
ملتان(میاں غفارسے)ہیڈ پنجند پر سیلاب کی صورت میں پانی کے اخراج میں رکاوٹ کے حوالے سے چیف جسٹس آف پاکستان سمیت وزیراعظم، وزیراعلیٰ اور دیگر اعلیٰ حکام کو یاد دہانی کے متعدد خطوط لکھے گئے مگر کسی نے بھی توجہ نہ دی اور آج وہی ہوا جس کی نشاندہی کی گئی تھی۔ اربوں روپے کی کرپشن کرنے والے اور صوبہ بھر میں100 سال سے کامیابی کے ساتھ رواں دواں نہری اور دریائی نظام کو برباد کرنے والے باعزت ریٹائرمنٹ پا گئے اور نچلے درجے کے چند ملازمین کو سزا دے کر معاملات ٹھپ کر دیئے گئے۔ امجدسعید پراجیکٹ ڈائریکٹرپی ایم اوبیراجز ا و ر انچارج تھے۔چیف جسٹس آف پاکستان کو دی گئی درخواست کے مطابق عزت مآب چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان، السلام علیکم ورحمۃ اللہ ۔پوری قوم آپ کے ساتھ کھڑی ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو حفظ و امان میں رکھے ۔جناب چیف جسٹس صاحب پاکستان کا نہری نظام دنیا کا بہترین اور ایک بڑا نظام تھا لیکن قرضوں کے دلدادہ مافیا اور کرپٹ حکمرانوں نے اس کو بھی نہیں بخشا ۔سال 2004 میں اس کرپٹ مافیا نے پنجاب کے بیراجز اور نہری نظام کی بحالی کے نام سے ورلڈ بینک کے تعاون سے ایک پراجیکٹ شروع کیا۔ اس پراجیکٹ کو مکمل کرنے کے لیے پراجیکٹ مینجمنٹ آفس فار پنجاب بیراجز اور پراجیکٹ مینجمنٹ یونٹس پی ایم یوز بنائے گئے ان اداروں نے کنسلٹنٹس کے ساتھ مل کر تقریباً دو ارب ڈالر کے غیر ضروری اور نقصان دہ پراجیکٹس بنائے۔ اریگیشن ڈیپارٹمنٹ جس نے پورا سسٹم خود بنایا تھا کو اس سارے عمل سے دور رکھا گیا یہ پراجیکٹ سال2004سے اب تک چلتا رہا ہے۔ صرف تنخواہوں اور کنسلٹنسی کی مد میں اربوں روپے لئے جا چکے ہیں۔ عزت مآب چیف جسٹس صاحب پہلا منصوبہ تونسہ بیراج کی مرمت اور جدیدیت کے نام سے بنایا گیا تھا۔ بیراج کی ڈاؤن سٹریم تقریباً 900 فٹ کے فاصلے پر ایک سب ویر یعنی آٹھ فٹ اونچی دیوار بنا دی گئی، بیراج کے سٹنٹنگ بیسن کے ڈیزائن میں بنیادی تبدیلی کر دی گئی۔ اس پراجیکٹ پر تقریباً 1400 کروڑ قرضہ لے کر خرچ کر دیے گئے۔ سال 2010 میں دریائے سندھ میں ایک بڑا فلڈ آگیا۔ اس آٹھ فٹ اونچی دیوار نے پانی کے فلو میں رکاوٹ کھڑی کر دی اور بند کےٹوٹنے سے ضلع مظفرگڑھ تباہ و برباد ہو گیا لیکن اس باثر مافیا نے اس تباہی کی ذمہ داری بیراج کے آپریشنل سٹاف پر ڈال دی اور ذمہ داران کو بچا لیا گیا ۔سال 2012 میں محکمہ کی رپورٹ میں بھیانک انکشاف ہوا کہ بیراج کی ڈاؤن سٹریم بلاک فور ،فلٹرز اور سٹون ایپرن واش ہو گیا ہے۔ کرپٹ با اثر مافیا نے خود ہی انکوائری کر کے اس کی ذمہ داری بھی آپریشنل سٹاف پر ڈال دی اور ایکسین، ایس ڈی او وغیرہ کو سروس سے نکال دیا گیا جبکہ بعد میں محکمہ کے پانچ چیف انجینئرز نے اپنی رپورٹ میں اس تباہی کی ذمہ داری بیراج کے ڈیزائن کو بدلنا قرار دیا یعنی 1400 کروڑ قرضہ لے کر خرچ کیا اور اپنے قیمتی اثاثے کو تباہ کر دیا۔ دوسرا پراجیکٹ جناح بیراج کی بحالی اور جدیدیت تھا۔ راقم کنسلٹنٹس کی ہائیڈرالک ٹیم کا ہیڈ تھا۔ اس ٹیم نے بیراج کے ڈیزائن کو ٹھیک قرار دیا اور سب ویر یعنی دیوار بنانے کو رد کر دیا جبکہ سب ویریعنی پانچ فٹ اونچی دیوار بیراج سے تقریباً 900 فٹ کے فاصلے پر بنا دی گئی۔ اس پراجیکٹ پر تقریبا ً145 ملین خرچ کر دیئےگئے۔ جناب چیف جسٹس صاحب دریائے راوی کا پانی ایک معاہدے کے تحت انڈیا کو دیا جا چکا ہے۔ اس وقت دریا میں ایم آر لنک کنال سے پانی لیا جا رہا ہے اور لاہور کا آلودہ پانی اس دریا میں بہہ رہا ہے جبکہ بلوکی بیراج کو بڑا کرنے پر بھی تقریباً 800 کروڑ قرضہ خرچ کر دیا گیا ہے ۔دریائے ستلج کا پانی بھی انڈیا کے حصے میں چلا گیا ہے جبکہ اسلام بیراج اور سلیمانکی کو بڑا کیا جا رہا ہے اور اس پر ایک بڑا قرضہ خرچ کیا جا رہا ہے۔ عزت مآب جناب چیف جسٹس صاحب محکمہ ایریگیشن پنجاب نے سپریم کورٹ پاکستان میں پٹیشن نمبر 22 45 / 2017 دائر کی ہے جو تو نسہ بیراج کی تباہی پر ہے۔میں نے ایڈیشنل ایڈووکیٹ پنجاب کو تونسہ بیراج کی تباہی کے ریفرنس سے ایک درخواست دی تھی کہ اس کو سپریم کورٹ میں اریگیشن ڈیپارٹمنٹ کی پٹیشن کے ساتھ سنا جائے۔ میری درخواست ہے کہ سپریم کورٹ ایک بڑا بینچ بنا کر پنجاب کےبیراجوں کی تباہی اورخوامخواہ کے غیرضروری قرضوں کے معاملات کو سنے۔مجھے امید ہے کہ آپ خود اس بینچ کی سربراہی کریں گے ۔میں کچھ دستا ویزات اس درخواست کے ساتھ جمع کروا رہا ہوں( پروفیسر ڈاکٹر ذوالفقار علی)۔ اب یہی تباہ کن پراجیکٹ ہیڈ پنجندپر بھی لاگو کر دیا گیا ہے اور ہیڈ پنجند کی ڈاؤن سٹریم پر بھی اسی طرح 90 فٹ کے فاصلے پر کنکریٹ کی دیوار بنائی گئی ہے جس سے مستقبل قریب میں سیلاب آنے پر سیلابی پانی کے ہیڈ پنجند سے اخراج میں شدید رکاوٹ ہوگی اور سیلاب کا پانی واپس آئے گا جس پر جلال پور پیر والا اور دیگر علاقوں میں ناقابل کنٹرول تباہی آئے گی۔