پاکستان میں قید و بند کا نظام ہمیشہ سے سوالات کی زد میں رہا ہے۔ غیر انسانی حالات، قیدیوں کی گنجائش سے کئی گنا زیادہ بھیڑ، اور صحت و صفائی کی ناقص سہولتیں ہمارے جیل خانوں کی پہچان بن چکی ہیں۔ مگر حال ہی میں سامنے آنے والے اعداد و شمار نے اس بدحالی کی ایک اور بھیانک تصویر پیش کی ہے۔ پنجاب ایڈز کنٹرول پروگرام کے مطابق راولپنڈی کی بدنامِ زمانہ اڈیالہ جیل میں سب سے زیادہ ایچ آئی وی مثبت قیدی موجود ہیں۔ 148 سے زائد قیدی اس موذی وائرس کا شکار ہیں۔ یہ محض ایک ادارے کا مسئلہ نہیں بلکہ ہمارے مجموعی صحت نظام، سماجی رویّوں اور پالیسی کی ناکامی کی عکاسی کرتا ہے۔اڈیالہ جیل جس کی گنجائش 2 ہزار سے بھی کم ہے، اس وقت 4 ہزار 300 سے زیادہ قیدیوں کو ٹھونسے ہوئے ہے۔ یہ صورت حال نہ صرف انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے بلکہ وبائی امراض کے پھیلاؤ کا بھی براہِ راست ذریعہ ہے۔ جیلیں دنیا بھر میں بیماریوں کے لیے ’’آب گاہ‘‘ سمجھی جاتی ہیں، مگر پاکستان میں یہ خطرہ کئی گنا بڑھ جاتا ہے کیونکہ ہمارے ملک کی تاریخ غیر محفوظ طبی طریقوں سے بھری ہوئی ہے۔ جراثیم سے آلودہ انجیکشن، غیر معیاری بلڈ بینکنگ، اور سرنج کے بے دریغ استعمال نے اس وائرس کے پھیلاؤ کو تیز تر کیا ہے۔یاد رہے کہ 2019 میں سندھ کے علاقے رتوڈیرو کا ہولناک سانحہ دنیا نے دیکھا، جہاں سینکڑوں بچے ایک ہی ڈاکٹر کی بار بار استعمال کی جانے والی سرنجوں کے سبب ایچ آئی وی میں مبتلا ہو گئے۔ اسی طرح غیر محفوظ جنسی تعلقات، ہجرت کرنے والے مزدوروں کی غیر محتاط زندگی اور معاشرتی بے توجہی نے اس وائرس کو پھیلانے میں بڑا کردار ادا کیا۔ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ منشیات استعمال کرنے والوں میں سے تقریباً 40 فیصد ایچ آئی وی مثبت ہیں اور تین چوتھائی افراد بار بار ایک ہی سرنج استعمال کرتے ہیں۔ یہ طرزِ عمل جیلوں کے اندر بھی اپنی جگہ بنا لیتا ہے، جہاں قیدی ایک دوسرے کے ساتھ سرنجیں بانٹنے یا غیر محفوظ تعلقات قائم کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔اگرچہ عمومی آبادی میں ایچ آئی وی کی شرح بظاہر صرف 0.1 فیصد ہے، لیکن عالمی اداروں کے اندازوں کے مطابق 2022 تک پاکستان میں 2 لاکھ 30 ہزار سے زیادہ افراد اس وائرس کے ساتھ زندگی گزار رہے تھے۔ یہ تعداد 2010 کے مقابلے میں ساڑھے تین گنا زیادہ ہے۔ اس تیزی سے بڑھتی وبا کے باوجود ہماری ریاستی پالیسیوں میں سنجیدگی اور تسلسل کی شدید کمی ہے۔معروف طبی جریدے “دی لینسٹ” نے حال ہی میں پاکستان کی پالیسی پر سخت تنقید کی۔ اس کے مطابق حکومت نے ایچ آئی وی سے متعلق زیادہ تر اقدامات غیر سرکاری تنظیموں کے حوالے کر رکھے ہیں جو غیر ملکی فنڈنگ پر چلتی ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ ریاست نے اس مسئلے کو اپنی ترجیحات میں شامل ہی نہیں کیا۔ زیادہ تر سہولتیں الگ الگ کلینکس میں محدود ہیں، جن پر نمایاں سائن بورڈز لگے ہوتے ہیں۔ لوگ بدنامی اور سماجی دباؤ کے خوف سے وہاں جانے سے کتراتے ہیں۔صورتحال یہ ہے کہ ایچ آئی وی کے شکار افراد میں سے صرف ایک تہائی کو ہی اینٹی ریٹرو وائرل علاج میسر ہے۔ بچاؤ پر خرچ ہونے والا بجٹ کم ہو رہا ہے جبکہ غیر ملکی امداد بھی سکڑتی جا رہی ہے۔ “گلوبل فنڈ” نے حال ہی میں 27 ملین ڈالر کی امداد کم کر دی، وجہ بتائی گئی کہ وسائل کم ہیں اور پاکستان میں فنڈز کے غلط استعمال کے شکوے موجود ہیں۔یہ سب کچھ اس حقیقت کو اجاگر کرتا ہے کہ ہمارے ملک میں صحت کے حوالے سے ’’کاغذی حکمت عملیاں‘‘ تو بہت ہیں، مگر عملی اقدامات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ پاکستان کا نیا ایڈز کنٹرول پلان 2026 تک نئے کیسز دو تہائی کم کرنے کا دعویٰ کرتا ہے، لیکن صوبائی صحت محکمے پہلے سے مختص شدہ فنڈز تک خرچ نہیں کر پاتے۔ اس وقت کئی صوبوں میں متاثرہ افراد کی ایک چوتھائی تعداد بھی اپنی بیماری سے واقف نہیں۔ جب تک تشخیص نہیں ہوگی، علاج اور بچاؤ کی بات ہی بے معنی ہے۔یہ سمجھنا بھی ضروری ہے کہ جیلوں میں صحت کی بہتری صرف قیدیوں کی فلاح کے لیے نہیں بلکہ پورے معاشرے کے تحفظ کے لیے ناگزیر ہے۔ جب یہ قیدی رہا ہو کر واپس اپنے خاندانوں اور محلّوں میں جاتے ہیں تو ان کے علاج نہ ہونے کی صورت میں وائرس کمیونٹی میں منتقل ہو سکتا ہے۔ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جو قیدیوں کی چار دیواری سے نکل کر پورے معاشرے کو لپیٹ میں لے لیتا ہے۔
ریاست کو فوری طور پر تین بنیادی اقدامات کرنے ہوں گے:
اول، جیلوں میں صحت کے نظام پر سرمایہ کاری کی جائے، تاکہ قیدیوں کو بنیادی علاج اور بچاؤ کی سہولت مل سکے۔دوم، ملک بھر میں محفوظ طبی طریقوں کو سختی سے نافذ کیا جائے۔ انجیکشن، خون کے عطیات اور آلات جراحی پر سخت نگرانی لازمی ہے۔سوم، ایچ آئی وی کے علاج اور بچاؤ کو عام صحت کے نظام میں ضم کیا جائے۔ الگ الگ کلینکس stigma (بدنامی) کو بڑھاتے ہیں۔ اگر یہ سہولت عام ہسپتالوں میں دی جائے تو مریض زیادہ اعتماد کے ساتھ علاج کرا سکیں گے۔ایچ آئی وی ایک بے رحم وائرس ہے۔ یہ نہ کسی قیدی کو معاف کرتا ہے، نہ کسی مزدور کو، نہ کسی بچے کو۔ اگر پاکستان نے اپنی حکمت عملی میں ٹھوس تبدیلیاں نہ کیں تو آنے والے برسوں میں یہ بیماری ایک بڑے قومی بحران کی شکل اختیار کر سکتی ہے۔ ہمیں یہ جان لینا چاہیے کہ صحت کے مسائل کو فلاحی تنظیموں یا غیر ملکی عطیات پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔ یہ ریاست کی اولین ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے شہریوں کی زندگیاں محفوظ بنائے۔وقت آگیا ہے کہ ہم اپنی جیلوں کو بیماریوں کے ڈیرے بنانے کے بجائے اصلاح اور صحت کے مراکز میں بدلیں۔ اگر ہم نے اب بھی غفلت برتی تو یہ وائرس نہ صرف قیدیوں بلکہ پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا۔
