پاکستان اور بھارت کے درمیان کرکٹ ہمیشہ سے ایک ایسا موضوع رہا ہے جو کھیل سے بڑھ کر سیاست، سفارت کاری اور عوامی جذبات کی نمائندگی کرتا ہے۔ حال ہی میں بھارت کی وزارتِ کھیل نے اعلان کیا ہے کہ اب پاکستان اور بھارت کے درمیان کسی بھی سطح پر دو طرفہ کھیلوں کے تعلقات قائم نہیں ہوں گے، چاہے وہ نیوٹرل مقام پر ہی کیوں نہ ہوں۔ تاہم بھارت نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ وہ کثیرالملکی ایونٹس جیسے ایشیا کپ یا ورلڈ کپ میں پاکستان کے خلاف کھیلنے سے گریز نہیں کرے گا، کیونکہ یہ بین الاقوامی ذمہ داری کا حصہ ہیں۔ یہ پالیسی دراصل نئی دہلی کی اُس وسیع تر سیاسی سوچ کا عکس ہے جس کے تحت بھارت نے پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات کو محض کھیل نہیں بلکہ قومی سلامتی اور سفارتی پالیسی کا معاملہ بنا دیا ہے۔
دوسری طرف، پاکستان نے بھی حالیہ مہینوں میں بھارتی سرزمین پر کھیلے جانے والے کھیلوں میں شرکت سے قبل اپنی کھیلوں کی فیڈریشنز کو پابند کیا ہے کہ وہ حکومت سے اجازت لیں۔ اس کا جواز ’’سکیورٹی خدشات‘‘ بتایا گیا ہے۔ یہ بات ثابت کرتی ہے کہ دونوں ممالک میں کھیل کو اب کھیل نہیں سمجھا جا رہا بلکہ اسے ایک سفارتی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔
کرکٹ چونکہ برصغیر کے عوام کے جذبات سے سب سے زیادہ جڑی ہوئی کھیل ہے، اس لیے اس پر سب سے زیادہ اثرات بھی پڑتے ہیں۔ ماضی میں جب بھی دونوں ممالک کے تعلقات میں سرد مہری آئی، تو سب سے پہلے اس کا اثر کرکٹ پر پڑا۔ 2008 کے ممبئی حملوں کے بعد بھارت نے پاکستان کے ساتھ دو طرفہ کرکٹ مکمل طور پر ختم کر دی۔ اُس کے بعد سے پاک-بھارت کرکٹ صرف ورلڈ کپ، ایشیا کپ یا آئی سی سی ایونٹس تک محدود ہو گئی ہے۔
اب بھارت نے نئی پالیسی کے ذریعے اس غیر یقینی کیفیت کو مزید واضح کر دیا ہے کہ دو طرفہ سیریز کا مستقبل قریب میں کوئی امکان نہیں۔ اس فیصلے نے دونوں ممالک کے کرکٹ شائقین کو ایک بار پھر مایوس کیا ہے۔ لاکھوں لوگ جو کرکٹ کو کشیدگی کم کرنے اور عوام کو قریب لانے کا ذریعہ سمجھتے تھے، اب محسوس کرتے ہیں کہ کھیل بھی سیاست کا شکار ہو گیا ہے۔
سوال یہ ہے کہ اس فیصلے کا نقصان کسے ہوگا؟ حقیقت یہ ہے کہ نقصان دونوں جانب کے عوام اور کھیل کو ہوگا۔ کرکٹ کی دنیا میں پاک-بھارت مقابلوں کو سب سے زیادہ دیکھا جاتا ہے۔ ان میچوں کی ریٹنگ، اشتہارات، اور مالی فائدے دیگر تمام میچوں سے کہیں زیادہ ہوتے ہیں۔ شائقین کو وہ جوش و خروش ملتا ہے جو کسی اور مقابلے میں ممکن نہیں۔ لیکن اب یہ مواقع کم ہوتے جا رہے ہیں۔
کرکٹ کو اگر محض سفارتی تعلقات کے آئینے میں دیکھا جائے تو اس کا مطلب ہے کہ کھیل اپنی اصل روح کھو بیٹھے گا۔ کھیل کا مقصد قوموں کو قریب لانا، نوجوانوں کو صحت مند مقابلے کی فضا دینا اور امن کا پیغام عام کرنا ہے۔ لیکن اگر ہر بار سیاست کھیل پر حاوی ہوگی تو کھیل اپنی معنویت کھو دے گا۔
بھارت کی نئی پالیسی اس بات کا بھی عندیہ دیتی ہے کہ وہ اپنے آپ کو ایک بڑی اسپورٹس پاور کے طور پر دنیا میں پیش کرنا چاہتا ہے۔ بھارت میں عالمی سطح کے کئی ٹورنامنٹس ہو رہے ہیں، جیسے کرکٹ ورلڈ کپ اور اولمپکس کی میزبانی کی تیاری۔ بھارت یہ باور کرانا چاہتا ہے کہ وہ ایک ’’قابلِ اعتماد میزبان‘‘ ہے، جبکہ پاکستان کو اس کے برعکس ایک ’’خطرناک‘‘ ملک کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یہ سفارتی حکمت عملی بھارت کے بڑے سیاسی ایجنڈے کا حصہ ہے۔
پاکستان کے لیے یہ لمحہ فکر ہے۔ اگر کھیلوں میں بھی تنہائی بڑھتی گئی تو یہ عالمی سطح پر پاکستان کی ساکھ کے لیے نقصان دہ ہوگا۔ پاکستان کو چاہیے کہ وہ اپنی داخلی سکیورٹی کو بہتر بنا کر دنیا کو یہ پیغام دے کہ یہاں کھیل محفوظ ہیں۔ دوسری طرف، پاکستان کو اپنی سفارت کاری میں یہ مؤقف بھرپور انداز میں پیش کرنا ہوگا کہ کھیل کو سیاست سے الگ رکھا جائے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ دونوں ممالک کے عوام کرکٹ کے ذریعے قریب آتے ہیں۔ لاہور اور دہلی کے عوام میں نفرت نہیں بلکہ کھیل کے جذبے کے ذریعے ایک دوسرے کو سمجھنے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے۔ جب دونوں ٹیمیں میدان میں آمنے سامنے آتی ہیں تو دنیا کے سب سے بڑے ٹی وی ناظرین یہ مقابلے دیکھتے ہیں۔ یہی کرکٹ ہے جو دونوں قوموں کے درمیان نرم گوشہ پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
لیکن اگر کھیل کا دروازہ بند کر دیا جائے تو کشیدگی مزید بڑھے گی۔ کرکٹ کو ہمیشہ ’’کرکٹ ڈپلومیسی‘‘ کے طور پر دیکھا گیا ہے۔ جنرل ضیاء الحق کا بھارت کا کرکٹ میچ دیکھنے کے لیے جانا ہو یا مشرف دور میں دہلی ٹیسٹ میچ کا انعقاد—یہ سب اس بات کے ثبوت ہیں کہ کرکٹ دونوں ممالک کے تعلقات کو نرم کرنے میں کردار ادا کر سکتی ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا مستقبل میں حالات بدل سکتے ہیں؟ بظاہر بھارت کے اس فیصلے کے بعد فوری طور پر دو طرفہ سیریز کا امکان نہیں، لیکن کرکٹ کے شائقین کی طلب اور آئی سی سی جیسے اداروں کا دباؤ کسی وقت بھی صورت حال کو بدل سکتا ہے۔ خاص طور پر جب ورلڈ کپ یا ایشیا کپ میں پاک-بھارت میچز ہوتے ہیں تو وہ دنیا بھر کے میڈیا کی توجہ کا مرکز بن جاتے ہیں۔ اس وقت یہ دونوں ممالک کے لیے محض کھیل نہیں بلکہ سفارتی جنگ کا حصہ بن جاتے ہیں۔
پاکستان کو اس موقع پر ایک جامع پالیسی اختیار کرنی ہوگی۔ ایک طرف اپنی ساکھ کو بہتر بنانا اور عالمی سطح پر مثبت امیج پیش کرنا، دوسری طرف کرکٹ کے میدان میں اپنی کارکردگی بہتر بنا کر دنیا کو دکھانا کہ وہ اب بھی کھیل کے میدان میں ایک بڑی طاقت ہے۔
آخر میں یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ کھیل کو سیاست کا شکار بنانا دونوں ممالک کے عوام کے ساتھ ناانصافی ہے۔ پاک-بھارت کرکٹ صرف ایک کھیل نہیں بلکہ کروڑوں لوگوں کے خوابوں، جذبات اور امن کی امیدوں کا نام ہے۔ جب تک کھیل کو خالص کھیل کے طور پر نہیں لیا جائے گا، یہ امیدیں یوں ہی ٹوٹتی رہیں گی۔
