پاکستان میں سیاسی معاملات جس انداز سے ریاستی طاقت کے استعمال سے وابستہ ہو چکے ہیں، وہ جمہوری اقدار، بنیادی حقوق اور قانون کی بالادستی پر ایک سنگین سوالیہ نشان بن چکے ہیں۔ سابق وزیرِاعظم عمران خان کے دو بھانجوں کی حالیہ گرفتاری ان واقعات کی تازہ ترین کڑی ہے جو سیاسی اختلاف کو مجرمانہ حیثیت دینے کے عمل کو جائز ٹھہرانے کی کوششوں کا حصہ معلوم ہوتے ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ قانون کی عملداری کے نام پر اگر استثنائی، غیر منطقی اور انتقامی اقدامات کیے جائیں، تو پھر قانون اور انتقام کے درمیان کیا فرق باقی رہ جاتا ہے؟جناح ہاؤس لاہور پر 9 مئی 2023 کو پیش آنے والے افسوسناک واقعات کے بعد درجنوں گرفتاریاں ہوئیں، مقدمات قائم کیے گئے، اور متعدد افراد کو سزائیں سنائی گئیں۔ لیکن ان واقعات کے 27 ماہ بعد، ان گرفتاریوں کا اچانک منظر عام پر آنا، وہ بھی ایسے افراد کے خلاف جن کے بارے میں اب تک کوئی ٹھوس قانونی دعویٰ نہیں کیا گیا تھا، شدید تشویش کا باعث ہے۔ انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان نے بجا طور پر سوال اٹھایا ہے کہ جب دیگر ملزمان کے مقدمات مکمل ہو چکے یا زیرِ سماعت ہیں، تو ان دو افراد کو اس قدر تاخیر سے حراست میں لینے کی منطق کیا ہے؟ اور یہ سوال صرف قانونی نہیں بلکہ اخلاقی، سیاسی اور سماجی نوعیت کا بھی ہے۔مزید حیرت انگیز بات یہ ہے کہ عمران خان کے ایک بھانجے کی گرفتاری سے متعلق لاہور پولیس کو خود بھی اس وقت تک علم نہ تھا جب تک یہ خبر میڈیا پر نہیں آ گئی۔ ایسی گرفتاری، جس کی بنیادی اطلاع ہی متعلقہ پولیس افسران کو نہ ہو، خود ایک غیر معمولی، بلکہ غیر آئینی طرزِ عمل کی نشاندہی کرتی ہے۔ اس نوجوان کی فیملی نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ واقعے کے وقت وہ چترال میں چھٹیاں گزار رہا تھا اور اس کی تصاویر بھی بطور ثبوت پیش کی گئی ہیں۔ ایسی صورت میں، اگر ریاست یا استغاثہ کے پاس کوئی قابلِ قبول ثبوت موجود ہیں تو ان کو عدالت کے سامنے پیش کیا جانا چاہیے، نہ کہ میڈیا کے ذریعے رائے عامہ پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی جائے۔ان گرفتاریوں کی ٹائمنگ خود ایک الگ کہانی سناتی ہے۔ پہلا نوجوان اس وقت گرفتار کیا گیا جب سپریم کورٹ نے عمران خان کو 9 مئی کے آٹھ مقدمات میں ضمانت دی؛ دوسرا اس وقت جب پہلا نوجوان جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کیا گیا۔ بظاہر یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ یہ گرفتاریاں سیاسی فیصلے کے ردعمل کے طور پر کی گئیں۔ یہ تاثر نہ صرف انصاف کی روح کے خلاف ہے بلکہ یہ ثابت کرتا ہے کہ قانون کو بطور ہتھیار استعمال کیا جا رہا ہے، بجائے اس کے کہ وہ غیر جانبداری کے ساتھ امن اور انصاف کو یقینی بنائے۔قانون کا تقاضا یہ ہے کہ وہ اندھا ہو — یعنی قانون کی نظر میں سب برابر ہوں، چاہے کوئی عام شہری ہو یا سابق وزیراعظم کا رشتہ دار۔ اگر کوئی شخص کسی جرم میں ملوث ہے، تو اسے ضرور قانون کے کٹہرے میں لایا جانا چاہیے، مگر اس عمل کی بنیاد ثبوت پر ہونی چاہیے، شک پر نہیں؛ قانون کے مطابق ہونی چاہیے، جذباتی دباؤ پر نہیں؛ اور شفاف ہونی چاہیے، خفیہ گرفتاریوں اور لاپتہ کیے جانے کے طریقۂ کار پر نہیں۔ریاست اگر 9 مئی کے واقعات کو “مثالی مقدمہ” بنا کر پیش کرنا چاہتی ہے، تو اسے قانون کی طاقت سے کرنا ہوگا، نہ کہ طاقت کے ذریعے قانون کو موڑ کر۔ قانون کی بالادستی کا مطلب صرف یہ نہیں کہ جرائم کو سزا دی جائے، بلکہ یہ بھی ہے کہ بے گناہوں کو سزا نہ دی جائے، اور انصاف صرف ہوتا ہوا ہی نہ ہو، ہوتا ہوا نظر بھی آئے۔ اگر ریاست طاقت کا استعمال کر کے اپنی ساکھ بحال کرنے کی کوشش کرے گی تو وہ ساکھ مزید مجروح ہوگی، کیونکہ جبر ہمیشہ بغاوت کو جنم دیتا ہے، اور غیر شفافیت ہمیشہ شک کو پختہ کرتی ہے۔ایسی کارروائیاں سیاسی طور پر بھی نقصان دہ ہوتی ہیں۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ہم نے بارہا دیکھا ہے کہ جب ریاست نے طاقت کا سہارا لے کر اپنے مخالفین کو دبانے کی کوشش کی، تو بالآخر وہی مخالفین عوامی ہمدردی کا مرکز بنے، اور ریاست کے بیانیے کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ عمران خان کے خلاف ریاست کی پالیسیوں پر تنقید کرنے والے اب یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ یہ صرف ایک شخص کا معاملہ نہیں رہا، بلکہ ہر اس فرد کا ہے جو کسی نہ کسی وقت نظام کے خلاف آواز بلند کرے گا۔عوامی سطح پر یہ تاثر تقویت پا رہا ہے کہ اگر آپ کسی طاقتور سیاسی مخالف کے رشتہ دار ہیں، تو آپ کی پرامن یا غیر متعلقہ سرگرمیاں بھی شک کی زد میں آسکتی ہیں۔ اگر چترال میں چھٹیاں گزارنے والا نوجوان دہشتگردی کے مقدمے میں نامزد کیا جا سکتا ہے، تو پھر کسی بھی شہری کو کسی بھی وقت کسی بھی بہانے سے اٹھایا جا سکتا ہے۔ یہ سوچ صرف بنیادی انسانی حقوق کے خلاف نہیں بلکہ آئینِ پاکستان کی شق 10-A، جو ہر شہری کو منصفانہ ٹرائل کی ضمانت دیتی ہے، کی خلاف ورزی ہے۔ریاست کی بلند تر ذمہ داری یہ ہے کہ وہ انصاف کا ماحول پیدا کرے، نہ کہ خوف کا۔ اگر قانون کا اطلاق انتخابی، جذباتی یا سیاسی بنیادوں پر کیا جائے گا، تو اس کا نتیجہ قانون کی بے توقیری، اداروں کی بے یقینی اور عوامی اعتماد کے انہدام کی صورت میں نکلے گا۔ ایسے اقدامات ایک کمزور اور غیر محفوظ ریاست کے آثار ہوتے ہیں، نہ کہ ایک باوقار جمہوری ملک کی علامت۔اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ سپریم کورٹ، پارلیمان، انسانی حقوق کے ادارے اور سول سوسائٹی مل کر ان معاملات پر آواز بلند کریں۔ اگر کوئی شخص مجرم ہے، تو اسے سزا دیجیے، مگر اگر کوئی شخص بے گناہ ہے تو اس کی آزادی چھیننا محض جبر ہے۔ اور جب جبر قانون کا لبادہ اوڑھ لے، تو پھر جمہوریت کی روح مر جاتی ہے۔آخر میں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ ریاستی طاقت کا اصل وقار اس وقت قائم ہوتا ہے جب وہ انصاف کے ساتھ استعمال ہو، نہ کہ سیاسی مظاہرہ بن کر اپنی ہی اخلاقی بنیادوں کو کھوکھلا کرے۔ 9 مئی کے واقعات یقینی طور پر ناقابلِ قبول تھے، مگر ان کا جواب ایسے طریقے سے دیا جائے جو آئین، قانون، اور انصاف کے دائرے میں ہو۔ بصورت دیگر، ایک غلطی کو دوسری غلطی سے درست کرنے کی کوشش صرف بداعتمادی اور انتشار کو بڑھائے گی۔ اور پاکستان مزید کسی تجربے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
