بہاولپور (تحقیقاتی رپورٹ) اوچ شریف پولیس نے بااثر کاروباری افراد خواجہ مرید حسین اور اس کے داماد کو غریب خاندان کی قیمتی کمرشل اراضی پر قبضہ دلوانے کی خاطر نہم جماعت کی طالبہ اور اس کے پورے خاندان کے مرد و خواتین پر دہشت گردی کا فرضی وقوعہ بنا کر مقدمہ درج کیا۔ خصوصی عدالت سے گرفتار خواتین کی ضمانت کے بعد متاثرہ محمد شفیق کا خاندان اور پولیس آمنے سامنے ہیں۔اس وقت بااثر قبضہ مافیا خواجہ مرید حسین اور اس کا داماد خواجہ نثارجو کہ پہلے بھی اسی خاندان پر اسی زمین کے سلسلے میں کئی مقدمات کروا چکے ہیں جن کے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ وہ دوبارہ اس قیمتی کمرشل اراضی پر قبضے کے لیے سرگرم ہو گئے ہیں۔ ان کی جانب سے کروائے گئے سابقہ مقدمات میں زیادہ تر مدعی خواجہ مرید حسین کے ملازمین اور منیجر وغیرہ تھے جن میں سے متاثرہ خاندان عدالتوں سے باعزت بری ہو چکا ہے۔ ان مقدمات میں ناکامی کے بعد بااثر افراد نے ایک نئی چال چلی اور پولیس میں شامل اپنے ایک مہرے کو استعمال کرتے ہوئے اس خاندان پر سنگین نوعیت کا دہشت گردی کا مقدمہ درج کروا دیا۔ اب پولیس اور متاثرہ محمد شفیق کا خاندان ایک دوسرے کے خلاف عدالتوں اور پولیس کے اعلیٰ افسران کے پاس پیشیاں بھگت رہے ہیںجبکہ بااثر قبضہ مافیا قیمتی کمرشل اراضی پر دوبارہ قبضہ کرنے کی منصوبہ بندیوں میں مصروف ہے۔روزنامہ قوم کو دستیاب ریکارڈ کے مطابق:مقدمہ نمبر 358/24 تھانہ اوچشریف کا مدعی غلام یاسین ولد احمد یار ہے، جو کہ خواجہ مرید حسین کی دکان تعمیر کر رہا تھا اور اسی کا ملازم تھا۔مقدمہ نمبر 387/23 کا مدعی عبدالحمید ولد محمد صدیق سکنہ علی پور ہے، جو خواجہ مرید حسین کی زمین پر بطور منیجر کام کرتا تھا۔مقدمہ نمبر 765/23 کا مدعی غلام مرتضیٰ ولد محمد اشرف ہے، جو خواجہ مرید حسین کے پٹرول پمپ کا منیجر ہے۔مقدمہ نمبر 492/19 کا مدعی محمد طارق ولد منظور احمد ہے، جو خواجہ نثار (داماد خواجہ مرید حسین) کی زمینوں کی دیکھ بھال کا کام کرتا تھا۔یہ چاروں مقدمات خواجہ مرید حسین کے ملازمین کی مدعیت میں درج ہوئے تھے جن سے متاثرہ خاندان بری ہو گیا۔ اس کے بعد بااثر افراد نے پولیس میں اپنے ایک خاص مورچے کو استعمال کرتے ہوئے سنگین دہشت گردی کا مقدمہ درج کروا دیا اور پولیس و متاثرہ خاندان کو آپس میں الجھا دیا۔ اب یہ مافیا اس قیمتی کمرشل رقبے پر قبضہ کرنے کی مکمل منصوبہ بندی میں مصروف ہے۔گزشتہ روز ڈی ایس پی یزمان کے پاس محمد شفیق انکوائری کے لیے پیش ہوئے اور اپنا تمام تر ریکارڈ انکوائری افسر کو پیش کیا۔ پولیس ذرائع کے مطابق 11 ستمبر کو دہشت گردی کے مقدمے میں عبوری ضمانتوں کی پیشی سے قبل اس مقدمے سے دہشت گردی کی دفعات حذف کرنے کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔مگر حیران کن امر یہ ہے کہ پولیس کی ایف آئی آر میں ون فائیو کی کال پر پہنچنے کا دعویٰ، کانسٹیبل محمد شاہد کو محمد شفیق کی جانب سے جان سے مارنے کی خاطر ڈنڈا مارنے کا الزام جھوٹا ثابت ہونے اور قبضے کے معاملے میں آئی جی پنجاب کی ایس او پیز کے برخلاف جانے کے باوجود تاحال متعلقہ ایس ایچ او اور فرضی وقوعہ کے مدعی نذیر احمد کے خلاف کسی قسم کی کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ یہ پولیس افسران کے طاقتور ہونے کی واضح اور کھلی دلیل ہے۔
