پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان تعلقات کی تاریخ ایک پیچیدہ اور جذباتی پس منظر رکھتی ہے۔ 1971 کے سانحے کے بعد دونوں ممالک کے درمیان سفارتی سطح پر اگرچہ تعلقات قائم رہے، لیکن ایک طویل عرصے تک ان میں وہ گرمجوشی اور اعتماد پیدا نہ ہو سکا جو دو برادر اسلامی ممالک کے درمیان ہونا چاہیے تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ مختلف حکومتوں نے ان تعلقات کو بہتر بنانے کی کوشش کی، مگر تاریخی تلخیاں، باہمی شکوے، سیاسی ترجیحات، اور داخلی حالات اکثر ان کوششوں کے راہ میں رکاوٹ بنتے رہے۔تاہم حالیہ دنوں میں خطے کی بدلتی ہوئی سیاسی و معاشی صورت حال، اور عوامی سطح پر باہمی تعاون کی خواہش نے ایک نیا رخ اختیار کیا ہے۔ اسی تناظر میں پاکستان کے نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار کا بنگلہ دیش کا حالیہ دورہ ایک غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔ یہ دورہ اس لیے بھی تاریخی ہے کہ گزشتہ 13 برسوں میں کسی بھی پاکستانی وزیر خارجہ نے بنگلہ دیش کا دورہ نہیں کیا تھا۔ اس طویل تعطل کے بعد اسحاق ڈار کا دو روزہ دورہ، اور اس کے دوران طے پانے والے معاہدات، دونوں ممالک کے درمیان ایک نئے باب کا آغاز قرار دیے جا رہے ہیں۔ڈھاکہ میں قیام کے دوران اسحاق ڈار نے بنگلہ دیش کے چیف ایڈوائزر پروفیسر محمد یونس سے ملاقات کی اور دو طرفہ، علاقائی اور بین الاقوامی امور پر تبادلہ خیال کیا۔ ان ملاقاتوں میں خاص طور پر علاقائی تعاون کے امکانات، نوجوانوں کے مابین روابط، تجارتی تعاون، اور تاریخی روابط کی بحالی پر زور دیا گیا۔ پاکستان کے دفتر خارجہ کی جانب سے جاری کردہ بیانات کے مطابق ان بات چیتوں کا ماحول نہایت خوشگوار اور تعمیری تھا، جو اس امر کی نشاندہی کرتا ہے کہ دونوں ممالک مستقبل میں باہمی روابط کو ایک سنجیدہ اور پائیدار بنیاد فراہم کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔اس دورے کا سب سے اہم پہلو وہ چھ معاہدے تھے جن پر پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان دستخط ہوئے۔ ان میں سفارتی اور سرکاری پاسپورٹ رکھنے والوں کے لیے ویزا فری انٹری کا معاہدہ شامل ہے، جو دونوں ممالک کے درمیان سفارتی آمد و رفت کو سہل بنائے گا اور اعتماد سازی کے عمل میں ایک مثبت قدم ہوگا۔ اسی طرح تجارت کے فروغ کے لیے مشترکہ ورکنگ گروپ کے قیام کا معاہدہ، خارجہ سروس اکیڈمیوں کے درمیان تعاون، سرکاری خبر رساں اداروں کے درمیان شراکت داری، اسٹریٹجک اسٹڈیز کے اداروں کے مابین علمی روابط، اور ثقافتی تبادلے کا پروگرام ان اقدامات میں شامل ہے جن کا مقصد دونوں ممالک کے مختلف شعبوں میں قریبی تعاون کو فروغ دینا ہے۔یہ معاہدے اس امر کی عکاسی کرتے ہیں کہ دونوں ممالک اب ماضی کے تلخ اور پیچیدہ بیانیے سے آگے بڑھ کر مستقبل کی طرف دیکھنے پر آمادہ ہیں۔ خاص طور پر تعلیم اور نوجوانوں کے میدان میں پاکستان کی جانب سے ’’پاکستان-بنگلہ دیش نالج کوریڈور‘‘ کے آغاز کا اعلان، ایک دور اندیش قدم ہے۔ اس منصوبے کے تحت آئندہ پانچ سالوں میں 500 بنگلہ دیشی طلبا کو پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کے لیے اسکالرشپس دیے جائیں گے، جن میں سے ایک چوتھائی میڈیکل کے شعبے کے لیے مختص ہوں گے۔ اس کے علاوہ 100 بنگلہ دیشی سول سرونٹس کے لیے تربیتی پروگرامز کا انعقاد بھی کیا جائے گا۔یہ اقدامات محض رسمی یا نمائشی نہیں، بلکہ ان کی عملی افادیت طویل المدتی ہے۔ جب طلبا، سرکاری افسران، محققین، اور میڈیا نمائندگان ایک دوسرے کے ملکوں میں وقت گزاریں گے، وہاں کی زبان، ثقافت، اور سماجی نظام کو سمجھیں گے، تو باہمی اعتماد کی فضا خودبخود پیدا ہوگی۔ اسی طرح تعلیمی اداروں اور میڈیا کے درمیان اشتراک دونوں ممالک کی عوام کو ایک دوسرے کے بارے میں ایک زیادہ متوازن، حقیقت پسندانہ، اور مثبت تاثر فراہم کرے گا۔اسحاق ڈار کی ڈھاکہ میں موجودگی کے دوران انہوں نے مختلف سیاسی رہنماؤں سے ملاقاتیں کیں، جن میں سابق وزیر اعظم اور بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کی چیئرپرسن خالدہ ضیا، جماعتِ اسلامی کے امیر ڈاکٹر شفیق الرحمٰن، اور نیشنل سٹیزنز پارٹی کے وفود شامل تھے۔ ان ملاقاتوں سے یہ تاثر واضح ہوتا ہے کہ پاکستان صرف حکومتی سطح پر نہیں، بلکہ بنگلہ دیش کی وسیع سیاسی قیادت کے ساتھ رابطہ اور مکالمہ چاہتا ہے۔ خاص طور پر جماعت اسلامی کے رہنما سے ملاقات ایک علامتی اہمیت رکھتی ہے، کیونکہ ماضی میں جماعت اسلامی اور پاکستان کے تعلقات کو بعض حلقوں میں مشکوک نگاہوں سے دیکھا جاتا رہا ہے۔ اب جبکہ دونوں ممالک نئے تعلقات کی بنیاد رکھ رہے ہیں، تو ایسے رابطے قومی سطح پر مفاہمت کے نئے در وا کر سکتے ہیں۔ڈھاکہ میں پاکستانی ہائی کمشنر کی جانب سے دیے گئے استقبالیے میں اسحاق ڈار نے خطاب کرتے ہوئے بنگلہ دیش کے عوام کے لیے نیک تمناؤں کا اظہار کیا اور کہا کہ پاکستان، بنگلہ دیش کے ساتھ ایک “تعاون پر مبنی اور مستقبل کی جانب دیکھنے والا رشتہ” قائم کرنے کا خواہاں ہے۔ انہوں نے اس امر پر زور دیا کہ دونوں ممالک کی تاریخ، روایات، اسلامی ورثہ، اور ادبی و سماجی اقدار میں گہری مماثلت ہے، جسے بنیاد بنا کر تعلقات کو آگے بڑھایا جا سکتا ہے۔یہ دورہ ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب بنگلہ دیش کی سیاسی فضا میں غیر یقینی کی کیفیت کم ہو رہی ہے۔ پچھلے سال عوامی بغاوت کے نتیجے میں شیخ حسینہ کی حکومت کے خاتمے کے بعد، نئی عبوری حکومت نے داخلی و خارجی پالیسی میں کچھ مثبت تبدیلیوں کا عندیہ دیا ہے۔ انہی بدلتے رجحانات کا اثر یہ دورہ بھی ہے، جس میں دو طرفہ تعلقات کو بہتر بنانے کا واضح عزم دکھائی دیتا ہے۔پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان تجارت اور معیشت کے شعبے میں بھی نئی راہیں کھلتی دکھائی دے رہی ہیں۔ اسحاق ڈار اور وفاقی وزیر تجارت جام کمال خان نے بنگلہ دیش کے کمرشل ایڈوائزر اور مالیاتی اداروں کے نمائندوں سے ملاقاتیں کیں جن میں تجارت، سرمایہ کاری، اور بینکنگ کے شعبے میں تعاون پر بات ہوئی۔ خاص طور پر ٹیکسٹائل، سیاحت، اور خوراک کے شعبوں میں اشتراک کے امکانات پر غور کیا گیا، جو دونوں ممالک کی معیشتوں کے لیے مفید ثابت ہو سکتے ہیں۔ان ملاقاتوں میں شرکت کرنے والوں میں بنگلہ دیش کے نیشنل بورڈ آف ریونیو، بنگلہ دیش بینک، ٹریڈ اینڈ ٹیرف کمیشن، وزارت تجارت، ٹیکسٹائل، اور سیاحت کے اعلیٰ حکام شامل تھے۔ ان سطحی رابطوں کا مطلب ہے کہ دونوں ممالک صرف بیانات پر اکتفا نہیں کر رہے، بلکہ عملی میدان میں بھی آگے بڑھنے کے لیے سنجیدہ ہیں۔باہمی تعلقات کی بحالی اور فروغ کے ساتھ ساتھ، دونوں ممالک نے علاقائی اور عالمی مسائل پر بھی مشترکہ مؤقف اختیار کرنے کی خواہش ظاہر کی۔ اس دورے کے دوران سارک کو دوبارہ فعال کرنے، فلسطین اور روہنگیا کے مسائل پر انسانی بنیادوں پر اقدامات کرنے پر بات کی گئی۔ پاکستان اور بنگلہ دیش دونوں خطے کے اہم ممالک ہیں، اور اگر یہ دونوں ممالک مشترکہ طور پر جنوبی ایشیا کے مسائل پر مؤثر پالیسی اپنائیں تو پورے خطے میں مثبت اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ادھر پاکستان کی جانب سے اس امر کا عندیہ دیا گیا ہے کہ وہ ستمبر یا اکتوبر میں بنگلہ دیش کے ساتھ مشترکہ اقتصادی کمیشن کا اجلاس منعقد کرنے پر آمادہ ہے، جس کا آخری اجلاس تقریباً دو دہائیاں پہلے ہوا تھا۔ اس بات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اب دونوں ممالک سنجیدگی سے ان ادارہ جاتی روابط کو بحال اور فعال کرنا چاہتے ہیں جو ماضی میں تعطل کا شکار رہے۔اگر اس پورے دورے کا تجزیاتی جائزہ لیا جائے تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اسحاق ڈار کا بنگلہ دیش کا دورہ محض ایک سفارتی سرگرمی نہیں تھا، بلکہ ایک گہری اسٹریٹجک سوچ کے تحت انجام دیا گیا عمل تھا۔ اس میں تعلیم، معیشت، سفارت کاری، میڈیا، سیاست، اور ثقافت جیسے تمام اہم شعبوں کو شامل کیا گیا، اور دونوں ممالک نے مستقبل کے تعاون کے لیے ایک واضح اور بامعنی خاکہ ترتیب دیا۔یہ امر قابلِ ستائش ہے کہ اس دورے میں صرف اعلیٰ حکام سے ملاقاتوں تک اکتفا نہیں کیا گیا بلکہ معاشرے کے مختلف طبقات — دانشوروں، صحافیوں، فنکاروں، سابق فوجی افسران، اور دیگر افراد سے بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔ اس طرح کے اقدامات ہی تعلقات کو محض حکومتی سطح تک محدود رکھنے کے بجائے عوامی سطح تک وسعت دیتے ہیں۔تاہم یہ بات بھی نظر انداز نہیں کی جا سکتی کہ یہ سب اقدامات اسی وقت دیرپا اور مفید ثابت ہو سکتے ہیں جب ان پر عملی طور پر تیزی سے اور خلوص نیت سے عمل درآمد کیا جائے۔ معاہدے، بیانات، اور منصوبے اس وقت تک کارآمد نہیں ہوتے جب تک ان کو نتیجہ خیز پالیسی میں نہ ڈھالا جائے۔ پاکستان اور بنگلہ دیش دونوں کو اب یہ ثابت کرنا ہوگا کہ وہ نہ صرف تعلقات کی بہتری چاہتے ہیں، بلکہ ان کے لیے عملی اقدامات کرنے کے لیے بھی تیار ہیں۔اس تناظر میں یہ دورہ ایک شروعات ہے، اختتام نہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ماضی کو یکسر فراموش کر دیا جائے، بلکہ یہ کہ ماضی سے سبق سیکھ کر ایک ایسا مستقبل تعمیر کیا جائے جس میں باہمی اعتماد، عزت، تعاون، اور ترقی کے اصول کارفرما ہوں۔ پاکستان اور بنگلہ دیش کے عوام کے درمیان فطری قربت، مشترک ثقافت، زبان اور مذہب کی بنیاد پر ایک مستحکم، پائیدار اور ہم آہنگ رشتہ ممکن ہے، بشرطیکہ قیادت اس کی سمت میں مسلسل سنجیدہ اقدامات کرے۔آخر میں یہ کہنا بجا ہوگا کہ وزیر خارجہ اسحاق ڈار کا ڈھاکہ کا دورہ نہ صرف ایک کامیاب سفارتی مشن تھا بلکہ ایک امید افزا اشارہ بھی ہے کہ برصغیر کے دو اہم مسلمان ممالک تلخیوں اور غلط فہمیوں کی دھند سے نکل کر روشن مستقبل کی طرف بڑھنے کے لیے تیار ہیں۔ اگر یہ عزم قائم رہے، اور عملی اقدامات اسی رفتار سے جاری رہیں، تو آنے والے برسوں میں پاکستان اور بنگلہ دیش نہ صرف اچھے دوست بن سکتے ہیں بلکہ پورے خطے کے لیے امن اور ترقی کا ماڈل بھی۔
