درمیان رشتہ ہمیشہ پیشہ ورانہ احترام کا ہونا چاہیے، جس میں کسی کو سرپرستی یا پدرانہ انداز میں مخاطب کرنا محض غیر ضروری نہیں بلکہ توہین آمیز بھی ہے۔
وکلا تنظیموں کا شدید ردعمل اس امر کی گواہی ہے کہ یہ معاملہ کسی ذاتی اختلاف کا نہیں بلکہ عدالتی نظام کی سالمیت کا ہے۔ لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن، کراچی بار ایسوسی ایشن اور بلوچستان بار کونسل سب نے یک زبان ہو کر چیف جسٹس کے طرزِ عمل کی مذمت کی اور سپریم جوڈیشل کونسل سے ان کی برطرفی کا مطالبہ کیا۔ خواتین وکلا کے اجتماعی بیانات نے واضح کر دیا کہ یہ مسئلہ محض ایک فرد کا نہیں بلکہ مجموعی عدالتی ماحول میں موجود صنفی امتیاز اور عدم مساوات کی جھلک ہے۔
عدالت کے جج صاحبان کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ وہ صرف قانون کے نمائندے نہیں بلکہ معاشرے کے اخلاقی اور پیشہ ورانہ معیار کے بھی پاسبان ہیں۔ جب وہ خود ذاتیات پر اتر آئیں یا وکیل کو خوفزدہ کرنے کے لیے توہینِ عدالت کا سہارا لیں تو اس سے عدالتی وقار مجروح ہوتا ہے۔ وکیل کو اپنے مؤکل کی نمائندگی آزادی اور عزت کے ساتھ کرنے کا حق آئین اور قانون نے دیا ہے۔ اگر اس حق پر عدالت میں قدغن لگنے لگے تو انصاف کا دروازہ بند ہونے لگتا ہے۔
یہ واقعہ اس بات کی علامت ہے کہ ہماری عدلیہ کو نہ صرف قانونی اصلاحات بلکہ رویوں کی تبدیلی کی بھی سخت ضرورت ہے۔ صنفی برابری، پیشہ ورانہ وقار اور باہمی احترام وہ اصول ہیں جن پر عدالتی نظام قائم رہ سکتا ہے۔ اگر بار اور بینچ کے تعلقات میں یہ توازن ٹوٹ گیا تو عدلیہ کی ساکھ بحال کرنا مشکل ہو جائے گا۔
اب ذمہ داری سپریم جوڈیشل کونسل اور اعلیٰ عدالتی قیادت پر ہے کہ وہ اس واقعے کو محض ’’سیاق و سباق‘‘ کی بحث میں دفن نہ کریں بلکہ کھلے اور شفاف احتساب کے ذریعے یہ واضح کریں کہ کوئی بھی جج قانون سے بالاتر نہیں۔ بصورتِ دیگر عوام یہ سمجھنے پر مجبور ہو جائیں گے کہ عدالتیں انصاف کے بجائے طاقت کے مظاہرے کی جگہ بن چکی ہیں، اور یہ تاثر عدلیہ کے لیے سب سے خطرناک چوٹ ہوگی۔

شیئر کریں

:مزید خبریں