آج کی تاریخ

کاروائی بے اثر، آن لائن جوا مافیا مضبوط، جنوبی پنجاب کے مختلف شہروں میں نیٹ ورک-کاروائی بے اثر، آن لائن جوا مافیا مضبوط، جنوبی پنجاب کے مختلف شہروں میں نیٹ ورک-ڈاکٹر بھابھہ کے کلاس فیلو پولیس افسر کی مداخلت، ڈاکٹر شازیہ کی آئی جی کو تفتیش تبدیلی درخواست-ڈاکٹر بھابھہ کے کلاس فیلو پولیس افسر کی مداخلت، ڈاکٹر شازیہ کی آئی جی کو تفتیش تبدیلی درخواست-بدکاری پر سہولتکاری کا پردہ، ڈاکٹر رمضان کا استعفیٰ ذاتی وجوہات قرار دیکر منظور، انکوائری ٹھپ-بدکاری پر سہولتکاری کا پردہ، ڈاکٹر رمضان کا استعفیٰ ذاتی وجوہات قرار دیکر منظور، انکوائری ٹھپ-میرا قائد عمران خان فوجی آپریشن کیخلاف تھا، ہم بھی اس کے خلاف ہیں،نو منتخب وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا محمد سہیل آفریدی-میرا قائد عمران خان فوجی آپریشن کیخلاف تھا، ہم بھی اس کے خلاف ہیں،نو منتخب وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا محمد سہیل آفریدی-ایران کا غزہ امن کانفرنس میں شرکت سے انکار، "اپنے عوام پر حملہ کرنے والوں کے ساتھ نہیں بیٹھ سکتے"، ایرانی وزیرِ خارجہ-ایران کا غزہ امن کانفرنس میں شرکت سے انکار، "اپنے عوام پر حملہ کرنے والوں کے ساتھ نہیں بیٹھ سکتے"، ایرانی وزیرِ خارجہ

تازہ ترین

ایک نیا عالمی منظرنامہ اور پاکستان کا کردار

شنگھائی تعاون تنظیم کے حالیہ دو روزہ اجلاس، جو چین کے شہر تیانجن میں اختتام پذیر ہوا، نے دنیا کو ایک ایسے کثیرالجہتی منظرنامے کی جھلک دکھائی ہے جس میں خودمختار ریاستیں برابری کی بنیاد پر اکٹھی ہو سکیں، اور اس یک رُخی مغربی و یورپی مرکزیت والے ماڈل سے آگے بڑھیں جو دوسری جنگ عظیم کے بعد سے عالمی سیاست پر غالب ہے اور آج شدید دباؤ کا شکار ہے۔ یہ اجلاس اس بات کا اشارہ ہے کہ اب دنیا صرف مغربی طاقتوں کے ایجنڈے کے مطابق نہیں چلے گی، بلکہ ایک ایسا نظام ابھر رہا ہے جس میں ہر ملک کی رائے اور ہر خطے کے مفادات کو اہمیت دی جائے گی۔
یہ اجلاس نہ صرف عالمی سطح پر کثیرالجہتی تعاون کی علامت ہے بلکہ اس نے یہ بھی دکھایا کہ دو طرفہ تنازعات اور مختلف نقطہ ہائے نظر کو بھی اسی وسیع تر زاویے سے حل کیا جا سکتا ہے۔ اس کی ایک بڑی مثال تیانجن اعلامیہ ہے جس میں پاکستان میں جعفر ایکسپریس اور خضدار پر ہونے والے دہشت گرد حملوں کے ساتھ ساتھ پاہلگام واقعے کی بھی مذمت کی گئی۔ اس سے واضح پیغام دیا گیا کہ دہشت گردی کے خلاف مذمت کسی خاص ملک یا واقعے تک محدود نہیں ہونی چاہیے بلکہ ہر قسم کی دہشت گردی کو رد کرنا ہی اصولی مؤقف ہونا چاہیے۔ یہ امر پاکستان کے مؤقف کی توثیق ہے کیونکہ پاکستان ابتدا ہی سے پاہلگام حملے کی مذمت کر رہا تھا اور مسلسل اس امر پر زور دیتا رہا ہے کہ بیرونی عناصر اس کی سرزمین پر دہشت گردی کی سرپرستی سے باز رہیں۔ اس کے ساتھ ہی یہ بھی ظاہر ہوا کہ پاکستان کو عالمی سطح پر تنہا کرنے کی کوششیں ناکام ہو گئی ہیں۔
اعلامیے میں فلسطین کے محصور علاقے غزہ میں فوری جنگ بندی کا مطالبہ بھی کیا گیا اور اس خطے کی ’’تباہ کن انسانی صورتحال‘‘ کو اجاگر کیا گیا۔ ساتھ ہی ایران کے خلاف امریکی اور اسرائیلی جارحیت کی مذمت بھی کی گئی۔ یہ بات قابل غور ہے کہ اگر کوئی نیا عالمی نظام تشکیل پاتا ہے تو اس کی بنیاد انصاف اور بین الاقوامی قانون پر ہونی چاہیے۔ ان اصولوں کی خلاف ورزی کرنے والوں کی کھل کر مذمت ضروری ہے، جبکہ موجودہ نظام میں صورتحال اس کے برعکس ہے: مبینہ دشمنوں کو قانون اور فوجی طاقت کا نشانہ بنایا جاتا ہے جبکہ دوست ممالک کو سنگین جرائم کے باوجود کھلی چھوٹ دی جاتی ہے۔ اسرائیل کی جانب سے مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں جاری نسل کشی اس منافقت کی سب سے نمایاں مثال ہے۔
مغرب، بالخصوص امریکہ اور اس کے یورپی اتحادی (شمالی اوقیانوسی معاہدہ تنظیم یعنی نیٹو) شنگھائی تعاون تنظیم اور برکس جیسے گروپوں کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں کیونکہ یہ ان کے پرانے عالمی غلبے کو چیلنج کرتے ہیں۔ مغربی دنیا کو یہ بھی ناگوار گزرتا ہے کہ ان کے مخالف سمجھے جانے والے رہنما، جیسے ولادی میر پیوٹن یا مسعود پژشکیان، بین الاقوامی فورمز پر پروٹوکول کے ساتھ قبول کیے جاتے ہیں۔ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ انہی مغربی ممالک میں کئی رہنما اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نیتن یاہو کو، ان کے سنگین جرائم کے باوجود، نہایت عزت دیتے ہیں۔ اس کے برعکس روس اور چین، جو اس وقت زیادہ کثیرالجہتی عالمی نظام کے قیام کی قیادت کر رہے ہیں، اگرچہ مثالی نہیں، پھر بھی دنیا کے سامنے ایک ایسا تصور رکھتے ہیں جس میں بالخصوص ترقی پذیر خطوں کی آواز سنی جا سکے۔
پاکستان جیسے ممالک کو چاہیے کہ وہ ابھرتے ہوئے ان علاقائی اور عالمی فورمز سے بھرپور فائدہ اٹھائیں۔ تاہم یہ بھی ضروری ہے کہ ایک عالمی غلبہ رکھنے والے گروہ کی جگہ دوسرا نہ لے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ایک نیا اور انصاف پر مبنی عالمی نظام قائم ہو جس میں تمام ریاستوں کے سماجی، معاشی اور سیاسی حقوق کا احترام کیا جائے۔ مستقبل کا منظرنامہ ایسا ہونا چاہیے جہاں شنگھائی تعاون تنظیم یا برکس اور مغربی اتحاد کے درمیان ٹکراؤ نہ ہو، بلکہ تعاون اور اشتراک ہو۔ ترقی کا راستہ کسی شرط یا دباؤ کے بغیر سب کے لیے کھلا ہونا چاہیے۔
آج دنیا ایک اہم موڑ پر کھڑی ہے۔ مغرب کی یکطرفہ پالیسیاں، جنہوں نے دہائیوں تک عالمی سیاست کو یرغمال بنائے رکھا، اپنی ساکھ کھو رہی ہیں۔ اب وقت ہے کہ ایک ایسا عالمی نظام وجود میں آئے جس میں جنوبی ایشیا، مشرق وسطیٰ، افریقہ اور لاطینی امریکہ جیسے خطوں کو بھی وہی وقعت حاصل ہو جو یورپ اور امریکہ کو دہائیوں تک حاصل رہی۔ پاکستان کے لیے یہ ایک نادر موقع ہے کہ وہ اپنے تاریخی اور جغرافیائی کردار کو سمجھتے ہوئے نہ صرف خطے میں بلکہ عالمی سطح پر ایک مؤثر آواز بنے۔ شنگھائی تعاون تنظیم کے حالیہ اجلاس نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ اگر ریاستیں یکجہتی اور انصاف کی بنیاد پر اکٹھی ہوں تو دنیا میں طاقت کا توازن بدل سکتا ہے۔ یہی توازن مستقبل کی عالمی سیاست میں امن، ترقی اور مساوات کی ضمانت بن سکتا ہے۔
شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں سامنے آنے والی بحث اور اس کے اعلامیے نے ایک بار پھر یہ واضح کر دیا ہے کہ دنیا میں یک قطبی نظام اپنی گرفت کھو رہا ہے۔ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد امریکہ نے خود کو عالمی طاقت کے واحد مرکز کے طور پر پیش کیا، اور یورپی اتحادیوں کے ساتھ مل کر اس نے دنیا بھر کی سیاست، معیشت اور حتیٰ کہ ثقافت تک پر غلبہ قائم رکھنے کی کوشش کی۔ لیکن گزشتہ دو دہائیوں میں یہ غلبہ کمزور ہوتا جا رہا ہے۔ افغانستان میں بیس برس کے بعد رسوائی کے ساتھ پسپائی، عراق اور شام میں جنگوں کی تباہ کاریاں، اور یوکرین کے تنازعے میں پالیسی کی ناکامیاں سب اس بات کا ثبوت ہیں کہ مغربی طاقتیں اب اپنی پرانی حیثیت کھوتی جا رہی ہیں۔ اس خلا کو پر کرنے کے لیے چین اور روس آگے بڑھے ہیں اور انہوں نے ایشیائی اور عالمی سطح پر ایک ایسے نظام کی بنیاد رکھنے کی کوشش کی ہے جو زیادہ کثیرالجہتی ہو۔ شنگھائی تعاون تنظیم اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔
پاکستان کے لیے یہ موقع بہت اہم ہے۔ پاکستان ہمیشہ عالمی سیاست میں توازن قائم کرنے کی کوشش کرتا رہا ہے لیکن مغرب اور خاص طور پر امریکہ کے ساتھ تعلقات نے اکثر اسے یکطرفہ دباؤ میں مبتلا رکھا۔ اب جب دنیا میں ایک نیا طاقت کا محور ابھر رہا ہے تو پاکستان کے پاس یہ موقع ہے کہ وہ اپنی خارجہ پالیسی کو زیادہ خودمختار بنائے اور خطے کے دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات کو نئی بنیادوں پر استوار کرے۔ یہ حقیقت بھی نظر انداز نہیں کی جا سکتی کہ پاکستان کی معاشی بقا کے لیے چین اور وسط ایشیائی ممالک کے ساتھ تعاون لازمی ہے، اور شنگھائی تعاون تنظیم اس تعاون کو ادارہ جاتی شکل دینے کا بہترین فورم ہے۔
اس اجلاس میں دہشت گردی کے خلاف مشترکہ موقف اپنانا بھی پاکستان کے لیے کامیابی کی علامت ہے۔ طویل عرصے تک پاکستان پر یہ الزام لگایا جاتا رہا کہ وہ دہشت گرد گروہوں کو برداشت کرتا ہے، لیکن تیانجن اعلامیہ نے یہ پیغام دیا کہ پاکستان خود دہشت گردی کا شکار ہے اور اس کے خلاف عالمی سطح پر یکساں رویہ اپنانا ہوگا۔ یہ پیش رفت پاکستان کے مؤقف کی توثیق ہے اور اس سے ملک کی سفارتی تنہائی کے تاثر کو زائل کرنے میں مدد ملی ہے۔
فلسطین اور ایران کے حوالے سے بھی اعلامیہ غیر معمولی اہمیت رکھتا ہے۔ غزہ میں انسانی المیے کی کھلی نشاندہی اور فوری جنگ بندی کا مطالبہ اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ عالمی ضمیر جاگ رہا ہے۔ مغربی دنیا، بالخصوص امریکہ اور اس کے اتحادی، اسرائیل کی اندھی حمایت میں جو دوہرا معیار اختیار کیے ہوئے ہیں، وہ عالمی سیاست کو منافقت کا شکار بنائے ہوئے ہے۔ لیکن شنگھائی تعاون تنظیم جیسے فورمز اب اس تاثر کو توڑ رہے ہیں اور عالمی برادری کے سامنے یہ بات رکھ رہے ہیں کہ اگر دنیا کو پائیدار امن چاہیے تو انصاف کے اصولوں پر سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا۔
یہاں ایک اور پہلو بھی اہم ہے: عالمی طاقت کا توازن صرف عسکری یا سفارتی سطح پر نہیں بدل رہا بلکہ معاشی سطح پر بھی بڑی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ چین کا ’’بیلٹ اینڈ روڈ‘‘ منصوبہ، روس کے توانائی کے ذخائر، اور وسط ایشیا کے وسائل مل کر ایک ایسے نئے معاشی بلاک کی تشکیل کر سکتے ہیں جو مغربی اثرورسوخ کو محدود کرے۔ پاکستان اس جغرافیائی اور معاشی تبدیلی میں ایک کلیدی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ یہ خطہ وسط ایشیا کو بحیرہ عرب سے جوڑنے والا سب سے اہم دروازہ ہے۔ شنگھائی تعاون تنظیم کے پلیٹ فارم پر پاکستان اپنی اس حیثیت کو بہتر طریقے سے اجاگر کر سکتا ہے۔
تاہم اس نئے منظرنامے میں یہ خطرہ بھی موجود ہے کہ کہیں ایک سامراجی نظام کی جگہ دوسرا سامراجی نظام نہ لے لے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان اور دیگر ترقی پذیر ممالک کو اپنی پالیسیوں میں توازن اور خودمختاری برقرار رکھنی ہوگی۔ چین اور روس اگرچہ مغربی غلبے کو چیلنج کر رہے ہیں، لیکن ان کی اپنی پالیسیوں میں بھی ایسے پہلو موجود ہیں جو کمزور ممالک کے لیے مسائل پیدا کر سکتے ہیں۔ لہٰذا اصل مقصد یہ ہونا چاہیے کہ ایک ایسا عالمی نظام قائم ہو جس میں کسی بڑی طاقت کو دوسروں پر غلبہ حاصل نہ ہو بلکہ سب کے حقوق کو مساوی طور پر تسلیم کیا جائے۔
یہ بات بھی واضح ہے کہ مستقبل کی دنیا محاذ آرائی کی دنیا نہیں ہونی چاہیے۔ اگر شنگھائی تعاون تنظیم، برکس اور دیگر گروہ محض مغربی اتحاد کے مقابلے میں ایک نیا بلاک بناتے ہیں تو یہ دنیا کو ایک بار پھر تقسیم کر دے گا۔ اس کے بجائے دنیا کو ایسے راستے پر چلنا چاہیے جہاں سب بلاکس مل کر کام کریں اور ترقی کا سفر کسی شرط یا دباؤ کے بغیر سب کے لیے کھلا ہو۔ پاکستان کے لیے یہ ایک موقع ہے کہ وہ اس اصول کی وکالت کرے اور عالمی سطح پر اپنے کردار کو مثبت انداز میں متعین کرے۔
آخر میں، اس اجلاس نے ایک نئی حقیقت کی یاد دہانی کرائی ہے: دنیا اب پہلے جیسی نہیں رہی۔ مغربی بالادستی ٹوٹ رہی ہے، نئی طاقتیں ابھر رہی ہیں، اور عالمی عوام انصاف اور برابری کے مطالبات میں زیادہ بلند آواز ہو گئے ہیں۔ ایسے وقت میں پاکستان جیسے ممالک کے لیے دانشمندی یہی ہے کہ وہ اپنے قومی مفادات کو عالمی انصاف کے ساتھ ہم آہنگ کریں۔ یہی راستہ ہے جو نہ صرف پاکستان کو مضبوط کرے گا بلکہ عالمی سیاست میں بھی امن اور تعاون کے نئے دور کا آغاز کرے گا۔

شیئر کریں

:مزید خبریں