آج کی تاریخ

کاروائی بے اثر، آن لائن جوا مافیا مضبوط، جنوبی پنجاب کے مختلف شہروں میں نیٹ ورک-کاروائی بے اثر، آن لائن جوا مافیا مضبوط، جنوبی پنجاب کے مختلف شہروں میں نیٹ ورک-ڈاکٹر بھابھہ کے کلاس فیلو پولیس افسر کی مداخلت، ڈاکٹر شازیہ کی آئی جی کو تفتیش تبدیلی درخواست-ڈاکٹر بھابھہ کے کلاس فیلو پولیس افسر کی مداخلت، ڈاکٹر شازیہ کی آئی جی کو تفتیش تبدیلی درخواست-بدکاری پر سہولتکاری کا پردہ، ڈاکٹر رمضان کا استعفیٰ ذاتی وجوہات قرار دیکر منظور، انکوائری ٹھپ-بدکاری پر سہولتکاری کا پردہ، ڈاکٹر رمضان کا استعفیٰ ذاتی وجوہات قرار دیکر منظور، انکوائری ٹھپ-میرا قائد عمران خان فوجی آپریشن کیخلاف تھا، ہم بھی اس کے خلاف ہیں،نو منتخب وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا محمد سہیل آفریدی-میرا قائد عمران خان فوجی آپریشن کیخلاف تھا، ہم بھی اس کے خلاف ہیں،نو منتخب وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا محمد سہیل آفریدی-ایران کا غزہ امن کانفرنس میں شرکت سے انکار، "اپنے عوام پر حملہ کرنے والوں کے ساتھ نہیں بیٹھ سکتے"، ایرانی وزیرِ خارجہ-ایران کا غزہ امن کانفرنس میں شرکت سے انکار، "اپنے عوام پر حملہ کرنے والوں کے ساتھ نہیں بیٹھ سکتے"، ایرانی وزیرِ خارجہ

تازہ ترین

پاکستان اور روس کے تعلقات میں نئی گرمجوشی

وزیرِاعظم پاکستان جناب محمد شہباز شریف اور روسی وفاق کے صدر جناب ولادیمیر پوٹن کے درمیان حالیہ ملاقات نے پاکستان اور روس کے تعلقات کو ایک نئی توانائی دی ہے۔ چین کے دارالحکومت بیجنگ میں ہونے والی اس ملاقات میں دونوں رہنماؤں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ باہمی تعاون کو تجارت، توانائی، دفاع، زراعت، فولاد، نقل و حمل اور علاقائی روابط سمیت مختلف شعبوں میں مزید فروغ دیں گے۔
یہ ملاقات ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے جب دنیا بڑی تیزی سے جغرافیائی تبدیلیوں سے گزر رہی ہے، اور طاقتوں کے مابین نئی صف بندیاں ہو رہی ہیں۔ پاکستان اور روس جیسے ممالک کے درمیان بڑھتا ہوا تعلق نہ صرف دوطرفہ سطح پر اہم ہے بلکہ خطے کے لیے بھی ایک توازن کا ذریعہ بن سکتا ہے۔
وزیرِاعظم شہباز شریف نے صدر پوٹن کی قیادت کو سراہتے ہوئے کہا کہ اُن کی ذاتی دلچسپی کی بدولت دونوں ممالک کے تعلقات میں گزشتہ چند برسوں میں نمایاں بہتری آئی ہے۔ اُنہوں نے یاد دلایا کہ گزشتہ سال قازقستان کے شہر آستانہ میں شنگھائی تعاون تنظیم (شنگھائی کوآپریشن آرگنائزیشن) کے اجلاس کے دوران دونوں رہنماؤں کی ملاقات کے بعد دونوں ممالک نے قریبی روابط کو فروغ دینے پر اتفاق کیا تھا، اور اس کے مثبت نتائج اب سامنے آ رہے ہیں۔
گزشتہ برس پاکستان اور روس کے درمیان تیل کی تجارت میں اضافہ ہوا، جو اس بات کی علامت ہے کہ دونوں ممالک تجارت کو سنجیدگی سے آگے بڑھا رہے ہیں۔ وزیرِاعظم نے اس پیش رفت کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان روس کے ساتھ اپنے تعلقات کو مزید وسعت دینا چاہتا ہے، اور یہ تعلقات باہمی اعتماد، برابری اور باہمی مفاد کے اصولوں پر استوار ہوں گے۔
روس کے صدر ولادیمیر پوٹن نے بھی پاکستان کو ایشیا میں ایک روایتی شراکت دار قرار دیتے ہوئے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان دیرینہ تعلقات کو مزید مضبوط کیا جانا چاہیے۔ اُنہوں نے دوطرفہ تجارت کو مزید وسعت دینے پر زور دیا اور کہا کہ اس مقصد کے لیے عملی اقدامات ناگزیر ہیں۔ صدر پوٹن نے پاکستان میں قدرتی آفات اور سیلاب کے نتیجے میں ہونے والے جانی و مالی نقصانات پر دلی افسوس کا اظہار کیا اور اس یقین کا اظہار کیا کہ وزیرِاعظم شہباز شریف کی قیادت میں پاکستان ان چیلنجز پر قابو پانے میں کامیاب ہو گا۔
دونوں رہنماؤں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ علاقائی روابط کو بہتر بنانے کے لیے بیلاروس، روس، قازقستان، ازبکستان، افغانستان اور پاکستان کے درمیان ایک تجارتی راہداری کا قیام ناگزیر ہے۔ یہ راہداری نہ صرف تجارت کو فروغ دے گی بلکہ خطے میں خوشحالی اور ہم آہنگی کا ذریعہ بھی بنے گی۔
یہ بات خوش آئند ہے کہ وزیرِاعظم پاکستان نے روس کے ساتھ تعلقات کو بھارت کے ساتھ روس کے تعلقات کے تناظر میں دیکھا مگر اُسے منفی مقابلے کی صورت میں لینے کے بجائے اسے تکمیلی (Complimentary) اور معاون (Supplementary) تعلقات کے طور پر پیش کیا۔ اس موقف میں ایک بالغ نظری اور تدبر کا پہلو نمایاں ہے، جو علاقائی سیاست میں پاکستان کے کردار کو متوازن اور مثبت سمت دیتا ہے۔
روس کی طرف سے شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں وزیرِاعظم پاکستان کو مدعو کیا جانا بھی ایک اہم علامت ہے، جو اس بات کی دلیل ہے کہ روس پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات کو محض رسمی نہیں بلکہ فعال اور عملی سطح پر لے جانا چاہتا ہے۔
یہ بھی قابل ذکر ہے کہ دونوں ممالک بین الاقوامی سطح پر — بالخصوص اقوامِ متحدہ جیسے اہم عالمی فورم پر — باہمی رابطے میں ہیں۔ پاکستان اس وقت اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کا غیر مستقل رکن ہے اور اس حیثیت میں روس کے ساتھ ہم آہنگی عالمی سیاست میں پاکستان کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے۔
یہ تعلقات محض دو ریاستوں کے درمیان نہیں بلکہ دو قیادتوں کی سوچ اور وژن کا مظہر بھی ہیں۔ وزیرِاعظم شہباز شریف نے صدر پوٹن کو ایک متحرک رہنما قرار دیا اور اُن کے ساتھ مل کر خطے میں امن، ترقی اور تعاون کے لیے کام کرنے کے عزم کا اظہار کیا۔
پاکستان اور روس کے بڑھتے ہوئے تعلقات جنوبی ایشیا میں ایک نئی سفارتی حکمت عملی کی نشاندہی کرتے ہیں۔ جہاں ایک طرف مغرب کے ساتھ تعلقات کی ایک طویل تاریخ موجود ہے، وہیں روس جیسے طاقتور ملک کے ساتھ بڑھتے ہوئے روابط پاکستان کے لیے توازن پیدا کرنے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔ یہ تعلقات نہ صرف اقتصادی بلکہ تزویراتی (Strategic) سطح پر بھی پاکستان کے مفادات کو تحفظ دے سکتے ہیں۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ ان تعلقات کو وقتی جذبات یا بین الاقوامی دباؤ سے متاثر ہوئے بغیر مستقل مزاجی سے آگے بڑھایا جائے۔ روس کی ٹیکنالوجی، توانائی اور دفاع کے شعبے میں مہارت، اور پاکستان کی جغرافیائی اہمیت اور افرادی قوت، دونوں ملکوں کے لیے باہمی فوائد کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔
پاکستان کو چاہیے کہ وہ روس کے ساتھ اپنے تعلقات کو محض تیل یا تجارت تک محدود نہ رکھے، بلکہ تعلیمی، سائنسی، ثقافتی اور عوامی سطح پر روابط کو بھی فروغ دے۔ دونوں ممالک کے عوام کے درمیان ہم آہنگی اور فہم و ادراک بڑھانے کے لیے تعلیمی تبادلوں، ثقافتی میلوں اور مشترکہ تحقیقی منصوبوں کا آغاز کیا جا سکتا ہے۔
آخر میں، اس ملاقات سے یہ تاثر ابھرتا ہے کہ پاکستان اور روس اپنے باہمی تعلقات کو محض رسمی اور بیانات کی حد تک نہیں رکھنا چاہتے بلکہ ایک ٹھوس، جامع اور دیرپا شراکت داری کی طرف بڑھنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اگر یہ عزم عملی اقدامات سے مزین ہو، تو یقیناً خطہ نہ صرف سیاسی طور پر متوازن ہو گا بلکہ معاشی ترقی کی نئی راہیں بھی کھلیں گی۔
یہ وقت ہے کہ پاکستان ایک متوازن خارجہ پالیسی کے ذریعے اپنے قومی مفادات کو بھرپور طریقے سے محفوظ کرے اور روس کے ساتھ تعلقات کو اسی وژن کے ساتھ آگے بڑھائے جو بیجنگ میں ہونے والی اس ملاقات میں جھلکتا ہے۔

شیئر کریں

:مزید خبریں