کیا ہو رہا ہے۔۔۔۔۔۔۔ کیا ہونے جا رہا ہے (قسط دوم )

تحریر:طارق قریشی

عمران خان کچھ غلط اندازے کی غلطی کچھ اپنی طاقت بارے خوش گمانی تو کچھ اپنے دوست نما دشمنوں کی ہلا شیری سے سنگین غلطی کر گئے ۔ زبانی گولہ باری تو ایک سال سے جاری تھی۔ 9 مئی کو اپنی طاقت اور اسٹیبلشمنٹ کی طاقت بارے غلط اندازے کے ساتھ ساتھ اسٹیبلشمنٹ کے رد عمل بارے بھیانک غلطی نے عمران خان سے سب کچھ چھین لیا۔ اب ایک طرف عمران خان کو اپنی ٹوٹتی بکھرتی پارٹی کی بقا کا مسئلہ ہے تو دوسری طرف اپنی ذاتی بقاء کو لا حق سنگین خطرات کا سامنا ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ان تمام خطرات کے باوجود کچھ جفادری تجزیہ نگار یہ تصویر دکھا رہے ہیں کہ عمران خان کا ووٹر تو آج بھی عمران خان کے ساتھ کھڑا ہے ۔ یہ مفروضہ پیش کرنے والے پاکستان کی سیاسی تاریخ سے یکسر لا علم ہیں ۔ حسین شہید سہروردی محترمہ فاطمہ جناح اور خان قیوم خان ایک دور میں اس ملک کے مقبول ترین لیڈر تھے۔ تب نہ میڈیا تھا نہ سوشل میڈیا مگرسہروردی کو غیر ملک میں پناہ لینی پڑی تھی محترمہ فاطمہ جناح کے ساتھ جو سلوک ہوا اس کا ذکر کرنا بھی ایک شرمندگی کے سوا کچھ نہیں۔ خان قیوم نے بھی بد ترین سیاسی مفاہمت کے ذریعے ہی کچھ دن کی زندگی بچانے میں کامیاب ہو گئے۔ کوئی بھی کچھ بھی کہے میرا ذاتی تجزیہ یہ ہے کہ کم از کم آئندہ انتخابات میں عمران خان اور تحریک انصاف کامزید کوئی کردار نظر نہیں آ رہا۔ آئندہ انتخابات کا انعقاد خود ابھی ایک سوال ہے۔
جس پر موضوع کے اگلے حصے میں اس پر بات ہو گی۔ اسٹیبلشمنٹ اس وقت عمران خان کے بارے کیا سوچ رہی ہے۔ صرف دو واقعات آپ کے سامنے رکھتا ہوں کہ آپ کو اس بارے کچھ اندازہ ہو سکے۔ سابقہ اعلیٰ فوجی افیسر کی اہلیہ روبینہ جمیل تحریک انصاف کی جانب سے صوبائی اسمبلی کی ممبر تھیں۔ جناح ہاؤس کے حوالے سے مقدمے میں ان کا بھی نام تھا موصوفہ نے پہلے تو اس مقدمے کو ہی کھیل سمجھا نہ ضمانت کرائی نہ ہی اس حوالے سے بننے والے مقدمات بارے کوئی تفصیلات اکٹھی کرنے کی ضرورت سمجھی۔ ایک دن پولیس کی ایک گاڑی موصوفہ کو گرفتار کرنے گھر پہنچی تو کچھ سنگینی کا احساس ہوا گھر آنے والی پولیس پارٹی سے کچھ منت سماجت کچھ اثر و رسوخ کے ذریعے ایک دن کی مہلت لی گئی۔ اگلے دن بیگم صاحبہ نے ضمانت قبل از گرفتاری اس کیس میں کرا لی جس کے تحت پولیس انہیں گرفتار کرنے گھر پہنچی تھی۔ عبوری ضمانت تھی۔ جج صاحب نے کہا آپ شامل تفتیش ہو جائیں تو بعد میں ضمانت باقاعدہ طور پر منظور کی جا سکے گی۔ شام کو ممبر صوبائی اسمبلی اپنے ریٹائرڈ اعلیٰ آفیسر خاوندجو آج بھی ریٹائر ہونے کے بعدحساس ادارے کی ذیلی اتھارٹی کے سربراہ کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ سرکاری پروٹو کول کے تحت تھانے میں تفتیشی کے سامنے پیش ہو گئیں۔ فوری طور پر تفتیشی کے لیے حکم جاری کیا گیا کہ میرا بیان لکھیں تاکہ میں واپس گھر جائوں تھانے میں میں زیادہ دیر بیٹھ نہیں سکتی۔ بیان لکھوانے کے بعد جب موصوفہ نے واپس جانا چاہا تو انہیں بتایا گیا کہ آپ نے ایک کیس میں ضمانت کرائی ہے جبکہ آپ پر دیگر مقدمات بھی درج ہیں اس لیے آپ کو باقاعدہ گرفتار کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد تھانے میں جو ماحول بنا ہو گا اس کا اندازہ ہی کیا جا سکتا ہے۔ جب شوروغل سے کام نہ بنا تو دھمکی دی گئی کہ ابھی لاہور کے افسران آ کر مجھے بھی لے جائیں گے اور تمہاری نوکری بھی ختم ہو جائے گی۔ اس پر موصوفہ کو بتایا گیا کہ آپ کو حراست میں لینے کی باقاعدہ منظوری وہیں سے لی گئی ہے۔ جہاں سے آپ کو مدد کی توقع ہے۔ موصوفہ آج بھی جیل میں ہیں اور مقدمات کی تفتیش جاری ہے۔
دوسرا واقعہ اس سے بھی زیادہ چشم کشا ہے۔ پاکستانی فوج کے چند سینئر ترین ریٹائرڈ اعلی افسران جس میں ریٹائرڈ جرنیل بھی شامل تھے۔ سابق گورنر پنجاب جنرل خالد مقبول کی قیادت میں وقت لے کر آرمی چیف جنرل عاصم منیر سے ملاقات کے لیے پہنچے۔ یہ افسران جب یہ جرنیل تھے تو شاید آرمی چیف میجر یا لیفٹیننٹ کرنل کے عہدے پر ہی تعینات ہونگے۔ ان تمام ریٹائرڈ افسران کو یہ زعم تھا کہ ہم جو مشورہ بلکہ حکم دیں گے اس پر عمل ہو گا۔ ان سینئر افسران نے آرمی چیف کے سامنے عمران خان کی حمایت اور موجودہ حکومت کی مخالفت میں اپنے دلائل دیتے ہوئے آرمی چیف کو یہ قائل کرنے کی کوشش بھی کی عوام کیونکہ موجودہ حکومت کو اچھا نہیں سمجھتے اس لیے فوج عمران کا ساتھ دے۔ مقدمات ختم کرے اور انتخابات کرائے۔ آرمی چیف نے ان سینئر افسران کو چائے پلائی سکون سے ان کی بات سنی اختتام پر صرف اتنا کہا کہ سیاسی معاملات سے فوج کا کوئی لینا دینا نہیں۔ ہاں آرمی تنصیبات پر جس نے بھی حملہ کیا ہے اور کوئی بھی ہے اسے معاف نہیں کیا جائے گا۔ سینئر افسران کو آرمی چیف نے یہ مشورہ بھی دیا کہ اگر آپ بھی سیاست کرنا چاہتے ہیں تو فوج کا نام مت استعمال کریں اور کسی بھی جماعت میں شامل ہو کر باقاعدہ سیاست کریں ۔ان واقعات سے قارئین کرام کو یہ بات تو سمجھ آ گئی ہو گی کہ اس وقت کیا ہو رہا ہے۔

شیئر کریں

:مزید خبریں