پاکستان کے سیاسی حلقوں میں ایک بار پھر “نئے صوبوں” کی بحث زور و شور سے ہورہی ہے۔ اس بحث کا آغاز انہی حلقوں کی جانب سے کیا جارہا ہے جو پاکستان کی ریاست کی کثیر القومیتی شناخت کو ماننے سے انکاری رہے ہیں اور یہ انکار ایک مرتبہ پاکستان کو دو حصوں میں تقسیم کر چکا ہے ۔ اس انکار نے پاکستان کی ریاست کو نویں بار بلوچستان میں ایکبہت بڑے فوجی آپریشن پر مجبور کیا ہے۔ یہ انکار پاکستان میں بار بار آمریتوں کے تسلط اور جمہوریت کو کھوکھلا کرنے کا سبب بنا ہے۔ آج کا ہائبرڈ سسٹم بھی اسی “انکار” کی دین ہے۔ پاکستان جب 1947 میں وجود میں آیا، تو اس کی بنیاد جس بیانیے پر رکھی گئی، وہ یہ تھا کہ مسلمان ایک علیحدہ قوم ہیں، جنہیں اپنی الگ ریاست میں جینے کا حق ہے۔ لیکن افسوس کی بات ہے کہ جو ریاست “قوم” کی بنیاد پر بنی، وہ خود اپنی سرزمین پر بسنے والی قومیتوں کو تسلیم کرنے پر کبھی آمادہ نہیں ہوئی۔ ریاست کے ابتدائی بیانیے میں ہی یہ گریز شامل تھا کہ “قوم” کو “قومی یکجہتی” میں ضم کر دیا جائے، اور اس “یکجہتی” کی تعریف مرکز میں بیٹھے چند ادارے اور سیاسی طبقات طے کریں۔یہ وہ بنیادی تضاد ہے جو آج تک پاکستان کے ہر آئینی، سیاسی اور انتظامی بحران کی جڑ ہے۔ جب آپ ریاست کی اکائیوں کو ان کے نام، زبان، ثقافت، تاریخ اور اختیار سے انکار کرتے ہیں، تو آپ دراصل ان کی شناخت کے وجود ہی کو خطرے میں ڈال دیتے ہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی تاریخ “وفاق کی مضبوطی” کے نعروں سے بھری ہوئی ہے، مگر ہر دہائی میں وفاق خود کمزور تر ہوتا چلا گیا ہے۔ کیا یہ محض اتفاق ہے؟ یا اس کے پیچھے کوئی بنیادی سیاسی کجی ہے؟پاکستان کو درحقیقت ایک کثیر القومیتی ریاست کے طور پر نئے سرے سے تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔ یہ کوئی جذباتی یا رومانوی مطالبہ نہیں، بلکہ ایک حقیقت ہے جس سے انکار ہمیں صرف مزید تقسیم، مزاحمت، بغاوت اور ٹوٹ پھوٹ کی طرف لے جائے گا۔ اس ریاست میں پنجاب، سندھ، پختونخوا، بلوچستان اور سرائیکی وسیب پانچ تاریخی، لسانی، ثقافتی اور سیاسی اکائیاں ہیں، جن کی اپنی پہچانیں، داخلی استقامت اور تاریخی بیانیے ہیں۔ ان اکائیوں کو آئینی اور انتظامی سطح پر مکمل قومی حیثیت دیے بغیر ہم صرف وفاق کا سراب ہی دیکھ سکتے ہیں — حقیقت نہیں۔پنجاب اس وقت پاکستان کی اکثریتی قومیت ہے، لیکن اسی کے اندر واقع سرائیکی وسیب کی جداگانہ شناخت کو مسلسل نظرانداز کیا گیا ہے۔ سرائیکی خطہ نہ صرف لسانی طور پر منفرد ہے، بلکہ ثقافتی اور تاریخی طور پر بھی ایک الگ اکائی رہا ہے۔ ملتان، بہاولپور اور ڈیرہ غازی خان جیسے علاقے محض جغرافیائی حدبندی نہیں، ایک تاریخی شعور کے حامل خطے ہیں۔ جب یہ خطہ لاہور کی مرکزیت کے تابع کر دیا گیا تو وہاں کے عوام نے خود کو ایک ایسی ریاستی ساخت میں پایا جو نہ ان کی زبان بولتی ہے، نہ ان کے دکھ سمجھتی ہے، اور نہ ان کے وسائل کی منصفانہ تقسیم کو ممکن بناتی ہے۔بلوچستان کی مثال سب سے واضح ہے۔ ایک ایسا خطہ جو رقبے میں سب سے بڑا ہے، مگر وسائل کی تقسیم میں ہمیشہ پسماندہ رکھا گیا۔ اس خطے میں مزاحمت صرف بیرونی مداخلت کے خلاف نہیں، بلکہ ریاست کے اس اجتماعی انکار کے خلاف ہے جو بلوچ عوام کی شناخت اور اختیار کو تسلیم کرنے سے قاصر ہے۔ جب ایک ریاست طاقت کے ذریعے خاموشی کو “امن” کا نام دیتی ہے، تو وہ درحقیقت اپنی قبر خود کھود رہی ہوتی ہے۔سندھ کی سیاست میں مسلسل احساسِ محرومی، مہاجروں اور سندھیوں کے درمیان کشیدگی، اور وسائل کی غیر مساوی تقسیم نے اس صوبے میں بھی ایک مستقل بحران کو جنم دیا ہے۔ پختونخوا میں بھی سیاسی شعور کی مضبوطی کے باوجود یہ احساس موجود ہے کہ ریاست نے ہمیشہ اس خطے کو ایک “بفر زون” سمجھا — جسے کبھی روس کے خلاف، کبھی امریکہ کے حق میں، اور کبھی طالبان کے ساتھ “گہرائی” کے نام پر استعمال کیا گیا۔ایسی ریاست جو اپنی ہی اکائیوں کو تسلیم کرنے سے انکار کرے، وہ درحقیقت ایک خود سے جھوٹ بولنے والی ریاست ہے۔ اور کوئی بھی ریاست، خواہ کتنی ہی عسکری طاقت رکھتی ہو، جب تک اپنے وجود کی سچائی کو قبول نہیں کرتی، وہ ٹوٹنے کے دہانے پر ہی کھڑی رہتی ہے۔اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان کے آئین میں بنیادی سطح پر تجدید کی جائے۔ پاکستان کو آئینی طور پر پانچ قومیتوں پر مشتمل ریاست تسلیم کیا جائے — اور ان قومیتوں کے جغرافیائی خطوں کو مکمل داخلی خودمختار صوبوں کی حیثیت دی جائے۔ ان صوبوں کے اپنے آئین، اسمبلیاں، عدالتیں، اور محصولات کا نظام ہو۔ ان کے اختیار کو محدود صرف تین شعبوں تک رکھا جائے: دفاع، خارجہ اور مواصلات — اور وہ بھی باہمی رضامندی سے چلائے جائیں۔ یہ کوئی غیر معمولی ماڈل نہیں؛ دنیا کے کئی وفاقی نظام ایسے ہی چلتے ہیں — چاہے وہ سوئٹزرلینڈ ہو، کینیڈا، یا جرمنی۔گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کو مکمل داخلی خودمختاری دینا بھی ناگزیر ہو چکا ہے۔ دہائیوں سے ان علاقوں کو نیم آئینی، نیم قانونی حیثیت میں رکھا گیا ہے۔ ان کے باسیوں سے مکمل وفاداری کا تقاضا کیا جاتا ہے، مگر انہیں مکمل شہری حقوق نہیں دیے جاتے۔ یہ تضاد اب چلنے کے قابل نہیں۔ اگر ریاست ان علاقوں سے وفاداری چاہتی ہے تو اسے بھی ان کے ساتھ آئینی وفاداری کرنی ہوگی — جو صرف مکمل داخلی خودمختاری سے ہی ممکن ہے۔بلدیاتی نظام کو بھی آئینی تحفظ دے کر ضلعی سطح پر مقامی خودمختاری قائم کی جائے — یعنی مقامی حکومتیں جو تحصیل، یونین کونسل، یا ضلع کی سطح پر براہِ راست منتخب ہوں، اور جن کے پاس پولیس، تعلیم، صحت، اور مقامی ترقیاتی منصوبوں پر مکمل اختیار ہو۔ مگر یہ سب کاغذی نہیں ہونا چاہیے، جیسا کہ 2001 کے بعد ہوا۔ ہمیں یاد ہے کہ مشرف دور کے اختیارات 2008 کے بعد ختم کر دیے گئے، اور صوبائی حکومتوں نے بلدیاتی اداروں کو عملاً بے اختیار کر دیا۔ آئین میں ترمیم کر کے مقامی حکومت کو چوتھی سطح کی حکومت تسلیم کیا جانا چاہیے — جو نہ وفاق کی محتاج ہو، نہ صوبے کی مرضی کی۔ریاست کا موجودہ انتظامی ڈھانچہ دراصل ایک نوآبادیاتی تسلسل ہے، جو محض نام بدل کر برقرار رکھا گیا ہے۔ برطانوی راج میں مرکز کلکتہ یا دہلی تھا، اب وہی کردار اسلام آباد نے سنبھال لیا ہے۔ وہی بالا دستی، وہی اختیار کی مرکزیت، وہی “صوبوں کو کنٹرول” کرنے کی سوچ — سب کچھ ویسا ہی ہے۔ صرف چہروں اور نعروں کا فرق ہے۔ اب ہمیں ریاست کے ڈھانچے کو نوآبادیاتی سے جمہوری میں تبدیل کرنا ہے۔اگر یہ سب باتیں اتنی واضح ہیں، تو پھر کیوں اب تک ایسا ممکن نہیں ہوا؟ اس کی ایک بڑی وجہ پاکستان کے طاقتور اداروں کی مرکزیت پرستی ہے — خاص طور پر بیوروکریسی، عسکری اشرافیہ، اور سیاسی جماعتوں کا وہ ٹولہ جو ہر نئی اصلاحات کو اپنے اختیار کے لیے خطرہ سمجھتا ہے۔ یہ وہ طبقات ہیں جو ہر قسم کی تبدیلی کو “انتشار” اور “غداری” کے مترادف سمجھتے ہیں۔ مگر اصل انتشار تو وہی ہے جو ریاست کو جھوٹ پر قائم رکھنے کی ضد سے پیدا ہوتا ہے۔سوال یہ نہیں کہ ہم کتنا طاقتور وفاق چاہتے ہیں؛ سوال یہ ہے کہ ہم کیسا معنی خیز وفاق چاہتے ہیں۔ ایسا وفاق جو اپنی اکائیوں کو دھکیل کر نہیں، بلکہ گلے لگا کر آگے بڑھے۔ ایسا وفاق جو جب بات کرے، تو ہر قومیت کو لگے کہ یہ اس کی آواز ہے — اور جب خاموش ہو، تو اس خاموشی میں بھی سب کی رضامندی شامل ہو۔ریاستیں قوانین سے نہیں، رضامندی سے بنتی ہیں۔ آئین، پارلیمان، عدالتیں — یہ سب اسی وقت باوقار ہوتے ہیں جب ان کے پیچھے اختیار کی حقیقی تقسیم ہو، اور اس تقسیم میں ہر قوم، ہر خطہ، اور ہر شہری اپنے آپ کو شریک سمجھے۔ جب تک یہ احساس نہیں ہوگا، پاکستان کسی بھی بحران سے مکمل باہر نہیں نکل سکتا — چاہے وہ سیاسی ہو، اقتصادی، یا سماجی۔اب وقت آ چکا ہے کہ ریاست خود سے سچ بولے۔ خود کو کثیر القومیتی حقیقت کے طور پر تسلیم کرے۔ اپنی اکائیوں کو قومی درجہ دے۔ مرکز کے اختیارات محدود کرے۔ ضلعی حکومتوں کو آئینی درجہ دے۔ اور گلگت بلتستان و آزاد کشمیر کو مکمل داخلی خودمختار ریاستیں مانے۔ یہی وہ بنیادی آئینی ترمیم ہے جس کے بغیر ہر دوسری اصلاح ایک وقتی پیوند ہے، جو اگلی حکومت، اگلے بحران یا اگلے جرنیل کے قدموں میں کچلا جائے گا۔یہ سچ تلخ ہے، لیکن ضروری ہے۔
