کسی بھی جمہوری معاشرے کی بنیاد شفافیت، جوابدہی اور مالی دیانت داری پر استوار ہوتی ہے۔ ترقی پذیر جمہوریتوں میں، جہاں ریاستی ادارے ابھی مکمل استحکام کی طرف گامزن ہوتے ہیں اور حکومتی نظام میں بدعنوانی کے سائے لمبے ہوتے ہیں، وہاں عوامی نمائندوں اور سرکاری ملازمین کی مالی شفافیت اور اثاثہ جات کی درست معلومات کی دستیابی ایک ناگزیر تقاضا ہے۔ پاکستان جیسے ملک میں، جہاں تاریخ مالی بدعنوانیوں اور مفادات کے ٹکراؤ کے واقعات سے بھری پڑی ہے، وہاں شفافیت سے پیچھے ہٹنا نہ صرف جمہوری اصولوں سے انحراف ہے بلکہ عوامی اعتماد کے ساتھ بددیانتی بھی ہے۔ایسے میں قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے پارلیمانی امور میں انتخابات ایکٹ کی شق 138 میں مجوزہ ترمیم پر ہونے والی حالیہ بحث نہایت اہمیت کی حامل ہے۔ پیپلز پارٹی کے دو اراکین کی جانب سے پیش کی گئی یہ ترمیم، جسے ن لیگ اور تحریک انصاف کے بعض ارکان نے چیلنج کیا، نہ صرف ایک قانونی تبدیلی کی کوشش ہے بلکہ اس کا اثر پاکستان میں جمہوری ارتقا کے رخ پر بھی پڑے گا۔ مجوزہ ترامیم کے تحت الیکشن کمیشن کی جانب سے ہر سال عوامی نمائندوں کے اثاثہ جات کی تفصیل کی اشاعت کو محدود کیا جائے گا، اور اس بات کا فیصلہ کہ کتنا مواد عوام کے سامنے آئے، متعلقہ اسمبلی کے اسپیکر یا چیئرمین سینیٹ کی صوابدید پر چھوڑ دیا جائے گا۔یہاں یہ سوال جنم لیتا ہے کہ کیا عوامی عہدہ رکھنے والے افراد کو اپنی مالی تفصیلات کو عوام کی نظر سے اوجھل رکھنے کا حق حاصل ہونا چاہیے؟ کیا عوامی خدمت کے منصب پر فائز افراد کو یہ رعایت دی جا سکتی ہے کہ وہ خود ہی طے کریں کہ عوام کو ان کے مالی معاملات سے کتنی آگاہی ہونی چاہیے؟ اور سب سے بڑھ کر، کیا یہ ترمیم جمہوریت کے بنیادی اصولوں — شفافیت، جوابدہی اور اعتماد — سے انحراف نہیں ہوگی؟پاکستان کی سیاسی تاریخ ایسے واقعات سے بھری ہوئی ہے جن میں منتخب نمائندے اور اعلیٰ سرکاری عہدے داران مالی بدعنوانیوں، کرپشن، اور مفادات کے ٹکراؤ میں ملوث پائے گئے۔ ان میں سے بیشتر معاملات کی جڑیں اسی مالی غیر شفافیت میں پیوست تھیں، جہاں اثاثوں کی تفصیلات یا تو مکمل نہیں تھیں، یا دستیاب ہی نہیں کی گئیں۔ ایسی فضا میں جہاں عوامی ادارے پہلے ہی سوالات کی زد میں ہوں، وہاں شفافیت کو مزید کمزور کرنا جمہوریت کو کمزور کرنے کے مترادف ہے۔یہ دلیل دی جا رہی ہے کہ مجوزہ ترمیم “عوامی مفاد اور فرد کی نجی زندگی کے تحفظ کے درمیان توازن” قائم کرنے کے لیے کی جا رہی ہے۔ بظاہر یہ نکتہ پرکشش معلوم ہوتا ہے، مگر اس کے پس منظر میں چھپی نیت پر نظر ڈالیں تو معاملہ کچھ اور دکھائی دیتا ہے۔ عوامی نمائندے، جنہیں ووٹ دے کر عوام منتخب کرتے ہیں، کسی عام شہری کی طرح صرف ذاتی فرد نہیں ہوتے؛ وہ عوامی اعتماد کے امین ہوتے ہیں۔ جب کوئی شخص اپنی نجی زندگی کی حفاظت کو جواز بنا کر عوامی منصب سے وابستہ جوابدہی سے بچنا چاہے تو یہ ایک خطرناک رجحان کا آغاز ہوتا ہے، جو وقت کے ساتھ اداروں کی شفافیت اور عوامی اعتماد کو مکمل طور پر کھوکھلا کر سکتا ہے۔ترقی یافتہ جمہوریتوں میں عوامی نمائندوں کے اثاثے نہ صرف ظاہر کیے جاتے ہیں بلکہ ان کی جانچ پڑتال بھی باقاعدہ ادارے کرتے ہیں۔ امریکہ، برطانیہ، کینیڈا، جرمنی اور دیگر جمہوری ممالک میں، شفافیت کو محض ایک رسمی ضرورت نہیں سمجھا جاتا بلکہ ایک جمہوری اخلاقی فریضہ سمجھا جاتا ہے۔ وہاں کے عوام یہ حق رکھتے ہیں کہ وہ جان سکیں کہ ان کے نمائندے کتنے اثاثے رکھتے ہیں، کہاں سے آمدنی آتی ہے، اور کیا ان کے فیصلے ذاتی مفاد پر مبنی تو نہیں۔ پاکستان جیسے ملک میں، جہاں سیاست اور دولت کا گٹھ جوڑ عرصہ دراز سے موجود ہے، وہاں اس قسم کی شفافیت اور جانچ پڑتال کی ضرورت اس سے کہیں زیادہ ہے۔یہ دلیل کہ اس ترمیم سے عوامی نمائندوں کی نجی زندگی محفوظ ہو گی، دراصل ایک دھوکہ ہے۔ جب کوئی فرد عوامی خدمت کے میدان میں داخل ہوتا ہے، تو اسے اس بات کے لیے تیار ہونا چاہیے کہ اس کی زندگی اب مکمل طور پر نجی نہیں رہی۔ عوام کا یہ بنیادی حق ہے کہ وہ جان سکیں کہ ان کے منتخب کردہ نمائندے کتنے دیانت دار اور شفاف ہیں۔ اگر کسی کو مالی جانچ پڑتال سے مسئلہ ہے، تو اسے نجی شہری کی حیثیت سے زندگی گزارنے کا اختیار مکمل حاصل ہے۔ مگر جب وہ عوامی وسائل، عوامی اعتماد، اور عوامی اختیارات سے فائدہ اٹھانے کی پوزیشن میں ہو، تو اسے جوابدہی سے مفر نہیں ہونا چاہیے۔یہ کہنا بھی بے بنیاد ہے کہ شفافیت عوامی نمائندوں کو خطرے میں ڈالتی ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو دنیا بھر میں جمہوریتیں شفافیت کی طرف پیش رفت نہ کرتیں بلکہ اس سے پیچھے ہٹ جاتیں۔ حقیقت یہ ہے کہ غیر شفافیت، کرپشن کو جنم دیتی ہے، اداروں کو کمزور کرتی ہے، اور عوامی مایوسی کو بڑھاتی ہے۔ پاکستان میں پہلے ہی سیاسی نظام پر بداعتمادی کی فضا قائم ہے، اور اگر اس قسم کی ترامیم نافذ ہو گئیں تو عوام کا یقین مزید متزلزل ہو گا۔اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ موجودہ قانون، جو کہ ہر سال عوامی نمائندوں کو اپنے اثاثے اور واجبات ظاہر کرنے کا پابند کرتا ہے، پر مزید سختی سے عملدرآمد کروایا جائے، نہ کہ اس میں نرمی لائی جائے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے ان معلومات کی اشاعت عوامی مفاد کے تحفظ کے لیے ایک ضروری اقدام ہے، اور اسے کسی بھی صورت محدود نہیں کیا جانا چاہیے۔ اس کے بجائے یہ لازم ہونا چاہیے کہ تمام سرکاری و نیم سرکاری ملازمین، بشمول سول و عسکری بیوروکریسی، اپنے اثاثوں کی تفصیلات شفاف انداز میں پیش کریں، تاکہ ملک میں ایک عمومی مالی دیانت داری کا ماحول قائم ہو سکے۔افسوس کی بات یہ ہے کہ جو افراد اور جماعتیں خود کو جمہوریت کے علمبردار کہتے ہیں، وہی ایسے اقدامات میں پیش پیش ہیں جو جمہوریت کی روح کو مجروح کرتے ہیں۔ منتخب نمائندوں کو چاہیے کہ وہ شفافیت میں سب سے آگے ہوں، تاکہ وہ دوسروں کے لیے مثال بن سکیں۔ جب وہ خود اثاثے چھپائیں گے، یا انہیں محدود حد تک ظاہر کریں گے، تو یہ پیغام جائے گا کہ شفافیت ایک بوجھ ہے، نہ کہ ایک اصول۔پاکستان کو اگر حقیقی معنوں میں ایک صاف اور جوابدہ جمہوری ریاست بنانا ہے تو اسے ایسے اقدامات سے گریز کرنا ہو گا جو شفافیت کی راہ میں رکاوٹ بنیں۔ یہ ملک اب مزید تجربات، خفیہ معاہدوں، اور ادارہ جاتی کمزوریوں کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ جمہوریت کا مطلب محض انتخابات کا انعقاد نہیں بلکہ ایک ایسا نظام ہے جس میں ہر سطح پر جوابدہی موجود ہو، اور جہاں عوام کو معلوم ہو کہ ان کے نمائندے کس سطح کی دیانت داری کے ساتھ فرائض انجام دے رہے ہیں۔عوامی دفتر ایک امانت ہے۔ یہ ذاتی ملکیت نہیں کہ جسے جیسے چاہا استعمال کیا جائے۔ اس کی حیثیت اس اعتماد کی ہے جو ایک عام ووٹر اپنے نمائندے کو سونپتا ہے۔ جب یہ اعتماد بدعنوانی، غیر شفافیت، یا قانونی موشگافیوں کے ذریعے ٹوٹتا ہے، تو جمہوریت کے وجود پر سوالیہ نشان لگ جاتا ہے۔یہی وقت ہے کہ پارلیمان اور تمام سیاسی جماعتیں اپنے رویے پر نظر ثانی کریں، اور یہ طے کریں کہ آیا وہ ایک ایسی جمہوریت کی داعی ہیں جو مضبوط اداروں، کھلی حکمرانی، اور مالی دیانت پر قائم ہو، یا وہ اس جمہوریت کو محض اقتدار تک رسائی کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ اگر واقعی جمہوری اصولوں سے وفاداری کا دعویٰ سچ ہے، تو شفافیت کی راہ میں حائل ہر مجوزہ ترمیم کو مسترد کیا جائے، اور موجودہ قوانین کو مزید مضبوط بنایا جائے۔پاکستان کے عوام اب باشعور ہو چکے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ مالی شفافیت، اچھی حکمرانی کی کنجی ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ جو کچھ چھپایا جاتا ہے، اس میں کچھ نہ کچھ گڑبڑ ضرور ہوتی ہے۔ اور وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ جن لوگوں کو ان کے ٹیکسوں سے مراعات، تنخواہیں، پروٹوکول، اور طاقت ملتی ہے، وہی لوگ سب سے پہلے جوابدہ ہونے چاہییں۔یہ عوامی دباؤ ہی ہے جو ان ترامیم کو روکے گا۔ اور یہی دباؤ جمہوریت کو کمزور نہیں، بلکہ مضبوط کرے گا۔ شفافیت پر سمجھوتہ، عوامی اعتماد کی توہین ہے — اور جمہوریت عوام کے اعتماد کے بغیر صرف ایک خالی ڈھانچہ ہے۔
