آج کی تاریخ

کاروائی بے اثر، آن لائن جوا مافیا مضبوط، جنوبی پنجاب کے مختلف شہروں میں نیٹ ورک-کاروائی بے اثر، آن لائن جوا مافیا مضبوط، جنوبی پنجاب کے مختلف شہروں میں نیٹ ورک-ڈاکٹر بھابھہ کے کلاس فیلو پولیس افسر کی مداخلت، ڈاکٹر شازیہ کی آئی جی کو تفتیش تبدیلی درخواست-ڈاکٹر بھابھہ کے کلاس فیلو پولیس افسر کی مداخلت، ڈاکٹر شازیہ کی آئی جی کو تفتیش تبدیلی درخواست-بدکاری پر سہولتکاری کا پردہ، ڈاکٹر رمضان کا استعفیٰ ذاتی وجوہات قرار دیکر منظور، انکوائری ٹھپ-بدکاری پر سہولتکاری کا پردہ، ڈاکٹر رمضان کا استعفیٰ ذاتی وجوہات قرار دیکر منظور، انکوائری ٹھپ-میرا قائد عمران خان فوجی آپریشن کیخلاف تھا، ہم بھی اس کے خلاف ہیں،نو منتخب وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا محمد سہیل آفریدی-میرا قائد عمران خان فوجی آپریشن کیخلاف تھا، ہم بھی اس کے خلاف ہیں،نو منتخب وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا محمد سہیل آفریدی-ایران کا غزہ امن کانفرنس میں شرکت سے انکار، "اپنے عوام پر حملہ کرنے والوں کے ساتھ نہیں بیٹھ سکتے"، ایرانی وزیرِ خارجہ-ایران کا غزہ امن کانفرنس میں شرکت سے انکار، "اپنے عوام پر حملہ کرنے والوں کے ساتھ نہیں بیٹھ سکتے"، ایرانی وزیرِ خارجہ

تازہ ترین

این ایف سی ایوارڈ اور وسائل کا واہمہ

کسی معاہدے کی عمر اگر طے شدہ ہو، تو اس کے ختم ہونے سے پہلے ہی اس کے خلاف شکوک پیدا ہونے لگتے ہیں۔ پاکستان میں این ایف سی ایوارڈ کا معاملہ کچھ اسی طرح کا ہے۔ ہر پانچ سال بعد مرکز اور صوبے کسی نئی تقسیمِ دولت پر متفق ہونے کی کوشش کرتے ہیں، جیسے یہ کوئی محض حساب کتاب کا مسئلہ ہو۔ مگر اس مالیاتی ترتیب کے اندر، جو بظاہر قومی یکجہتی کے اصول پر قائم ہے، کچھ ایسا ضرور ہے جو ہربار خود کو جھٹلاتا ہے۔57.5 فیصد کا وعدہ، جو صوبوں کو دیا گیا، اب مرکز کے نزدیک سوالیہ نشان بن چکا ہے۔ اور 42.5 فیصد، جو مرکز کے پاس ہے، اس کی گرفت میں ہر سال کمی آتی جا رہی ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ کیا اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ مرکز کے اخراجات بڑھ چکے ہیں، یا صوبے اپنی استعداد میں ناکام رہے ہیں؟ یا شاید مسئلہ اس فارمولے کی اس بنیاد میں ہے جسے ایک بار طے کر کے مقدس مان لیا گیا؟ جب کسی حسابی فارمولا کو ریاستی نظم کا ستون سمجھ لیا جائے، تو پھر اس میں سوال اٹھانا گستاخی بن جاتا ہے۔ اور یہ وہی مقام ہے جہاں گفتگو بند، اور خدشے جنم لیتے ہیں۔یہ دعویٰ کہ این ایف سی ایوارڈ کا موجودہ فارمولہ ناکافی ہو چکا ہے، اکثر اس دلیل کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے کہ مرکز کی مالی گنجائش ختم ہو رہی ہے: قرضے بڑھ رہے ہیں، دفاعی ضروریات پیچیدہ ہو چکی ہیں، اور وفاقی حکومت کے لیے معمول کے کام بھی قرض کے بغیر ممکن نہیں۔ لیکن کیا وفاق کی مالی کمزوری کا حل صوبوں کے حصے میں کمی ہے؟ یا یہ مسئلہ خود اس مالیاتی ڈھانچے کا ہے جس میں مرکز نے خود کو معاشی کفیل کے بجائے محض تقسیم کنندہ بنا لیا ہے؟صوبے بھی، جنہیں زیادہ وسائل ملے، اپنی کمزوریوں کے خالق خود ہیں۔ انہوں نے اپنے ٹیکس بیس کو وسعت نہیں دی، داخلی محصولات کی نظامت کو جدید نہیں بنایا، اور اپنی ترقیاتی حکمت عملی کو سیاسی مصلحتوں کے حوالے کر دیا۔ لیکن ان ناکامیوں کو بنیاد بنا کر مرکز اگر وسائل کی تقسیم پر نظرثانی چاہتا ہے، تو سوال یہ ہے کہ نظرِثانی کس اصول پر ہو؟ اگر اصول کارکردگی ہے، تو کیا مرکز خود اس میں کامیاب ہے؟ اگر اصول مساوات ہے، تو کیا این ایف سی ایوارڈ کی موجودہ ساخت ہی عدم مساوات کا پرچار نہیں؟ایوارڈ کی عمودی تقسیم کو درست یا غلط کہنا نسبتاً آسان ہے، لیکن اصل ابہام اس کی افقی تقسیم میں ہے۔ صوبوں کو جو حصہ ملتا ہے، اس کی تقسیم صرف آبادی کی بنیاد پر طے کی جاتی ہے۔ کیا یہ آبادی ریاست کی اقتصادی پیچیدگیوں کو درست طریقے سے ماپ سکتی ہے؟ ایک ایسا صوبہ جہاں غربت زیادہ ہو، بنیادی ڈھانچہ کمزور ہو، آمدنی کم ہو، اور مقامی حکومتوں کا وجود برائے نام ہو، کیا اسے وہی حصہ ملنا چاہیے جو ایک مستحکم اور خود کفیل اکائی کو ملتا ہے؟ یا یہ فارمولہ بذاتِ خود ان تفاوتوں کو خاموشی سے منظم کرنے کا ایک طریقہ ہے؟آبادی پر مبنی فارمولہ گویا اس مفروضے پر قائم ہے کہ ہر شہری ایک جیسا بوجھ اور ایک جیسا حق رکھتا ہے۔ لیکن کیا ایسا ہے؟ جن علاقوں میں ترقیاتی خلا دہائیوں پر محیط ہو، جہاں وسائل کی رسائی بنیادی ضرورت نہیں بلکہ ایک خواب ہو، وہاں صرف آبادی کی بنیاد پر وسائل کی تقسیم ایک ریاضیاتی جبر بن جاتی ہے — ایک ایسا جبر جو تفاوت کو تسلیم کرنے کے بجائے، اس پر پردہ ڈال دیتا ہے۔این ایف سی ایوارڈ کے اندر ایک اور غیر مرئی مفروضہ بھی کارفرما ہے: کہ وفاق اور صوبے دو مکمل، واضح اور یکساں کردار ادا کرنے والے فریق ہیں۔ حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ نہ مرکز مکمل مرکز ہے، نہ صوبے مکمل خودمختار۔ وزارتیں جنہیں آئینی طور پر ختم کر دینا چاہیے تھا، آج بھی وفاق کے پاس ہیں۔ وہ شعبے جن پر صوبوں کو مکمل اختیار ہونا چاہیے، ان کے بجٹ اسلام آباد سے بنتے ہیں۔ اور جب یہ دوہرے نظامات ایک ہی مالیاتی بندوبست سے جڑے ہوں، تو پھر وسائل کی تقسیم بھی دوہری ہو جاتی ہے: ایک اعلانیہ، اور ایک غیر علانیہ۔یہ غیر علانیہ سطح ہی اصل تقسیم کی ساخت ہے — جس میں بظاہر جو کچھ طے ہوا ہے، وہ ویسا ہوتا نہیں۔ مرکز بظاہر کمزور ہے، مگر اس کے پاس قرض لینے، بجٹ بنانے، اور ترقیاتی منصوبوں کو روکنے کی طاقت موجود ہے۔ صوبے بظاہر مضبوط ہیں، مگر ان کے اختیارات مرکز کی مالی گرانٹ کے بغیر بے معنی ہیں۔ اس پیچیدگی کو اگر این ایف سی ایوارڈ کے فارمولے میں سادہ حساب سے حل کرنے کی کوشش کی جائے، تو وہ صرف شور میں اضافہ کرے گی، وضاحت میں نہیں۔اس کے حل کے لیے جو تجاویز دی جا رہی ہیں — مثلاً صوبوں سے دفاعی اخراجات میں حصہ لینے کا مطالبہ، یا مرکز کا اپنے اخراجات کم کرنا — وہ تمام اس مفروضے پر مبنی ہیں کہ اگر دونوں فریق کچھ قربانی دیں، تو توازن ممکن ہو جائے گا۔ مگر یہ توازن خود ایک سوال ہے۔ کیونکہ کوئی بھی توازن محض اعداد کا نہیں ہوتا، وہ اعتماد کا ہوتا ہے۔ اور اعتماد تب ہی پیدا ہوتا ہے جب فریقین نہ صرف ایک دوسرے کی حدود تسلیم کریں، بلکہ خود کو بھی محدود کرنے پر آمادہ ہوں۔اس وقت وفاق ایک طرف دعویٰ کرتا ہے کہ اسے اپنی مالی خودمختاری بحال کرنی ہے، دوسری طرف وہ صوبوں کے شعبوں میں مداخلت سے باز نہیں آتا۔ دوسری طرف، صوبے خود کو مکمل بااختیار سمجھ کر مرکز کو مالیاتی ناکامیوں کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں، مگر اپنی خودمختاری کو مالیاتی نظم میں تبدیل نہیں کرتے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں دونوں فریق آئینی فقرات کے پیچھے چھپ کر خود احتسابی سے انکار کرتے ہیں۔این ایف سی ایوارڈ کی اصل پیچیدگی یہی ہے: ایک ایسا معاہدہ جو ہر فریق کو کچھ نہ کچھ دیتا ہے، مگر کسی کو بھی مکمل نہیں کرتا۔ یہ معاہدہ ریاستی وحدت کا بیانیہ تو قائم رکھتا ہے، مگر اس وحدت کو اکثر غیر متوازن فیصلوں میں تحلیل کر دیتا ہے۔اب سوال یہ نہیں کہ 57.5 اور 42.5 کا تناسب تبدیل کیا جائے یا نہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا این ایف سی ایوارڈ اب بھی ریاستی مالیات کے لیے ایک مفید فریم ورک ہے؟ یا یہ صرف ایک روایتی رسم ہے جو ہر پانچ سال بعد دہرائی جاتی ہے، اور ہر بار نئے تضادات کو جنم دیتی ہے؟اگر یہ معاہدہ واقعی کسی ریاستی اصول پر قائم ہے، تو اس کی ہر شق، ہر فارمولے، اور ہر فیصد کو ازسرِنو دیکھا جانا چاہیے۔ مگر اگر یہ معاہدہ صرف ایک سیاسی توازن کا عکس ہے، تو شاید ہمیں اسے فارمولا کہنے کے بجائے معاہدہِ مصلحت کہنا چاہیے — ایک ایسا معاہدہ جو ہر بار معیشت کی منطق کو سیاست کی مصلحت میں بدل دیتا ہے۔

شیئر کریں

:مزید خبریں