آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی حالیہ رپورٹ میں وفاقی وزارتوں اور محکموں میں مجموعی طور پر 376 ٹریلین روپے سے زائد مالی بے ضابطگیوں کا پتہ چلا ہے۔ رپورٹ کے مطابق کرپشن اور عوامی فنڈز کی خردبرد کی وجہ سے ساڑھے 6 ارب روپے کا براہِ راست نقصان ہوا ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سال 2024-25 کے دوران مالی بے ضابطگیوں میں سب سے زیادہ حصہ پیپرا قواعد کی خلاف ورزیوں سے 284 ٹریلین روپے کی نشان دہی ہوئی، جبکہ سسٹم کی کمزوریوں کے باعث 790 ارب روپے کے ٹیکس گیپ کا سامنا کرنا پڑا۔
مزید رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ واجبات کی عدم وصولی اور گردشی قرضے کے تصفیے میں ناکامی نے بھی سیکڑوں ارب روپے کا نقصان پہنچایا۔ ناقص سول ورکس کے باعث 85 ٹریلین روپے، واجبات اور ریکوری کے مسائل سے 2.5 ٹریلین روپے، اور سرکلر ڈیٹ کے تصفیے میں ناکامی سے 1200 ارب روپے کا خسارہ ریکارڈ ہوا۔
قوانین کی خلاف ورزیوں سے 958 ارب، کمزور داخلی کنٹرولز کی وجہ سے 677 ارب اور ناقص اثاثہ جات کے انتظام سے 678 ارب روپے کا نقصان ہوا۔ کنٹریکٹ مینجمنٹ کے مسائل 280 ارب، سروس ڈلیوری اور ویلیو فار منی میں کمی سے 73 ارب، حکومتی حصص کی وصولی میں ناکامی 47 ارب اور زمینوں کے غیر قانونی استعمال سے 44 ارب روپے کا نقصان ہوا۔
رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ زائد ادائیگی، غیر مجاز اخراجات اور ریکوری میں کمی نے مزید اربوں روپے کا بوجھ ڈالا جبکہ کچھ اداروں کی جانب سے آڈٹ ریکارڈ فراہم نہ کرنے سے 8 ارب روپے کی بے ضابطگی نوٹ کی گئی۔
آڈیٹر جنرل کی رپورٹ میں غیر محتاط سرمایہ کاری، کم ریونیو وصولی، ڈیزاسٹر مینجمنٹ میں خامیوں اور بینک اکاؤنٹس کی ناقص دیکھ بھال کے باعث بھاری مالی نقصانات کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔
