پاکستان میں پولیو ایک ایسا زخم ہے جو تین دہائیوں سے بھرنے کا نام نہیں لے رہا۔ رواں سال اب تک اکیس معصوم بچے اس موذی مرض کی وجہ سے عمر بھر کی معذوری کا شکار ہو چکے ہیں۔ حالیہ دو کیسز کوہستان اور بدین میں رپورٹ ہوئے ہیں، اور یہ صرف اعداد و شمار نہیں بلکہ ہر کیس ایک پورے خاندان کی بربادی اور معاشرے کی ناکامی کا نشان ہے۔ یہ المیہ اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان دنیا کے صرف دو ممالک میں شامل ہے جہاں اب بھی پولیو وائرس موجود ہے۔ وہ بیماری جسے دنیا نے اجتماعی کوششوں سے جڑ سے اکھاڑ پھینکا، ہمارے ہاں اب بھی بچوں کے مستقبل کو تاریک بنا رہی ہے۔ یہ صرف صحت کا مسئلہ نہیں بلکہ حکمرانی کے پورے نظام کی ناکامی ہے۔
گزشتہ تیس برسوں میں اربوں ڈالرز پولیو کے خاتمے کے پروگرام پر خرچ کیے گئے۔ ہزاروں ہیلتھ ورکرز اپنی جانیں خطرے میں ڈال کر دور دراز علاقوں تک پہنچے، خاص طور پر ان خطوں میں جہاں بدامنی اور دہشت گردی کے سائے ہیں۔ کئی ورکرز کو اپنی جانوں کی قربانی بھی دینا پڑی، لیکن ان کی قربانیوں کے باوجود ہم کامیاب نہ ہو سکے۔ اس کی بنیادی وجہ سلامتی کے خطرات، کمزور انتظامی ڈھانچہ، ناقص احتساب، اور سب سے بڑھ کر ویکسین کے خلاف پھیلائی گئی غلط معلومات ہیں۔ نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ خود تسلیم کرتا ہے کہ اگرچہ کچھ پیش رفت ضرور ہوئی ہے لیکن اب بھی ایسے علاقے موجود ہیں جہاں ویکسین قبولیت انتہائی کم ہے اور بچے وائرس کے خطرے میں ہیں۔ حالیہ سرویلنس کے مطابق ایک تہائی سے زائد اضلاع کے گندے پانی میں پولیو وائرس پایا گیا ہے، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ ہماری جدوجہد کس قدر نازک اور کمزور ہے۔
مسئلہ یہ ہے کہ ہر ویکسینیشن مہم میں وہی پرانے مسائل دوبارہ سامنے آ جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر یکم سے 7 ستمبر کے درمیان ایک نئی مہم چلائی جا رہی ہے جس کا ہدف 99 اضلاع میں 2 کروڑ 80 لاکھ سے زائد پانچ سال سے کم عمر بچوں تک رسائی ہے، جبکہ جنوبی خیبر پختونخوا میں یہ مہم 15 ستمبر سے شروع ہوگی۔ لیکن جب تک کوریج میں موجود خلا کو پر نہیں کیا جائے گا، یہ مہمات بھی محض رسمی کارروائی بن کر رہ جائیں گی۔
سب سے بڑی رکاوٹ والدین کے خدشات ہیں۔ آج بھی ملک کے کئی حصوں میں یہ جھوٹی افواہیں پھیلائی جاتی ہیں کہ پولیو ویکسین غیر محفوظ ہے، بانجھ پن پیدا کرتی ہے یا مغربی سازش ہے۔ ایسے ماحول میں والدین اپنے بچوں کو قطرے پلانے سے ہچکچاتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ کئی ورکرز اپنی نوکری بچانے کے لیے جعلی اعداد و شمار رپورٹ کرتے ہیں، جس سے کوریج کے خلا مزید چھپ جاتے ہیں۔ دوسری طرف سیاسی رہنما ہر مہم کے آغاز پر بیانات تو دیتے ہیں لیکن نہ تو وہ عوام کو اعتماد میں لیتے ہیں اور نہ ہی صحت کے نظام کو مضبوط کرنے کے لیے کوئی عملی اقدام اٹھاتے ہیں۔
یہ صورتحال اس وقت اور بھی خطرناک ہو جاتی ہے جب ہم بنیادی سہولیات پر نظر ڈالیں۔ صاف پانی اور نکاسیٔ آب جیسی بنیادی ضروریات آج بھی ملک کے بیشتر حصوں میں ناپید ہیں۔ چونکہ پولیو وائرس فضلے سے پھیلتا ہے، اس لیے جب تک صاف پانی اور بہتر سینی ٹیشن میسر نہیں ہوگی، قطرے پلانے کی کوششیں بھی مکمل نتائج نہیں دے سکیں گی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پولیو کے خلاف جنگ صرف ویکسینیشن مہمات سے نہیں جیتی جا سکتی، بلکہ صحت عامہ کے پورے ڈھانچے کو درست کرنا پڑے گا۔
ریاست کو سب سے پہلے یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ یہ ناکامیاں محض تکنیکی نہیں بلکہ سیاسی بھی ہیں۔ محاذِ اول پر کام کرنے والے ورکرز کی جانوں کو محفوظ بنانا ریاست کی اولین ذمہ داری ہے۔ ان پر حملہ کرنے والوں کے خلاف سخت قانونی کارروائی ہونی چاہیے تاکہ معاشرے کو واضح پیغام ملے کہ ان ورکرز کو نشانہ بنانا ناقابلِ معافی جرم ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اعداد و شمار کو شفاف بنایا جائے تاکہ حقیقت سامنے آ سکے اور خامیاں دور کی جا سکیں۔ کمیونٹی رہنماؤں، علما اور اساتذہ کو شامل کر کے والدین کا اعتماد جیتنا بھی ضروری ہے، کیونکہ جب تک مقامی سطح پر حمایت نہیں ملے گی، قطرے پلانے والی ٹیمیں کامیاب نہیں ہو سکتیں۔
پولیو مہم کو معمول کے حفاظتی ٹیکوں اور صفائی ستھرائی کے منصوبوں کے ساتھ جوڑنے کی ضرورت ہے۔ اگر والدین دیکھیں گے کہ ریاست ان کے بچوں کی صحت کے لیے صرف پولیو پر نہیں بلکہ مجموعی صحت پر توجہ دے رہی ہے، تب ہی وہ اعتماد کے ساتھ تعاون کریں گے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان کے کئی حصوں میں صحت کے مراکز ویران ہیں اور بنیادی ادویات تک دستیاب نہیں۔ ایسے میں صرف پولیو ٹیموں کو بھیج دینا والدین کو قائل کرنے کے لیے کافی نہیں ہوگا۔
پاکستان مزید نسلوں کو اس لاعلاج مگر قابلِ انسداد بیماری کے سائے میں نہیں رکھ سکتا۔ یہ ہماری اجتماعی ناکامی ہے کہ دنیا پولیو کو ختم کر چکی ہے مگر ہم اب بھی اپنے بچوں کو معذوری کے حوالے کر رہے ہیں۔ اگر ہم نے ابھی فیصلہ کن اقدامات نہ کیے تو یہ بدنامی اور بوجھ آنے والی نسلوں تک منتقل ہوگا۔
اس کے لیے سب سے بڑھ کر سیاسی عزم کی ضرورت ہے۔ جب تک سیاسی قیادت اس مسئلے کو اپنی ترجیحات میں سرفہرست نہیں رکھے گی، نہ تو مستقل حکمتِ عملی بنے گی اور نہ ہی احتساب ہوگا۔ وقتاً فوقتاً مہمات کے بجائے ایک جامع پالیسی درکار ہے جس میں ویکسینیشن، صحت عامہ، تعلیم اور سماجی رویوں کو بیک وقت ایڈریس کیا جائے۔
پاکستان اس جنگ کو جیت سکتا ہے لیکن شرط یہ ہے کہ قیادت سنجیدہ ہو، اقدامات مستقل ہوں اور احتساب سخت۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ پولیو کا خاتمہ صرف عالمی دباؤ یا مالی امداد کے لیے نہیں بلکہ اپنی نسلوں کے مستقبل کے تحفظ کے لیے ناگزیر ہے۔ سیاسی اتفاقِ رائے، عوامی تعاون اور ریاستی ذمہ داری کے بغیر یہ خواب کبھی شرمندۂ تعبیر نہیں ہوگا۔ وقت آ گیا ہے کہ اس طویل المیے کا خاتمہ کیا جائے اور پاکستان کو اس بدنما داغ سے ہمیشہ کے لیے پاک کیا جائے۔
