آج کی تاریخ

کالا باغ ڈیم: پرانی اینٹیں، نئی دراڑیں

جب کوئی عمارت ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو، تو محض اس کی بنیادوں پر مزید اینٹیں چننے سے وہ مضبوط نہیں ہو جاتی۔ اس کے برعکس، اگر ہم مسلسل انہی بنیادوں کو دہراتے رہیں، جنہوں نے ہمیں ان دراڑوں تک پہنچایا، تو ہم شاید نہ صرف اس عمارت کو، بلکہ اس کے آس پاس کی زمین کو بھی کھو بیٹھیں۔ کچھ ایسا ہی حال اس ملک کے سیاسی بیانیے کا ہے، جہاں تاریخ کی مردہ فائلوں سے ایک بار پھر وہ منصوبہ نکالا گیا ہے جس پر مٹی ڈالی جا چکی تھی: کالا باغ ڈیم۔خیبرپختونخوا کے وزیر اعلیٰ کی جانب سے اس منصوبے کی حمایت ایک ایسا قدم ہے جس نے کئی بند دروازے دوبارہ کھول دیے ہیں۔ یہ وہ دروازے ہیں جو ماضی میں تین صوبوں — سندھ، بلوچستان، اور خود خیبرپختونخوا — نے بند کر دیے تھے، نہ صرف قراردادوں کے ذریعے، بلکہ ایک اجتماعی سیاسی شعور کے تحت۔ ان کی حمایت کا دعویٰ ایسے وقت میں آیا ہے جب سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں وزیر اعظم نے نئے آبی ذخائر پر قومی اتفاق کی اپیل کی تھی۔یہ بات باعثِ حیرت نہیں کہ جب کسی پرانے زخم کو دوبارہ چھیڑا جائے تو درد بھی پرانا نہیں رہتا — وہ ایک نیا جسم اختیار کر لیتا ہے۔ وزیر اعلیٰ کی اس رائے سے ان کی اپنی جماعت کے رہنماؤں نے فاصلہ اختیار کیا۔ ایک طرف اسد قیصر نے کہا کہ یہ پارٹی پالیسی کی نمائندگی نہیں کرتا، تو دوسری طرف سندھ سے تعلق رکھنے والے رہنما حلیم عادل شیخ نے اس منصوبے کو “مردہ گھوڑا” قرار دے دیا۔ یہاں تک کہ پیپلز پارٹی نے بھی یاد دہانی کرائی کہ اس باب کو تین صوبے بند کر چکے ہیں۔تاہم اصل المیہ اس وقت جنم لیتا ہے جب یہ حمایت ایک ایسے صوبے سے بھی ملتی ہے جسے باقی وفاقی اکائیاں ہمیشہ اس منصوبے کا اصل حامی سمجھتی رہی ہیں۔ پنجاب کی حکومت نے اس بیان کو سند دی، گویا ایک اتفاقِ نادرہ ہو گیا ہو، مگر اس “اتفاق” کی بنیاد میں اعتماد نہیں، بلکہ شکوک، خدشات، اور تاریخی نابرابری کی گونج ہے۔یہ وہ لمحہ ہے جہاں ہمیں رک کر خود سے سوال کرنا چاہیے: ہم کیا چاہتے ہیں؟ محض پانی کے ذخائر؟ یا ایک ایسا اجتماعی شعور جو پانی کی قلت، سیلاب کی تباہی، زمین کی کٹاؤ، اور دریائی ڈیلٹا کی موت جیسے مسائل کو ایک نئے زاویے سے دیکھ سکے؟ ہم کس کی طرف دیکھ رہے ہیں: مستقبل کی طرف، یا ماضی کی طرف جو بار بار ہمیں ایک بند گلی میں دھکیلتا ہے؟جو لوگ کالا باغ جیسے منصوبوں کو حل سمجھتے ہیں، وہ شاید مسئلے کو ہی مکمل طور پر نہیں سمجھ پائے۔ پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جہاں ماحولیاتی تبدیلی کا خطرہ سب سے زیادہ ہے۔ ہمارے دریا سکڑ رہے ہیں، ہمارے کسان بے زمین ہو رہے ہیں، ہمارے ماہی گیر بے دریا۔ اور ہمارے رہنما اب بھی کنکریٹ کی زبان میں بات کرتے ہیں، جیسے وقت کی دھڑکن کو وہ اینٹوں کے شور میں دبانا چاہتے ہوں۔یہ اینٹیں نہ ہمیں محفوظ کرتی ہیں، نہ جوڑتی ہیں۔ یہ تو صرف دیواریں کھڑی کرتی ہیں — وہ دیواریں جو صوبوں کے بیچ پہلے ہی قائم ہو چکی ہیں۔ پانی کا مسئلہ محض ذخیرہ کرنے کا نہیں، اسے بانٹنے، اسے بچانے، اور اس کے ساتھ جینے کا مسئلہ ہے۔ اور یہ تب تک حل نہیں ہوگا جب تک ہم پرانے خیالات کی دھند سے باہر نہ آئیں۔ایک اور قابلِ غور نکتہ یہ ہے کہ اس قسم کے منصوبے صرف ماحولیاتی یا تکنیکی نہیں ہوتے، یہ سیاسی علامتیں ہوتے ہیں — وہ علامتیں جو ماضی کی تلخیوں کو دہراتی ہیں، اعتماد کو مجروح کرتی ہیں، اور وفاق کی بنیاد کو کمزور کرتی ہیں۔ جب ایک منصوبہ تین صوبوں کے نزدیک ان کی خودمختاری، ان کے وجود، اور ان کی ثقافتی شناخت پر حملہ محسوس ہوتا ہو، تو اسے “قومی مفاد” کے لبادے میں لپیٹنا دراصل ان کی آواز کو دبانے کے مترادف ہے۔سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہم نے کب سے “اتفاقِ رائے” کو خاموشی سمجھ لیا؟ کیا تین صوبوں کی مخالفت کو ہم محض سیاسی اختلاف سمجھ کر نظر انداز کر سکتے ہیں؟ کیا ملک کی وحدت کا مطلب صرف اکثریت کی خواہش کا نفاذ ہے، یا ہر آواز کو سنا جانا بھی اس وحدت کا حصہ ہے؟کسی منصوبے کو زندہ کرنا صرف فنی عمل نہیں، یہ سیاسی اشارہ ہوتا ہے۔ اور یہ اشارہ اس وقت اور بھی گمبھیر ہو جاتا ہے جب ملک پہلے ہی سیاسی خلفشار، ماحولیاتی بحران، اور اقتصادی کمزوری کی لپیٹ میں ہو۔ جب سیلاب ہمارے دروازے توڑ رہے ہوں، جب گاؤں اجڑ رہے ہوں، جب بچے آلودہ پانی سے مر رہے ہوں، تو ہمیں پانی روکنے نہیں، پانی کے ساتھ جینے کا ہنر سیکھنے کی ضرورت ہے۔اگر ہم واقعی ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات سے نمٹنا چاہتے ہیں، تو ہمیں اپنے ذہن کی زمین کو پہلے زرخیز بنانا ہوگا۔ ہمیں ان منصوبوں پر توجہ دینی ہوگی جو قدرتی نظام کے ساتھ ہم آہنگ ہوں، جو مقامی کمیونٹی کی شرکت سے جڑے ہوں، اور جو اس زمین کے باسیوں کی سچائیوں کو جھٹلانے کی بجائے تسلیم کریں۔ بڑے ڈیمز کی معیشت صرف کنکریٹ کی نہیں ہوتی، وہ طاقت کی معیشت بھی ہوتی ہے — وہ طاقت جو مقامی آوازوں کو دباتی ہے، اور ایک ایسی وحدت کا دعویٰ کرتی ہے جس میں تنوع کی گنجائش نہیں۔ماضی کے اس بھاری پتھر کو بار بار اٹھا کر ہم خود اپنی راہوں کو بند کر رہے ہیں۔ ہمیں ان راستوں کی تلاش ہے جو نہ صرف قدرت کے ساتھ چلیں، بلکہ ان لوگوں کے ساتھ بھی جو برسوں سے اس دھرتی پر زندہ ہیں — اور جن کی زندگیاں پانی کی ہر لہر سے جڑی ہوئی ہیں۔ وقت آ گیا ہے کہ ہم پرانی اینٹوں سے نئی دیواریں نہ کھڑی کریں، بلکہ ان دراڑوں کو پہچانیں، جن میں سے ایک نئی سوچ جنم لے سکتی ہے۔یہ صرف ایک منصوبے کی بات نہیں، یہ اس سوچ کی بات ہے جو ہماری سیاست، معیشت، اور ماحولیات کو جوڑتی ہے یا توڑتی ہے۔ اور شاید اب وقت آ گیا ہے کہ ہم یہ فیصلہ کریں کہ ہم کیا جوڑنا چاہتے ہیں — زمین، پانی اور لوگوں کو — یا صرف اعداد و شمار اور فائلوں کے اندر دفن مفادات کو۔کالا باغ ڈیم کا مسئلہ صرف ایک آبی منصوبے کا مسئلہ نہیں رہا — یہ اب ایک علامت ہے، ایک علامت اس طریقہ کار کی جس کے تحت اس ملک میں ترقی کو ہمیشہ طاقت، مرکزیت اور خاموشی کی شرط پر پرکھا گیا ہے۔ جب ہم پانی جیسے حساس مسئلے پر “اتفاق رائے” کی بات کرتے ہیں، تو ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اتفاق رائے صرف جلسوں، تقاریر یا کمیٹیوں کے ذریعے حاصل نہیں ہوتا۔ یہ رائے ایک پیچیدہ عمل سے جنم لیتی ہے — ایک ایسا عمل جو سننے، سمجھنے، اور ماضی کی ناانصافیوں کا اعتراف کرنے پر مبنی ہو۔جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ “وقت آگیا ہے کہ ہم اختلافات بھول جائیں اور آگے بڑھیں”، وہ دراصل ان اختلافات کی تاریخی گہرائی کو نظرانداز کر رہے ہیں۔ پانی، زمین، زبان، اور شناخت جیسے معاملات محض سائنسی یا تکنیکی نہیں ہوتے — یہ تاریخ سے بندھے ہوتے ہیں، اور تاریخ کبھی محض ماضی میں بند نہیں رہتی؛ وہ حال میں دھڑکتی ہے اور مستقبل کے خوابوں میں رخنے ڈالتی ہے۔تو کیا ہم واقعی “آگے” بڑھنا چاہتے ہیں؟ اگر ہاں، تو یہ تبھی ممکن ہے جب ہم اُن قوتوں کو بے نقاب کریں جو ہر بار انہی پرانے ماڈلز کو نجات دہندہ بنا کر پیش کرتی ہیں۔ کالا باغ ڈیم کی حالیہ بازگشت اسی ماضی پرستی کا مظہر ہے، جہاں تبدیلی کا مطلب صرف پرانے خاکے میں نیا رنگ بھر دینا سمجھا جاتا ہے۔اس ملک میں پانی کی سیاست ہمیشہ اس تصور پر مبنی رہی ہے کہ وسائل پر قابض ہونا ہی طاقت کی معراج ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھی کسی نئے آبی منصوبے کی بات ہوتی ہے، تو ایک مخصوص انداز کی زبان سامنے آتی ہے: “قومی مفاد”، “ترقی کا راستہ”، “مستقبل کی ضرورت”، “ماحولیاتی خطرات سے نمٹنے کا واحد حل”۔ یہ زبان چونکہ سننے میں معقول لگتی ہے، اس لیے اس پر سوال اٹھانا مشکل ہو جاتا ہے۔ مگر ہمیں پوچھنا ہوگا کہ “قومی مفاد” کا تعین کون کرتا ہے؟ اور وہ قوم، جس کے نام پر فیصلے کیے جاتے ہیں، کیا اس کی مختلف آوازوں کو سنا گیا ہے؟پانی کو ذخیرہ کرنے، موڑنے یا تقسیم کرنے کے فیصلے محض انجینئرنگ کے نہیں، بلکہ اخلاقیات کے فیصلے بھی ہوتے ہیں۔ جب ایک منصوبہ کسی علاقے کی زمین کو پانی سے محروم کرتا ہے، کسی نسل کی زبان کو خاموش کرتا ہے، یا کسی ثقافت کو اجاڑ دیتا ہے، تو کیا وہ ترقی کہلاتی ہے؟ کیا ہم واقعی ایسے ماڈل کو مستقبل کا حل کہہ سکتے ہیں جس میں کچھ علاقوں کو خوش حالی اور دوسروں کو قربانی کا میدان بنایا گیا ہو؟ہمیں ایک ایسی سیاست کی ضرورت ہے جو جوڑنے کا ہنر جانتی ہو، جو ہر دراڑ کو چھپانے کے بجائے دکھانے کا حوصلہ رکھتی ہو، تاکہ ہم ان دراڑوں میں سے نیا خیال، نیا تصور، اور نیا رشتہ پیدا کر سکیں۔ اگر ہم واقعی ایک ایسا پاکستان چاہتے ہیں جو صرف نقشوں میں نہیں، دلوں میں بھی متحد ہو، تو ہمیں ایسے منصوبوں کو خیرباد کہنا ہوگا جو زخموں کو کھولتے ہیں، اور ایسی زبان اختیار کرنی ہوگی جو مرہم رکھ سکے۔یہ صرف کالا باغ کا مسئلہ نہیں، یہ ہمارے سوچنے کے انداز کا مسئلہ ہے۔ اور جب تک ہم سوچنے کے انداز کو تبدیل نہیں کریں گے، ہم وہی پرانی اینٹیں اٹھا کر نئی دیواریں کھڑی کرتے رہیں گے — اور نئی دراڑیں پیدا کرتے رہیں گے۔

شیئر کریں

:مزید خبریں