بہاولپور (کرائم سیل) اوچ شریف اقرادہشتگردی کیس، اوچ پولیس کا ون فائیو کی کال پر پہنچنا، اقرا کے والد محمد شفیق کا کانسٹیبل کو جان سے مار دینے کی خاطر ڈنڈا مارنے کا دعویٰ جھوٹا نکلنے کے بعد ایس پی انویسٹی گیشن کی پریس کانفرنس میں اقراکے خاندان پر پولیس کی جانب سے پیش کیا جانے والا کریمنل ریکارڈ بھی فرضی نکلا۔ 2009 میں ہونے والے مقدمات کا ریکارڈ پولیس صحافیوں کے طلب کرنے کے باوجود پیش نہ کر سکے جبکہ 2019 سے لے کر 2023 تک ہونے والے چھ میں سے چار مقدمات میں بااثر خواجہ مرید حسین کے ملازمین و منیجر مدعی نکلے جن میں متاثرین عدالتوں سے بری ہوچکے ہیں۔بروئے پڑتال ریکارڈ و علاقہ مکینوں کے مطابق عرصہ دراز سے اقرا شفیق کے والد دادا اس رقبے کے قابض و مالک ہیں، جنہیں ایس پی انویسٹی گیشن اپنی پریس کانفرنس میں بار بار قبضہ مافیا اور ناجائز قابض ثابت کرنے کی کوششوں میں مصروف رہے۔ روزنامہ قوم کی کاوشیں آخرکار رنگ لانا شروع کر گئیں۔ اوچ شریف پولیس گردی کی گونج وفاقی دارالحکومت اسلام آباد تک سنائی دینے لگی اور اس وقت اقراشفیق کیس سوشل میڈیا پر ٹاپ ٹرینڈ بنا ہوا ہے، جہاں مختلف سیاسی و سماجی تنظیموں کے علاوہ اسلام آباد کے صحافیوں نے بھی پولیس کے ان اقدامات کو کھلی زیادتی قرار دیتے ہوئے مظلوم خاندان کو انصاف دلانے کے لیے میدان میں آ گئے ہیں۔گزشتہ روز فرید گیٹ چوک پر جماعت اسلامی نے شہریوں کی جانب سے دستخطی مہم کا آغاز کرتے ہوئے انصاف کے حصول کے لیے آخری حد تک جانے کا عندیہ دے دیا ہے۔ حیران کن عمل یہ ہے کہ آر پی او بہاولپور کی جانب سے کھلی کچہری میں مظلوم خاندان کے پیش ہونے کے بعد ایس پی انویسٹی گیشن جمشید شاہ کو انکوائری افسر مقرر کیا گیا، جنہوں نے جانبداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے پولیس افسران ایس ایچ او اور ڈی ایس پی احمد پور شرقیہ کو بطور پارٹی بنتے ہوئے کھلم کھلا سپورٹ کیا اور خواجہ مرید حسین کو مظلوم جبکہ اقراء شفیق کے خاندان کو ظالم ثابت کرنے کی کوششوں میں مصروف رہے۔اس ہائی پروفائل کیس کی سماعت اور انکوائری کے لیے وہ موقع پر بھی نہ گئے، جس کی نشاندہی روزنامہ قوم نے کی۔ تو ایس پی انویسٹی گیشن کے عملے نے گزشتہ روز متاثرہ محمد شفیق کو فون کر کے اپنے کاغذات لے کر ایس پی کے دفتر پہنچنے کا کہا۔ جب اس نے اپنی مصروفیت کا بتایا تو تھوڑی دیر بعد دوبارہ دفتر کے عملے نے محمد شفیق کو فون کیا کہ ایس پی صاحب موقع پر خود آ رہے ہیں اور سجاد سندھو اور ڈی ایس پی احمد پور شرقیہ کے ہمراہ موقع پر گے۔ اس پر محمد شفیق نے ویڈیو بیان جاری کرتے ہوئے مقامی پولیس پر عدم اعتماد کرتے ہوئے اعلان کیا کہ جب تک میری انکوائری میں صحافی، وکلاء اور جماعت اسلامی کے نمائندے میرے ساتھ نہیں ہوں گے، میں کسی قسم کے کاغذات بھی پولیس کو پیش نہیں کروں گا کیونکہ پولیس پر مجھے اعتماد نہیں۔یاد رہے کہ اس وقت روزنامہ قوم کی کاوشوں سے اقراء کیس سوشل میڈیا سمیت پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں ٹاپ ٹرینڈ بنا ہوا ہے، جس پر شہریوں سمیت دیگر مکاتبِ فکر کے لوگ پولیس کو شدید تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ اس میں ایس ایچ او، ڈی ایس پی کے ساتھ ساتھ پولیس کے انتظامی افسران کو بھی ان کی کھلم کھلا پولیس گردی پر سپورٹ کرنے پر حیرت کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا پولیس کی اس ظلم و ستم کی کارروائی کے بعد ایس ایچ او اور ڈی ایس پی کے علاوہ 25 روز سے ان کے غلط اقدامات کو سپورٹ کرنے والے انتظامی افسران کے خلاف بھی کوئی کارروائی ہوگی یا چھوٹے عملے کو بلی کا بکرا بنا کر بڑے افسران بچ جائیں گے۔
