سپریم کورٹ کے جج جسٹس اطہر من اللہ کے حالیہ ریمارکس پر اختلاف کرنا آسان نہیں۔ انہوں نے کھلے الفاظ میں کہا کہ پاکستان میں رائج ہائبرڈ نظام — جس میں غیر منتخب قوتیں براہِ راست شہری معاملات میں مداخلت کرتی ہیں — دراصل آمریت کا دوسرا نام ہے۔ یہ بات نہ صرف ہمارے سیاسی تجربے کا نچوڑ ہے بلکہ ملکی تاریخ کے کئی سیاہ ابواب اس کی تصدیق کرتے ہیں۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کراچی میں گفتگو کرتے ہوئے جرأت مندی کے ساتھ عدلیہ کے کردار کا بھی جائزہ پیش کیا اور اعتراف کیا کہ ملک کی ۷۷ سالہ عدالتی تاریخ فخر کے بجائے ندامت کا باعث ہے۔ مولوی تمیزالدین کیس سے لے کر ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل تک اور جنرل پرویز مشرف کی آئین شکنی تک، اہم موڑ پر عدالتوں نے قانون کی بالادستی کے بجائے آمرانہ قوتوں کا ساتھ دیا۔ ان کے بقول یہی وہ فیصلے تھے جنہوں نے جمہوری ڈھانچے کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا۔ تاہم انہوں نے ان ججوں کو خراجِ تحسین بھی پیش کیا جنہوں نے آمروں کے سامنے سر جھکانے سے انکار کیا اور اپنی آزادی پر قائم رہے۔
پاکستان میں مختلف ادوار میں ہائبرڈ نظام کے تجربے اداروں کو کمزور کرنے اور پارلیمان و عدلیہ کی ساکھ کو متنازع بنانے کا باعث بنے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ ان تجربات کے اصل نگران اور سرپرست کبھی جواب دہ نہیں ٹھہرائے گئے۔ غلطیوں کی قیمت ہمیشہ سیاسی قوتوں اور منتخب نمائندوں کو چکانی پڑی جبکہ غیر منتخب مراکزِ اختیار خود کو بری الذمہ قرار دیتے رہے۔ اس کے برعکس، جمہوری معاشروں میں منتخب رہنما براہِ راست عوام کے سامنے جواب دہ ہوتے ہیں اور اقتدار کی تبدیلی ووٹ کے ذریعے یقینی بنائی جاتی ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے بالکل درست کہا کہ آئین کی پابندی ہی اصل راستہ ہے۔ لیکن کاغذ پر سادہ دکھائی دینے والا یہ حل عمل میں لانا سب سے مشکل کام ہے۔ پاکستان کو اس وقت نہ صرف معاشی و سیاسی بحران کا سامنا ہے بلکہ داخلی سلامتی کے سنگین خطرات بھی منڈلا رہے ہیں۔ خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں مسلح بغاوتیں موجود ہیں، مشرقی سرحد پر بھارت کی جارحانہ حکمتِ عملی اور مغربی سرحد پر کابل کی غیر مستحکم حکومت ہمارے لیے ہمہ وقت چیلنج ہے۔ ایسے حالات میں عسکری اداروں کی اصل ذمہ داری دفاعِ وطن تک محدود ہونی چاہیے، نہ کہ سیاسی انجینئرنگ یا حکومت سازی کے کھیل میں مداخلت۔
تاریخ نے ہمیں کئی بار یہ سبق دیا ہے کہ براہِ راست فوجی حکومت ہو یا ہائبرڈ نظام، دونوں نے آئینی ڈھانچے پر گہرے زخم چھوڑے ہیں۔ آئین سے انحراف نے نہ صرف اداروں کو ٹکراؤ کی راہ پر ڈالا بلکہ عوام کے اعتماد کو بھی مجروح کیا۔ ہر بار جب غیر منتخب قوتوں نے اپنے دائرہ کار سے تجاوز کیا، ریاستی استحکام مزید کمزور ہوا۔
