آج کی تاریخ

پاک،چین دوستی نئے مرحلے میں داخل

پاکستان اور چین کے مابین تعلقات ایک نئی جہت اختیار کر چکے ہیں۔ چینی وزیر خارجہ وانگ ای کا حالیہ دورۂ اسلام آباد نہ صرف دونوں ممالک کے درمیان دیرینہ دوستی کا عملی اظہار تھا بلکہ اس نے مستقبل میں تعلقات کو مزید وسعت دینے کے عزم کو بھی نمایاں کیا۔ وزیر اعظم شہباز شریف، صدر آصف علی زرداری، اور آرمی چیف فیلڈ مارشل عاصم منیر سے چینی وزیر خارجہ کی الگ الگ ملاقاتوں نے ایک مرتبہ پھر اس ناقابل تردید حقیقت کو واضح کر دیا کہ پاک-چین تعلقات وقتی یا مفاداتی نوعیت کے نہیں بلکہ ان کی بنیاد خلوص، اعتبار، اور وقت کی آزمائش سے گزرے ہوئے اعتماد پر قائم ہے۔
وزیر اعظم شہباز شریف نے ملاقات کے دوران جس بات پر سب سے زیادہ زور دیا، وہ چین-پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC) کا مستقبل تھا۔ ان کے بقول، CPEC نہ صرف پاکستان کی سماجی و اقتصادی ترقی کا ضامن ہے بلکہ علاقائی رابطے کو فروغ دینے میں بھی کلیدی کردار ادا کر رہا ہے۔ شہباز شریف کی جانب سے مختلف شعبوں — تجارت، زراعت، ٹیکنالوجی، صنعتی ترقی، اور معدنیات — میں چینی تعاون کی خواہش بھی اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ پاکستان اپنی معیشت کے احیاء کے لیے چین کو ایک قابل اعتماد اور اہم شراکت دار سمجھتا ہے۔
صدر آصف علی زرداری سے ملاقات میں وزیر خارجہ وانگ ای نے پاک-چین تعلقات کو نسل در نسل پروان چڑھنے والی دوستی قرار دیا۔ یہ جملہ محض سفارتی زبان کا حصہ نہیں، بلکہ دونوں ممالک کی تاریخی وابستگی، آزمائشوں میں ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے ہونے اور ہر سطح پر باہمی ہم آہنگی کا عکاس ہے۔ وانگ ای کا یہ کہنا کہ پاکستان اور چین کا مستقبل مشترک ہے، دراصل ایک وژن ہے — ایسا وژن جو صرف حکومتی سطح تک محدود نہیں بلکہ عوامی سطح پر بھی مقبول اور معتبر ہے۔
وانگ ای نے نہایت محتاط اور متوازن انداز میں یہ بھی واضح کیا کہ چین کے بھارت کے ساتھ تعلقات میں بہتری کا مطلب یہ نہیں کہ چین پاکستان کے ساتھ تعلقات کو ثانوی حیثیت دے رہا ہے۔ ان کا یہ کہنا کہ چین کی کسی بھی ملک کے ساتھ شراکت داری تیسرے فریق کے خلاف نہیں، نہایت بالغ نظری کا مظہر ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب جنوبی ایشیا میں سفارتی اتار چڑھاؤ جاری ہے، چین کی یہ پالیسی خطے میں استحکام کے لیے امید کی ایک کرن بن سکتی ہے۔
پاکستان کی جانب سے وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے بھی دوطرفہ تعلقات کی اہمیت اجاگر کی اور علاقائی امور پر چین کے مؤقف سے مکمل ہم آہنگی کا اظہار کیا۔ اقتصادی، تجارتی، اور سیکورٹی امور پر اتفاق رائے اس بات کا غماز ہے کہ دونوں ممالک کا باہمی تعاون محض جذباتی یا روایتی بنیادوں پر نہیں بلکہ عملی مفادات پر مبنی ہے۔ یہی وہ حقیقت ہے جو پاک-چین تعلقات کو دوسرے سفارتی رشتوں سے ممتاز کرتی ہے۔
CPEC کا تذکرہ اس دورے میں ایک مرتبہ پھر مرکزی حیثیت اختیار کر گیا۔ چینی وزیر خارجہ نے نہ صرف اس کی اہمیت کو تسلیم کیا بلکہ گوادر بندرگاہ کی ترقی، ML-1 منصوبے میں تیسرے فریق کی شمولیت کی حمایت، اور KKH کی ازسرنو تشکیل جیسے منصوبوں پر تعاون جاری رکھنے کا عہد بھی کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے پاکستان میں چینی شہریوں اور منصوبوں کی حفاظت کے لیے کیے گئے اقدامات کو سراہا اور پاکستان سے انسداد دہشت گردی کے شعبے میں مزید تعاون کی امید بھی ظاہر کی۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ چینی وزیر خارجہ کا یہ دورہ بھارت اور افغانستان کے بعد ہوا۔ یہ ترتیب بذات خود ایک سفارتی اشارہ ہے۔ جنوبی ایشیا میں جہاں امریکہ اور بھارت کے تعلقات میں پیچیدگیاں بڑھ رہی ہیں، پاکستان کی امریکہ سے بڑھتی ہوئی قربت بھی خطے میں طاقت کے توازن کو متاثر کر رہی ہے۔ ایسے وقت میں چین کا پاکستان کے ساتھ “آئرن کلاد” (Ironclad) شراکت داری کا اعادہ، دونوں ممالک کے مابین تعلقات کی مضبوطی کا واضح ثبوت ہے۔
وانگ ای کے اس بیان نے خاصی توجہ حاصل کی کہ “موجودہ عالمی سیاسی ماحول نے پاک-چین شراکت داری کی اہمیت کو پہلے سے زیادہ نمایاں کر دیا ہے”۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ جب دنیا میں معاشی و سیاسی بلاکس بن رہے ہیں، اس وقت چین اور پاکستان جیسے ممالک کی باہمی انحصار پر مبنی شراکت داری ایک قابل تقلید ماڈل کے طور پر ابھر سکتی ہے۔
اس دورے کا ایک اور اہم پہلو جنوبی ایشیا کو چین کے ترقیاتی وژن میں شامل کرنا تھا۔ وانگ ای کا یہ کہنا کہ “چین اور جنوبی ایشیائی ممالک قدرتی شراکت دار ہیں” دراصل خطے کے تمام ممالک کے لیے ایک کھلا پیغام ہے — کہ چین کا تعاون صرف ان ممالک کے لیے مخصوص نہیں جو اس کے قریبی اتحادی ہیں، بلکہ وہ پورے خطے کو ترقی، امن اور خوشحالی کے ایک جامع وژن کے تحت آگے لے جانا چاہتا ہے۔
پاکستان کے لیے یہ موقع اس لیے بھی اہم ہے کہ خطے میں چین کی دلچسپی پاکستان کے لیے اقتصادی، اسٹریٹجک، اور سفارتی مواقع پیدا کر رہی ہے۔ مگر ان مواقع سے فائدہ اٹھانے کے لیے پاکستان کو خود بھی داخلی سطح پر استحکام، شفاف حکمرانی، اور پالیسیوں کا تسلسل یقینی بنانا ہو گا۔ CPEC کا دوسرا مرحلہ صرف انفراسٹرکچر کی بہتری نہیں، بلکہ پاکستان کی معاشی خودمختاری کی طرف ایک ممکنہ قدم ہے — بشرطیکہ ہم اس موقع کو ذمہ داری، مہارت، اور دوراندیشی سے بروئے کار لائیں۔
موجودہ حالات میں جب دنیا بھر میں سفارتی محاذ آرائیاں بڑھ رہی ہیں، پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی خارجہ پالیسی میں توازن برقرار رکھتے ہوئے اپنے دیرینہ اتحادیوں پر انحصار کرے، مگر ساتھ ہی اپنی خودمختاری اور قومی مفادات کا بھی تحفظ کرے۔ چین کے ساتھ تعلقات کسی اور کے خلاف نہیں، بلکہ اپنے عوام کی بہتری کے لیے ہونے چاہئیں — اور یہی پیغام اس دورے سے ابھر کر سامنے آیا ہے۔
آخر میں یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ چینی وزیر خارجہ کا حالیہ دورہ نہ صرف ماضی کی یاددہانی تھا بلکہ مستقبل کے امکانات کی نوید بھی۔ یہ پاکستان کے لیے ایک موقع ہے کہ وہ اس شراکت داری کو محض سیاسی نعروں تک محدود نہ رکھے بلکہ اس سے عملی فوائد حاصل کرے۔ چین ایک ابھرتی ہوئی عالمی طاقت ہے، اور پاکستان کو اس کے ساتھ تعلقات کو مزید گہرا کرنے کے لیے سنجیدہ، مستقل اور پالیسی پر مبنی کوششیں جاری رکھنی ہوں گی۔

شیئر کریں

:مزید خبریں