آج کی تاریخ

عدلیہ، فوج اور سیاست: پاکستان کی سیاسی فضا کا دھندلا منظر

پاکستان کی سیاست ایک بار پھر اس نہج پر کھڑی ہے جہاں عدالتوں کے فیصلے، فوج کے بیانات اور سیاست دانوں کی حکمتِ عملی ایک دوسرے کے متوازی چلتے دکھائی دیتے ہیں مگر کسی مقام پر ایک دوسرے سے ٹکراتے بھی ہیں۔ حالیہ دنوں میں دو اہم خبریں سامنے آئیں: پہلی، سپریم کورٹ کا سابق وزیراعظم عمران خان کو 9 مئی 2023 کے واقعات سے متعلق آٹھ مقدمات میں ضمانت دینا؛ اور دوسری، فوجی ترجمان کا یہ بیان کہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کسی سے معافی نہیں مانگی اور 9 مئی کے ملزمان کو بہرحال قانون کے مطابق جواب دہ ہونا ہے۔ یہ دونوں واقعات پاکستان کی موجودہ سیاسی فضا کی نہ صرف جھلک دکھاتے ہیں بلکہ اس بات کا اشارہ بھی دیتے ہیں کہ سیاسی منظرنامہ اب بھی دھندلا، غیر یقینی اور تناؤ سے بھرپور ہے۔
9 مئی کے واقعات پاکستان کی حالیہ تاریخ کے ایک نہایت سیاہ باب کی صورت اختیار کر چکے ہیں۔ عمران خان کی گرفتاری کے بعد ہونے والے مظاہرے محض احتجاج تک محدود نہ رہے بلکہ عسکری تنصیبات، سرکاری عمارتوں اور یہاں تک کہ لاہور کور کمانڈر کے گھر پر حملے کی صورت میں کھلی بغاوت کی جھلک دینے لگے۔ اس کے بعد ریاست نے سخت ردعمل دیا اور ہزاروں کارکنان، رہنما اور عام لوگ جیلوں میں ڈال دیے گئے۔ کئی رہنماؤں کو سزا ہوئی اور پارٹی کی تنظیمی ڈھانچے کو شدید نقصان پہنچا۔ عمران خان کے خلاف درجنوں مقدمات میں سے یہ پہلا موقع ہے کہ سپریم کورٹ نے انہیں ضمانت دے کر وقتی ریلیف فراہم کیا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ضمانت کو کسی سیاسی فتح کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے یا یہ صرف ایک قانونی سہولت ہے؟ حکومت کے وزرا کا مؤقف یہی ہے کہ ضمانت کا مطلب بریت نہیں اور مقدمات کا فیصلہ اب بھی ہونا باقی ہے۔
دوسری طرف فوج کا موقف قدرے دو ٹوک ہے۔ ترجمان نے واضح کیا کہ فوج کا معاملہ صرف ادارے کا نہیں بلکہ پوری قوم کا ہے اور 9 مئی کو جو کچھ ہوا اس پر معافی نہیں بلکہ حساب دینا ہوگا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ چند روز قبل ایک سینئر صحافی نے اپنے کالم میں دعویٰ کیا تھا کہ جنرل منیر نے برسلز میں گفتگو کے دوران سیاسی مفاہمت کو معافی کے ساتھ جوڑ کر پیش کیا تھا۔ اس بات کو فوجی ترجمان نے جھوٹ قرار دیا اور کہا کہ آرمی چیف نے نہ کوئی سیاسی بیان دیا اور نہ کسی سے معافی کا مطالبہ کیا۔ یہاں ایک تضاد نمایاں ہے: ایک طرف صحافتی حلقے یہ باور کرا رہے ہیں کہ سیاسی کشیدگی کو ختم کرنے کے لیے کوئی ’’سیاسی معافی‘‘ ناگزیر ہے، جبکہ فوج اس تاثر کو یکسر مسترد کر رہی ہے۔
یوں لگتا ہے کہ پاکستان کی سیاست ایک ایسے دوراہے پر ہے جہاں ہر فریق اپنی جگہ پر سخت گیر مؤقف اپنائے ہوئے ہے۔ تحریک انصاف عدالتوں سے ریلیف حاصل کرنے کو اپنی سیاسی کامیابی بنا کر پیش کر رہی ہے، جبکہ فوج اور حکومت اسے وقتی سہولت قرار دے کر عوام کو یاد دلا رہی ہیں کہ عمران خان اب بھی کئی بڑے مقدمات میں ملوث ہیں۔ ایسے میں عوامی سطح پر کنفیوژن مزید بڑھ رہا ہے۔ لوگ یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ کیا انصاف کا ترازو واقعی غیر جانب دار ہے یا یہ محض طاقتوروں کی رسہ کشی میں استعمال ہو رہا ہے۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان میں سیاست، عدلیہ اور فوجی ادارے ایک دوسرے پر مکمل اعتماد نہیں کر پاتے۔ عدالت ایک طرف ضمانت دیتی ہے مگر دوسری طرف یہ وضاحت بھی کرتی ہے کہ یہ فیصلہ مقدمے کے میرٹ پر اثرانداز نہیں ہوگا۔ فوجی ترجمان کہتے ہیں کہ ملزمان کو قانون کے مطابق سزا ملے گی، لیکن سیاسی جماعتیں اس میں بھی سیاسی مصلحتیں تلاش کرتی ہیں۔ حکومت چاہتی ہے کہ عمران خان کو سیاسی طور پر کمزور رکھا جائے، مگر عدالت کے فیصلے اسے بار بار نئی توانائی دیتے ہیں۔
یہ صورتحال پاکستان کے جمہوری سفر کے لیے نیک شگون نہیں۔ جب عدالت کا ہر فیصلہ سیاسی بیانیے کا حصہ بن جائے اور فوج کا ہر بیان سیاسی بحث کو جنم دے، تو اس کا مطلب یہی ہے کہ جمہوریت اپنی اصل روح میں پنپنے سے محروم ہے۔ جمہوریت میں ادارے اپنی اپنی حدود میں رہ کر کام کرتے ہیں: عدالت انصاف دیتی ہے، فوج ملک کا دفاع کرتی ہے اور سیاستدان پارلیمنٹ میں پالیسی سازی کرتے ہیں۔ لیکن پاکستان میں یہ خلط ملط نظام آج بھی برقرار ہے۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ عمران خان کا معاملہ صرف ان کی ذات تک محدود نہیں رہا۔ 9 مئی کے واقعات نے ریاست اور ایک بڑی سیاسی جماعت کے درمیان ایسا خلیج پیدا کر دیا ہے جسے پاٹنا آسان نہیں۔ فوج یہ کہتی ہے کہ وہ واقعات ایک ناقابل معافی جرم ہیں، جبکہ پی ٹی آئی یہ مؤقف رکھتی ہے کہ ان کے کارکنان پر جھوٹے مقدمات بنائے گئے اور حقیقی مجرم کوئی اور ہیں۔ اس کھینچا تانی میں عوام کے مسائل، معیشت کی بدحالی اور مہنگائی جیسے امور پس منظر میں چلے گئے ہیں۔
مستقبل کے حوالے سے بھی صورت حال تشویشناک ہے۔ اگر عدالتیں عمران خان کو مزید مقدمات میں ریلیف دیتی ہیں تو حکومت اور فوج کے لیے یہ ایک بڑا سیاسی چیلنج ہوگا۔ دوسری جانب اگر عدالتیں سخت رویہ اپناتی ہیں تو عمران خان اور ان کی جماعت ایک بار پھر سیاسی شہادت کا بیانیہ لے کر عوامی ہمدردی حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔ ایسے میں سب سے زیادہ نقصان جمہوری عمل اور عوامی اعتماد کو ہوگا۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان کے تمام ادارے اپنی حدود اور ذمہ داریوں کو سمجھیں۔ فوج کو چاہیے کہ وہ اپنی سیاسی بیانات کی وضاحتوں میں کم سے کم الجھے اور صرف سلامتی کے معاملات تک محدود رہے۔ عدالتوں کو چاہیے کہ اپنے فیصلوں کو غیر مبہم اور شفاف انداز میں سنائیں تاکہ انہیں سیاسی بیانیے کا حصہ نہ بنایا جا سکے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ اپوزیشن کو سیاسی میدان میں شکست دینے کے بجائے عوامی مسائل کے حل پر توجہ دے۔ اور سب سے بڑھ کر، سیاسی جماعتوں کو چاہیے کہ وہ الزام تراشی کے بجائے ایک دوسرے کو برداشت کرنے کی روایت ڈالیں۔
پاکستان کا مستقبل اسی وقت روشن ہو سکتا ہے جب ادارے اپنے دائرہ کار میں رہیں اور عوامی بھلائی کو مقدم رکھیں۔ بصورت دیگر، ضمانتوں اور معافیوں کے اس کھیل میں جمہوریت محض ایک دکھاوا رہ جائے گی اور عوامی مسائل جوں کے توں باقی رہیں گے۔

شیئر کریں

:مزید خبریں