آج کی تاریخ

لیاقت پور پولیس چرس سکینڈل، انکوائری مکمل، سخت کاروائی کی سفارش، اہلکار عہدوں پر برقرار

لیاقتپور(نامہ نگار) پنجاب اور خیبر پختونخوا پولیس اہلکاروں کا گٹھ جوڑ بےنقاب، آر پی او بہاولپور کی انکوائری ٹیم نے 19 کلو گرام چرس کے مقدمہ کو حقائق کے برعکس قرار دیتے ہوئے تھانہ سٹی لیاقت پور کے ایس ایچ او، تفتیشی سب انسپکٹر اور اے ایس آئی سمیت 7 اہلکاروں کے خلاف سخت کارروائی کی سفارش کر دی ۔تفصیل کے مطابق 14 جولائی کو تھانہ لیاقت پور میں پشاور کے رہائشی محمد اعجاز خان کے خلاف مقدمہ نمبر 821/25 درج کیا گیا جس میں الزام تھا کہ ملزم کو لیاقت پور تھانہ کی حدود فرید شاہ موڑ سے 18 کلو 9 سو گرام چرس، کمپیوٹر کنڈا، چھری اور چرس کی فروخت سے کمائے گئے 1850 روپے سمیت گرفتار کیا گیا ہے۔ مذکورہ کارروائی منیر خان اے ایس آئی کی قیادت میں ظاہر کی گئی ۔مقدمہ کے گواہان بھی پولیس اہلکار ہی تھے ۔پولیس ترجمان کی طرف سے اس مقدمہ بارے باتصویر پریس ریلیز جاری کی گئی جس میں یہ نہیں بتایا گیا کہ مبینہ ملزم اتنی بھاری مقدار میں چرس کہاں سے لایا اور کس مقامی ڈرگ ڈیلر کو سپلائی کر رہا تھا۔ اس مشکوک مقدمہ کی بابت آر پی او بہاولپور نے فوری نوٹس لےکر انکوائری ریجنل انویسٹیگیشن برانچ بہاولپور کے سپرد کی جس کے انچارج ایس پی نے دن رات کی چھان بین، حقائق و واقعات کا جائزہ لینے اور جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کے بعد اپنی رپورٹ میں بتایا کہ ملزم محمد اعجاز کو تھانہ یکہ توت پشاور کے ایس ایچ او اجمل حیات نے 13 جولائی دن کے وقت پشاور شہر سے گرفتار کیا ۔تین چار گھنٹے اپنے تھانہ کی حوالات میں رکھا بعد ازاں اسے پولیس حراست میں تھانہ سٹی لیاقت پور ضلع رحیم یارخاں کے ایس ایچ او سہیل اصغر کے پاس بھجوایا جس نے اے ایس آئی منیر احمد کے ذریعے اعجاز پر 18 کلو 900 گرام چرس برآمدگی کا مقدمہ درج کیا ۔تھانہ لیاقت پور کے تفتیشی سب انسپکٹر شیخ محمد علی نے ملزم کو ریمانڈ جسمانی چالان کیا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ تھانہ یکہ توت کے ایس ایچ او اجمل حیات نے کسی خاص پلاننگ کے تحت محمد اعجاز کو پشاور سے تھانہ سٹی لیاقت پور کے پی پولیس حراست میں بھجوایا تمام معاملہ میں ایس ایچ او لیاقت پور سہیل اصغر، تفتیشی آفیسر شیخ محمد علی، ریڈنگ پارٹی اے ایس آئی منیر احمد، ڈرائیور کانسٹیبل اللہ دتہ، کانسٹیبلان ناصر حسین، محمد وسیم اور شان اقبال کی مجرمانہ پیشہ ورانہ غفلت و لاپروائی سامنے آئی ہے ان کا یہ فعل قابل مواخذہ ہے۔ رپورٹ میں تھانہ یکہ توت کے ایس ایچ او اجمل حیات کے خلاف متعلقہ فورم پر تحریرکئے جانے جبکہ مقدمہ مذکورہ کی تفتیش تبدیل کرنےکیلئے معاملہ ڈسٹرکٹ سٹینڈنگ بورڈ رحیم یارخان کو بھجوانے کی سفارش کی گئی ہے۔ واضح رہے کہ انکوائری کے دوران ملزم اور ریڈنگ پارٹی کی موبائل فونز کی سی ڈی آرز بھی نکلوائی گئیں جن سے پولیس اہلکاروں اور ملزم کی جائے وقوعہ پر موجودگی ظاہر نہیں ہوئی۔ واضح رہے کہ اس انسانیت دشمن اور ظالمانہ انتقامی مقدمہ بارے پریس کلب (ر) لیاقت پور نے بھی قرارداد منظور کر کے کارروائی کا مطالبہ کیا تھا ۔علاوہ ازیں قصوروار قرار دیئے گئے تمام افسران و اہلکاران بدستور اپنے عہدوں پر کام کر رہے ہیں۔ دوسری طرف انکوائری رپورٹ میں سرکل آفیسر لیاقت پور ڈی ایس پی فخر زمان کی پیشہ ورانہ اہلیت و نااہلی، غفلت اور کردار کے علاوہ چرس کے حصول بارے کوئی نقطہ نہیں اٹھایا گیا کہ اتنی بھاری مقدار میں چرس کہاں سے خرید کر ملزم پر ڈالی گئی۔

شیئر کریں

:مزید خبریں