وہ جو بولتے تھے، اب چھپے بیٹھے ہیں۔ اور جو کبھی ان کے وعدوں کے گواہ تھے، وہ اب یا تو خاموش ہیں، یا خود اپنی زبان سے مکر چکے ہیں۔ افغانوں کی حالیہ بے دخلی، اور ان کے بعد جرمنی کا ردعمل — محض سفارتی فیصلے نہیں — یہ اس تحریر کا تسلسل ہیں جس میں الفاظ نے اپنا مطلب بدل لیا ہے، وعدوں نے اپنی شکل کھو دی ہے، اور انسان، ایک بار پھر، ان زبانی تشکیلوں کا بوجھ اٹھا رہا ہے جنہیں کبھی تحفظ، امید اور نجات کے نام پر لکھا گیا تھا۔کابل کے سقوط کے بعد جب مغرب نے تیزی سے اپنے وعدوں کا لباس پہنا، تب بے شمار افغان، جنہوں نے انہی طاقتوں کے ساتھ مل کر اپنے ملک میں شراکت کی تھی، جان بچانے کو نکل پڑے۔ ان کے لیے بارڈر محض جغرافیائی لکیر نہیں تھی، بلکہ ایک امید تھی کہ شاید اُن الفاظ کی بازگشت، جن میں ان کے لیے محفوظ مستقبل کا وعدہ کیا گیا تھا، سنی جائے گی۔ پاکستان ان کے لیے عبوری پناہ بن گیا، لیکن وقت نے ثابت کیا کہ “عبوری” ایک لامتناہی انتظار کا دوسرا نام بھی ہو سکتا ہے۔اب جب پاکستان نے ہزاروں غیر دستاویزی افغانوں کو ملک بدر کرنا شروع کیا ہے، تو ان افراد کے لیے وہی سرزمین دوبارہ ٹھکانا بن گئی ہے جس سے وہ جان بچا کر نکلے تھے۔ اور اس بار ان کے ہاتھ میں نہ کوئی وعدہ ہے، نہ کوئی ویزا، نہ کوئی پناہ کی دستاویز — بس وہی سوال ہے جو بار بار دھرا جا رہا ہے: کیا کسی کا وعدہ اس کی زندگی کی ضمانت ہو سکتا ہے؟جرمنی کا یہ اعلان کہ وہ ان افغانوں کے کیسز پر نظرثانی کرے گا جو پاکستان سے نکالے گئے ہیں، ایک خوش آئند اقدام ہے۔ لیکن یہ خوشی بھی اُس دیر سے آنے والے خط کی مانند ہے جسے وقت نے تقریباً بے اثر کر دیا ہو۔ پھر بھی، اس خط کی موجودگی اُن خالی لفافوں سے بہتر ہے جنہیں کئی اور ممالک نے بھیجا، جن پر پتے تو تھے، مگر اندر کوئی تحریر نہیں تھی۔یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ان طاقتوں کی مدد کی جنہوں نے افغانستان کو “جمہوریت” سکھانے کی قسم کھائی تھی۔ ان کے ہاتھ میں بندوق نہیں تھی، لیکن قلم، انصاف، صحافت، اور انسانی حقوق کی مشعل ضرور تھی۔ وہ ترجمان تھے ایک ایسے خواب کے جس میں افغان عورت کلاس روم میں موجود ہوتی، وکیل عدالت میں بولتا، اور صحافی جنگی دھند میں سچ کی تلاش کرتا۔ اب یہی لوگ، اسی سچ کی قیمت ادا کر رہے ہیں۔جب پاکستان نے ان افغانوں کو نکالنا شروع کیا، تو یہ محض ایک ریاستی فیصلہ نہیں تھا؛ یہ ایک علامتی عمل تھا جس نے ان آوازوں کو ایک بار پھر بے نام کرنے کی کوشش کی جو پہلے ہی شناخت کے کسی واضح دائرے میں نہیں آتیں۔ یہ وہی لمحہ تھا جہاں “دستاویز نہ ہونا” ایک جرم بن گیا، اور وہ تمام وعدے جو کسی مستقبل پر لکھے گئے تھے، اچانک ماضی کی بےمعنی صدائیں بن گئے۔مغربی ممالک، جو کبھی ان افراد کے لیے “ری سیٹلمنٹ” پروگرام چلا رہے تھے، اب تاخیر، قانونی پیچیدگیوں، اور سیاسی بےرغبتی کا شکار ہیں۔ برطانیہ کا پروگرام کاغذوں میں الجھا ہوا ہے، کینیڈا بہانے بناتا ہے، اور امریکہ کی فائلیں دھول چاٹ رہی ہیں۔ اور ان فائلوں کے اندر جو لوگ قید ہیں، وہ صرف نام نہیں، زندہ انسان ہیں جن کا ہر دن نئی غیر یقینی کے ساتھ طلوع ہوتا ہے۔کیا یہ وہی دنیا ہے جو انسانی حقوق کا عالمی علَم اٹھاتی ہے؟ وہی دنیا جو اپنی مداخلتوں کو “تبدیلی” کا نام دیتی ہے، اور پھر ان تبدیلیوں کے مقامی کرداروں کو “اضافی بوجھ” قرار دے کر نظرانداز کر دیتی ہے؟ یہ سوال اب صرف اخلاقی نہیں رہا، یہ سیاسی بھی ہے، اور انسانی بھی۔ اور سب سے بڑھ کر، یہ سوال اب ان الفاظ کا ہے جنہیں لکھا تو گیا، مگر نبھایا نہیں گیا۔ہمیں یہ مان لینا چاہیے کہ وعدے صرف تحریری معاہدے نہیں ہوتے؛ وہ ایک زبان کی تخلیق کرتے ہیں، ایک تعلق بناتے ہیں۔ اور جب یہ وعدے ٹوٹتے ہیں، تو صرف افراد نہیں، ایک پوری زبانی فضا بکھر جاتی ہے۔ تب یہ سوال اٹھتا ہے: کیا جو زبان ہم بولتے ہیں، وہ واقعتاً ہمارے عمل کی ترجمان ہے؟ یا ہم محض اُن جملوں کو دہراتے ہیں جن کا مقصد صرف وقتی سکون دینا ہوتا ہے؟جرمنی کا موجودہ قدم اگرچہ دیر سے اٹھا ہے، مگر یہ ان زخموں پر مرہم رکھنے کا پہلا اشارہ ہو سکتا ہے، بشرطیکہ وہ صرف “بیان” نہ رہے۔ لیکن اصل تبدیلی تب آئے گی جب دوسرے ممالک بھی اپنی زبانی خودپسندی سے نکل کر ان انسانی زندگیوں کو دیکھیں گے جو ان کے فیصلوں سے جڑی ہیں۔ افغانستان کے ان افراد کو چھوڑ دینا، صرف ان کی جانوں سے غداری نہیں، بلکہ اس خیال سے بھی انکار ہے کہ انسانی وقار سرحد، مذہب، نسل یا ضرورت کی بنیاد پر نہیں بدلتا۔یہ لوگ جو کئی سالوں سے بےوطن، بےآسرا، اور بےنام حالت میں جی رہے ہیں، ہم سے صرف پناہ نہیں مانگ رہے — وہ ہمیں ہماری اپنی کہی ہوئی باتیں یاد دلا رہے ہیں۔ وہ ہمارے وعدوں کے گواہ ہیں، اور ہماری خامشی کے بھی۔ اور شاید یہی وہ خامشی ہے جسے اب ہم مزید بچا نہیں سکتے — نہ اپنے ضمیر سے، نہ اپنی تاریخ سے۔
