آج کی تاریخ

کاروائی بے اثر، آن لائن جوا مافیا مضبوط، جنوبی پنجاب کے مختلف شہروں میں نیٹ ورک-کاروائی بے اثر، آن لائن جوا مافیا مضبوط، جنوبی پنجاب کے مختلف شہروں میں نیٹ ورک-ڈاکٹر بھابھہ کے کلاس فیلو پولیس افسر کی مداخلت، ڈاکٹر شازیہ کی آئی جی کو تفتیش تبدیلی درخواست-ڈاکٹر بھابھہ کے کلاس فیلو پولیس افسر کی مداخلت، ڈاکٹر شازیہ کی آئی جی کو تفتیش تبدیلی درخواست-بدکاری پر سہولتکاری کا پردہ، ڈاکٹر رمضان کا استعفیٰ ذاتی وجوہات قرار دیکر منظور، انکوائری ٹھپ-بدکاری پر سہولتکاری کا پردہ، ڈاکٹر رمضان کا استعفیٰ ذاتی وجوہات قرار دیکر منظور، انکوائری ٹھپ-میرا قائد عمران خان فوجی آپریشن کیخلاف تھا، ہم بھی اس کے خلاف ہیں،نو منتخب وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا محمد سہیل آفریدی-میرا قائد عمران خان فوجی آپریشن کیخلاف تھا، ہم بھی اس کے خلاف ہیں،نو منتخب وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا محمد سہیل آفریدی-ایران کا غزہ امن کانفرنس میں شرکت سے انکار، "اپنے عوام پر حملہ کرنے والوں کے ساتھ نہیں بیٹھ سکتے"، ایرانی وزیرِ خارجہ-ایران کا غزہ امن کانفرنس میں شرکت سے انکار، "اپنے عوام پر حملہ کرنے والوں کے ساتھ نہیں بیٹھ سکتے"، ایرانی وزیرِ خارجہ

تازہ ترین

اداروں کی غفلت، عوام کی آزمائش

پاکستان میں مون سون کا موسم ہر سال لاکھوں افراد کے لیے خوف اور تباہی کا پیغام لے کر آتا ہے، اور بدقسمتی سے 2025 کا سال بھی اس سے مختلف نہیں رہا۔ جنوبی پنجاب ایک بار پھر شدید سیلاب کی لپیٹ میں ہے، اور اس بحران نے نہ صرف قدرتی آفات کے حوالے سے ہماری تیاری کی قلعی کھول دی ہے بلکہ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی- این ڈی ایم اے اور مقامی سطح کی ضلعی و تحصیل انتظامیہ کی سنگین غفلت کو بھی بے نقاب کر دیا ہے۔ جہاں ایک طرف دریاؤں میں پانی کی سطح غیر معمولی حد تک بلند ہو چکی ہے، وہیں دوسری جانب انسانی جانوں کے تحفظ اور متاثرہ آبادی کو بروقت ریلیف فراہم کرنے کا نظام مکمل طور پر ناکام دکھائی دیتا ہے۔ چنیوٹ، گنڈا سنگھ والا، سِدھنائی، بلوکی اور پنجند جیسے مقامات پر پانی کا بہاؤ لاکھوں کیوسک سے تجاوز کر چکا ہے، مگر ان مقامات کے آس پاس بسنے والے ہزاروں شہری امداد کے منتظر نظر آ رہے ہیں۔
دریائے چناب پر چنیوٹ ہیڈورکس پر پانی کا بہاؤ 5 لاکھ 39 ہزار کیوسک سے تجاوز کر چکا ہے، جو کہ بہت بلند سیلاب کے زمرے میں آتا ہے۔ اسی طرح دریائے ستلج پر گنڈا سنگھ والا میں 3 لاکھ 11 ہزار کیوسک پانی مسلسل بہہ رہا ہے، جسے فلڈ فورکاسٹنگ ڈویژن نے “غیر معمولی بلند سیلاب” قرار دیا ہے۔ دریائے راوی کے دو اہم ہیڈورکس، بلوکی اور سِدھنائی، پر بھی صورتحال تشویشناک ہے۔ سِدھنائی پر اگرچہ پانی کا اخراج کم ہو رہا ہے، مگر یہ اب بھی “بہت بلند سیلاب” کی حد میں ہے۔ ان سب کے علاوہ، پنجند ہیڈورکس، جہاں دریائے چناب اور ستلج کا پانی آپس میں ملتا ہے، وہاں بھی اخراج 3 لاکھ کیوسک سے تجاوز کر چکا ہے، جو اس پورے خطے میں ممکنہ تباہی کا پیش خیمہ ہے۔ یہ تمام ڈیٹا نہ صرف خطرناک سیلابی کیفیت کی عکاسی کرتا ہے بلکہ متاثرہ آبادیوں کے لیے مسلسل بڑھتے ہوئے خطرے کی بھی علامت ہے۔
دوسری طرف، وفاقی حکومت کی جانب سے- این ڈی ایم اے کو 1.3 ارب روپے کا فنڈ جاری کیا گیا ہے، جس کا مقصد ملک بھر میں جاری سیلابی صورتحال سے نمٹنا اور بروقت امداد فراہم کرنا ہے۔- این ڈی ایم اے کی جانب سے ایک موبائل ایپ اور سیلابی الرٹس کا نظام متعارف کرایا گیا ہے، جس کی پیش گوئیاں 92 فیصد درست قرار دی جا رہی ہیں۔ مگر المیہ یہ ہے کہ ان تکنیکی اقدامات کا زمینی حقیقت سے بہت کم تعلق دکھائی دیتا ہے۔ دیہی اور پسماندہ علاقوں میں، جہاں سب سے زیادہ متاثرین موجود ہیں، وہاں اس قسم کی ٹیکنالوجی تک رسائی محدود ہے۔ نہ تو ان ایپس کے بارے میں شعور پیدا کیا گیا ہے، نہ ہی ان کے استعمال کے لیے مقامی لوگوں کو تربیت دی گئی ہے۔ نتیجتاً- این ڈی ایم اے کے اقدامات عوام تک پہنچنے سے قاصر ہیں۔
یہاں یہ بھی سوال پیدا ہوتا ہے کہ حکومت پاکستان کب این ڈی ایم اے کے انتظامی اور مالیاتی معاملات میں ادارہ جاتی کمزوریوں اور کنٹرول کی کمی کے خاتمے کی طرف قدم بڑھائے گی ۔ ہمیں حدشہ ہے کہ جس طرح مالیاتی سال 2024-25 کے آڈٹ میں بڑے پیمانے پر مالیاتی بے ضابظکی ، زآئد ادائیگیوں، بوگس اور فراڈ اخراجات کا انکشاف ہوا اور اب تک اس پر کوئی ایکشن نہیں لیا گیا ، ایسے ہی اگر این ڈی ایم اے اور مقامی ضلعی و تحصیل ایدمنسٹریشنوں کو دیے کئے پیسے کے خرچ پر نظر نہ رکھی گئی تو یہ امدادی رقم بھی اسی طرح کی خرابیوں کا شکار ہوگی۔
سب سے افسوسناک پہلو مقامی انتظامیہ کی کارکردگی ہے، جو کہ اس بحران کے دوران مکمل طور پر غائب رہی ہے۔ جنوبی پنجاب کے علاقے خیرپور ٹامیوالی کی تحصیل میں واقع گوٹھ محمد شاہ سیلاب سے بدترین متاثر ہوا، جہاں پورا گاؤں تین دن سے پانی میں ڈوبا ہوا تھا۔ مقامی افراد نے شکایت کی کہ تین دنوں سے نہ کوئی حکومتی نمائندہ آیا، نہ کوئی امدادی ٹیم پہنچی، اور نہ ہی کسی نے ان کی خبر لی۔
جب ایڈیشنل چیف سیکرٹری جنوبی پنجاب، فواد ہاشم ربانی نے علاقے کا دورہ کیا تو انہیں خود اس افسوسناک صورتحال کا مشاہدہ ہوا۔ انہوں نے موقع پر ہی تحصیل کے اسسٹنٹ کمشنر شاہد اقبال کو طلب کیا اور شدید برہمی کا اظہار کیا کہ تین دن گزرنے کے باوجود انتظامیہ کی طرف سے کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا گیا۔ انسانی جانوں کے تحفظ کو اولین ترجیح قرار دیتے ہوئے فوری ریسکیو اور ریلیف کے احکامات دیے گئے، مگر یہ احکامات اس وقت آئے جب عوام کئی دنوں سے پانی میں محصور اور امداد سے محروم تھے۔
یہ واقعہ صرف ایک گاؤں کا نہیں بلکہ پورے جنوبی پنجاب میں انتظامی ناکامی کی علامت بن چکا ہے۔ مقامی حکومتوں، خاص طور پر ضلعی اور تحصیل سطح کی انتظامیہ، کا کردار قدرتی آفات سے نمٹنے میں بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ سسٹم کے تین درجے ہوتے ہیں: ضلعی سطح پر ڈسٹرکٹ ڈیزاسٹر مینجمنٹ، صوبائی سطح پر پی ڈی ایم اے ، اور وفاقی سطح پر- این ڈی ایم اے ۔ مگر عملی طور پر نہ تو مقامی سطح کی انتظامیہ کو بااختیار بنایا گیا ہے اور نہ ہی- این ڈی ایم اے اور مقامی اداروں کے درمیان کوئی مؤثر رابطہ نظر آتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وفاقی سطح پر جاری کردہ فنڈز، ٹیکنالوجی اور پالیسیز زمینی سطح پر لاگو نہیں ہو پاتیں، اور عوام ریلیف کے لیے خود کو تنہا محسوس کرتے ہیں۔
قومی اسمبلی میں جاری سیلاب پر بحث کے دوران وزیر صحت مصطفیٰ کمال نے واضح طور پر کہا کہ مقامی حکومتوں کو مضبوط بنانا ہوگا تاکہ ایسی قدرتی آفات سے مؤثر انداز میں نمٹا جا سکے۔ انہوں نے ڈیموں کی تعمیر کی ضرورت پر بھی زور دیا تاکہ پانی ذخیرہ کیا جا سکے اور سیلاب کے خطرے کو کم کیا جا سکے۔ مولانا عبدالغفور حیدری نے بروقت ریلیف کی فراہمی کو ترجیح قرار دیتے ہوئے کہا کہ متاثرین کو تنہا چھوڑ دینا ظلم ہے۔ ان دونوں رہنماؤں کی باتوں سے یہ واضح ہوتا ہے کہ پارلیمانی سطح پر بھی اس بحران کی شدت کا ادراک موجود ہے، مگر اصل مسئلہ اس ادراک کو عملی جامہ پہنانے میں ہے۔
پانی کی شدت، متاثرین کی بے بسی، اور اداروں کی غفلت ایک ساتھ جمع ہو جائیں تو انسانی المیہ جنم لیتا ہے۔ جنوبی پنجاب میں یہی المیہ روز بروز سنگین ہوتا جا رہا ہے۔ متاثرہ افراد نہ صرف اپنے گھروں اور مال مویشیوں سے محروم ہو چکے ہیں، بلکہ وہ اپنی زندگیوں کی حفاظت کے لیے بھی مکمل طور پر حکومت کی مدد کے منتظر ہیں۔ اگر بروقت اقدامات نہ کیے گئے تو یہ بحران صحت عامہ، خوراک، پینے کے پانی اور انفراسٹرکچر کے مزید بگاڑ کی صورت میں سامنے آ سکتا ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ نیشنل ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی کو ضلعی سطح پر نہ صرف وسائل فراہم کیے جائیں بلکہ مقامی انتظامیہ کو اس کے ساتھ مضبوط ربط میں لایا جائے۔ مقامی حکومتوں کو فیلڈ میں فعال بنانے کے لیے ہنگامی تربیتی پروگرام، فوری فنڈز کی دستیابی، اور سخت نگرانی کا نظام قائم کیا جائے تاکہ اس طرح کی غفلت دہرائی نہ جا سکے۔ ساتھ ہی ساتھ، عوام میں بھی اس حوالے سے شعور بیدار کیا جائے تاکہ وہ خود بھی بروقت حفاظتی اقدامات کر سکیں۔
موجودہ سیلاب نے ہمیں ایک اور موقع دیا ہے کہ ہم اپنے نظام میں موجود خامیوں کو پہچانیں، انہیں دور کریں، اور قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے ایک مؤثر اور فعال نظام قائم کریں۔ اگر اب بھی ہم نے سنجیدہ اقدامات نہ کیے تو آنے والے برسوں میں جنوبی پنجاب جیسے علاقے بار بار تباہی کا شکار ہوتے رہیں گے، اور ریاست اپنی ذمہ داریاں نبھانے میں مسلسل ناکام رہے گی۔ ایک خودمختار، بااختیار، اور مربوط مقامی نظام ہی وہ بنیاد فراہم کر سکتا ہے جس پر ایک مؤثر قومی ڈیزاسٹر مینجمنٹ کا ڈھانچہ قائم ہو سکتا ہے۔ بصورت دیگر، ہر سال کے سیلاب ہمیں یہی سبق دیتا رہے گا کہ ہماری کمزوریاں عوام کی آزمائش بن کر ان کے دروازے پر دستک دیتی رہیں گی۔
ہم سنجیدگی سے تجزیہ کریں تو یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ قدرتی آفات کے سامنے ہماری بے بسی کا اصل سبب صرف وسائل کی کمی نہیں بلکہ حکمرانی کے نظام میں موجود غیر فعالیت، عدم شفافیت، اور نچلی سطح پر فیصلہ سازی کی کمزوری ہے۔ جنوبی پنجاب کے موجودہ حالات اس کا آئینہ ہیں۔ جہاں ضلعی اور تحصیل سطح پر نہ تو کوئی مؤثر ایمرجنسی پلان پہلے سے موجود تھا، نہ ہی کسی قسم کی پیشگی تیاری کی گئی تھی۔ سیلاب جیسے خطرے سے نمٹنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات اسی وقت کامیاب ہو سکتے ہیں جب مقامی حکومتیں متحرک ہوں، ان کے پاس وسائل، تربیت یافتہ عملہ، اور فیصلہ سازی کی خود مختاری ہو۔ مگر جب تمام فیصلے مرکز یا صوبائی سطح پر ہوتے ہیں اور مقامی ادارے محض “احکامات کے منتظر” بنے رہتے ہیں، تو نتیجہ وہی نکلتا ہے جو ہم آج جنوبی پنجاب میں دیکھ رہے ہیں۔
مزید افسوسناک پہلو یہ ہے کہ قدرتی آفات کے دوران پیدا ہونے والے بحران کا سب سے بڑا بوجھ ہمیشہ کمزور اور غریب طبقے پر پڑتا ہے۔ جو لوگ پہلے ہی غربت، بے روزگاری اور محدود سہولیات کا شکار ہوتے ہیں، وہی سب سے پہلے اور سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ ان کا روزگار، ان کا گھر، ان کی فصلیں، ان کے جانور، سب کچھ پانی میں بہہ جاتا ہے۔ ریاست کی جانب سے وقتی ریلیف، چند خیمے یا راشن کی بوریاں ان کے نقصانات کا ازالہ نہیں کر سکتیں۔ اصل حل ایک جامع اور مؤثر نظام ہے، جو نہ صرف فوری ریلیف دے بلکہ بحالی اور تحفظ کے اقدامات کو بھی طویل مدتی بنیادوں پر نافذ کرے۔
این ڈی ایم اے اور پی ڈی ایم اے جیسے ادارے اس وقت تک مؤثر نہیں بن سکتے جب تک ان کا دائرہ اختیار اور عملداری مقامی سطح تک نہ ہو۔ صرف اسلام آباد یا لاہور میں بیٹھ کر الرٹس جاری کرنا کافی نہیں۔ ان اداروں کو ضلعی ہیڈکوارٹرز میں مستقل دفاتر، فیلڈ اسٹاف، اور مقامی حکومتوں سے براہِ راست ربط رکھنے والے کوآرڈینیشن سیل قائم کرنے ہوں گے۔ ٹیکنالوجی، جیسے کہ ایپس اور سیٹلائٹ ڈیٹا، صرف تب مفید ہے جب اس سے حاصل شدہ معلومات متاثرہ کمیونٹیز تک وقت پر پہنچیں اور ان کی زبان و فہم کے مطابق ہوں۔ اگر کسی دیہی علاقے کے رہائشی کو موبائل ایپ میں آنے والے فلڈ الرٹ کا مطلب ہی نہ سمجھ آئے، تو وہ الرٹ اس کے لیے بے معنی ہے۔
اسی طرح مقامی نمائندوں، جیسے تحصیل چیئرمین، کونسلرز، اور ویلج لیول پر موجود نمائندوں کو بھی اس نظام کا فعال حصہ بنانا ہوگا۔ ان افراد کو بہتر تربیت، ذمہ داری، اور اختیار دے کر متاثرہ علاقوں میں فوری رسپانس کا نظام تشکیل دیا جا سکتا ہے۔ ان کی مدد سے نہ صرف سیلاب سے پہلے لوگوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا جا سکتا ہے، بلکہ بعد از سیلاب ریکوری اور بحالی کے عمل کو بھی بہتر بنایا جا سکتا ہے۔
آج ہمیں قومی سطح پر یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ ہر سال آنے والے سیلاب اور ان کے نتیجے میں ہونے والی تباہی، اب صرف قدرتی آفات نہیں رہیں بلکہ وہ انسانی نااہلی، انتظامی کوتاہی، اور پالیسی ناکامیوں کی عکاسی بن چکی ہیں۔ جس ملک میں ہر سال مون سون آتا ہے، جہاں دریا بار بار بپھرتے ہیں، جہاں نشیبی علاقے سیلاب کی زد میں آتے ہیں، وہاں “اچانک آفت” کا جواز محض ایک بہانہ ہے۔ یہ صورتحال اب ہنگامی نہیں بلکہ ایک مستقل خطرہ بن چکی ہے، اور اس کا حل بھی مستقل، دیرپا اور جامع ہونا چاہیے۔
اب وقت آ گیا ہے کہ ہم سیلاب کو صرف “قدرت کی مار” کہہ کر اس کی شدت کو نظر انداز کرنا بند کریں۔ ہمیں ان وجوہات پر غور کرنا ہوگا جو ہر سال ان سیلابوں کو زیادہ مہلک بناتی ہیں — جیسے دریاؤں کی صفائی نہ ہونا، قدرتی نکاسی نظام کی تباہی، شہری علاقوں میں غیر منصوبہ بند تعمیرات، اور ماحولیات سے جڑی ناقص پالیسیاں۔ جنوبی پنجاب کی موجودہ صورتحال ان تمام پہلوؤں کا ایک خوفناک مجموعہ بن چکی ہے۔
مزید یہ کہ، میڈیا، سول سوسائٹی، اور تعلیمی اداروں کو بھی اس حوالے سے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ میڈیا کو چاہیے کہ وہ متاثرہ علاقوں کی حالتِ زار کو صرف وقتی بریکنگ نیوز تک محدود نہ رکھے، بلکہ اس پر مسلسل فالو اپ رپورٹس، پالیسی تنقید، اور حل پر مبنی مباحثے کو فروغ دے۔ تعلیمی ادارے تحقیق، تربیت اور مقامی سطح پر شعور اجاگر کرنے میں اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں، خاص طور پر نوجوانوں کو رضاکارانہ خدمات میں شامل کر کے۔حکومت کو یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ امداد صرف وقتی ریلیف تک محدود نہ رہے بلکہ وہ متاثرہ علاقوں کی بحالی، تعمیرِ نو، اور متاثرین کی سماجی و معاشی بحالی تک محیط ہو۔ اس کے لیے شفاف فنڈنگ، مؤثر نگرانی، اور متاثرین کو فیصلہ سازی میں شامل کرنا ضروری ہے۔ ریلیف کی تقسیم میں انصاف، بحالی کے عمل میں شفافیت، اور بحالی کے بعد مستقبل میں ایسے حالات سے بچاؤ کے لیے پالیسی سازی، ان سب کی اشد ضرورت ہے۔
جنوبی پنجاب اس وقت ایک کٹھن امتحان سے گزر رہا ہے۔ مگر اس امتحان میں ناکامی صرف وہاں کے باسیوں کی نہیں بلکہ پوری ریاستی مشینری کی ہے۔ اب وقت ہے کہ ہم صرف ردِ عمل کی پالیسی سے آگے بڑھیں، اور قدرتی آفات سے بچاؤ کو قومی ترجیح بنائیں۔ اگر ہم اب بھی نہ جاگے، تو آئندہ مون سون ایک نئی تباہی، نئی لاشیں، اور نئے آنسو لے کر آئے گا — اور ہم ایک بار پھر وہی سوال کریں گے: ریاست کہاں تھی؟ ادارے کہاں تھے؟ اور پھر جواب میں صرف خاموشی ہو گی، وہی خاموشی جو آج جنوبی پنجاب کے ڈوبتے دیہاتوں پر چھائی ہوئی ہے۔

شیئر کریں

:مزید خبریں