ملتان(واثق رئوف)ریلوے میں حادثات کا سلسلہ نہ رک سکا۔ اگست کےبعد ستمبر بھی ریلوے کے لئے بھاری ثابت ہوا۔گزشتہ روز صبح سویرے دو مال بردار ٹرینوں کے درمیان حادثہ میں اسسٹنٹ ٹرین ڈرائیور جان سے گیاجبکہ کروڑوں روپے کاانجن اورویگنیں تباہ ہوگئیں۔حادثات نےلاکھوں روپے ماہانہ تنخواہیں اور مراعات وصول کرنے والےریلوے افسر شاہی کی کارکردگی پر سوالیہ نشان بھی پیدا کردئیے ہیں۔ ماضی میں قومی بچت میں حصہ شامل کرنے والا ادارہ اس نہج کو پہنچ گیا ہے کہ گزشتہ ماہ اگست کے دوران 1مال برداراور4مسافر ٹرینیں حادثات کا شکار ہوچکی ہیں۔ اگست میں ہونے والے حادثات میں ایک مسافر جاں بحق جبکہ 50کےقریب زخمی ہوئےتھے۔جبکہ اب ستمبر میں بھی گزشتہ صبح سویرے ہونے والا حادثہ ایک انسان جان کےضیائع کا باعث بن گیا ہے۔کراچی سے پشاور ڈویژن تک حادثات کے پھیلائو نے مسافروں کو خوف زدہ کرکے رکھ دیا ہے۔بتایا جاتا ہے کہ اگست کی پہلی تاریخ ہی ریلوے کےلئے اچھی ثابت نہ ہوئی۔ یکم اگست کوکالا شاہ کاکو کے مقام پر لاہور سے راولپنڈی کے لئے جانے والی اسلام آباد ایکسپریس کی5بوگیاں ریلوے ٹریک سے اتر گئیں تھیں کروڑوں روپے بوگیوں کے نقصان کے ساتھ متعدد مسافر بھی زخمی ہوگئے تھے۔8اگست بھی لاہور ڈویژن پر بھاری ثابت ہوا فیصل آباد اسٹیشن پر مال بردار ٹرین حادثہ کا شکار ہوگئی متعدد بوگیاں ریلوے ٹریک سے اتر گئیں۔مذکورہ حادثہ کے صرف دو روز بعد ہی10اگست کو پشاور سے کراچی جانے والی عوام ایکسپریس کی دو بوگیاں خانپور ریلوے اسٹیشن پر ریلوے ٹریک سے اتر گئیں۔ اگلے ہی روز 11اگست کولاہور سے ملتان کے لئے آنے والی موسی پاک کا انجن اور دو بوگیاں رائے ونڈ ریلوے اسٹیشن پر ریلوے ٹریک سے اتر گئیں جبکہ17اگست لودھراں میں پشاور سے کراچی کے لئے جانے والی عوام ایکسپریس حادثہ کا شکار ہوئی5بوگیاں ریلوے ٹریک سے اترنے کے بعد الٹ گئیں ایک مسافر جاں بحق جبکہ28کےقریب زخمی ہوگئے۔29اگست کو بھریا روڈ اور پدعیدن ریلوے اسٹیشنوں کے درمیان مال بردار ٹرین کی5ویگنیں ریلوے ٹریک سے اتر گئیں تھیں جس سے اپ اور ڈائون سائیڈ ریلوے ٹریک بلاک ہوگیا تھا ٹریک اورمال بردار ویگینوں کو نقصان جبکہ مسافر ٹرینوں کو تاخیر کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ستمبر کے ابتدائی10روز بخیرت گزرنے کے بعد گزشتہ روز صبح سویرے حبیب آباد اور رینالہ خورد سٹیشنوں کے درمیان مغل پورہ کنٹینر دو حصوں میں تقسیم ہوگئی۔ پیچھے رہ جانے والے حصہ سے بعد میں آنے والی مال گاڑی جیہ بگا کنٹینر آٹکرائی جس سے جیہ بگا کنٹینر کا اسسٹنٹ ڈرائیور جاں بحق اور ڈرائیور شدید زخمی ہوگیا۔ریلوے ذرائع کا کہنا ہے کہ ریلوے میں اس وقت ایئر کنڈیشن باتھ رومز، بلڈنگز،الیکٹرک سیڑھیاں بنانے پر تو توجہ دی جارہی ہے جبکہ آپریشنل انفراسٹرکچر ریلوے،ٹریکس،بوگیوں،سگنل سسٹم انجنوں پر توجہ نہیں دی جارہی۔ ڈویژنل افسران میں اخلاقی جرت نہیں کہ ریلوے کے اعلیٰ افسران کے سامنے،ریلوے سٹاف کی سیفٹی تربیت اور کورسز کے فقدان انفراسٹرکچر،ریلوے انجنوں،بوگیوں کی موجودہ صورتحال پر کھل کر اظہار خیال کر سکیں جس کی وجہ سے حادثات میں دن بہ دن مزید اضافہ ہورہاہے۔جس میں انسانی جانوں کے ضائع سمیت کروڑوں روپے کے انجن بوگیاں اور انفراسٹرکچر بھی تباہ ہورہا ہے۔افسران ماہانہ لاکھوں روپےتنخواہ اور مراعات کی مد میں وصول تو کر رہے ہیں مگر اپنی ذمہ داریوں سے چشم پوشی اختیار کئے ہوئے ہیں یہی وجہ ہے کہ گزشتہ چند ماہ سے حادثات کی شرح میں غیر معمولی اضافہ ہوگیا ہے جبکہ ماہ اگست کےبعد سےاب تک صورتحال انتہائی خطرناک ہوگئی ہے۔اس صورتحال پر ریلوے مسافروں ریلوے ملازمین نے تشویش کا اظہار کیا ہے ان کا کہنا ہے کہ 1980ء سے قبل یہی پاکستان ریلوے تھا جس سے حاصل آمدن قومی بچت کا حصہ بنتی تھی انہوں نے وفاقی حکومت اور دیگر ذمہ داران سے مطالبہ کیا ہے کہ فوری طور پر ریلوے کے آپریشنل انفراسٹرکچر پر توجہ دے کر اس سے اپ گریڈ کیا جائے تاکہ حادثات کا تدارک ہو سکے اور دوبارہ سے مسافروں کا اعتماد حاصل کیا جاسکے۔
