آج کی تاریخ

بیانیے اور بانیوں کی کرشمہ سازی

شودر سے برہمن تک کا سفر(چھٹا حصہ) آخری قسط

تحریر: ڈاکٹر ظفر چوہدری

دسویں جماعت میں سہ ماہی اور نو ماہی امتحانات میں میری کارکردگی نویں جماعت کے سالانہ امتحان جیسی ہی رہی یعنی بس تیسری پوزیشن پر رہا۔ ماسٹر اعجاز حسین شاہ صاحب کی حوصلہ افزائی اور ماسٹر عبدالعزیز خان کی توجہ نے میرے اعتماد میں بہت زیادہ اضافہ کر دیا تھا۔اس سال کوئی خاص واقعہ تو نہ ہوا البتہ ضلعی ٹورنامنٹ میں فائنل ہارنے کا بہت افسوس ہوا مگر تعلیم کی طرف توجہ کی وجہ سے مجھے اسے بھلانے میں زیادہ وقت نہیں لگا۔ ماسٹر اعجاز حسین شاہ صاحب سے اتنی وابستگی ہوچکی تھی کہ وہ اپنی گھریلو زندگی بارے بھی بلا تکلف بات کر لیتے تھے۔ اعجاز حسین شاہ صاحب غیر معمولی صلاحیتوں کے مالک تھے اور غیر معمولی ذہانت اور صلاحیتوں والے افراد کو سمجھنا مشکل اور خاص طور بیگمات کیلئے آسان نہیں ہوتا۔ ماسٹر اعجاز حسین پرفیکٹرازم پر یقین رکھتے کسی بھی کام میں معمولی سی جھول بھی انہیں برداشت نہ تھی۔ خود اعلی اخلاقی اقدار، نظم نسق اور وقت کی پابندی کے قائل تھے جن پر ہماری خواتین اکثر پورا نہیں اترتی۔ بعد میں میں نے غیر معمولی ذہین لوگوں کی اکثریت کی ازدواجی زندگی کو اتنا خوشگوار نہیں پایا۔ خیر ان دنوں تو میں کوئی رائے دینے کے قابل نہیں تھا۔ شاید وہ اپنا کتھارسس ہی کرتے ہونگے۔ چونکہ وہ خود اعلی درجے کی رغبت رکھتے تھے یہی وجہ تھی کہ وہ نالائق طالب علم کو بالکل پسند نہیں کرتے تھے۔
جب دسویں جماعت کے سالانہ امتحانات ہوئے تو انہوں نے بھی بہت محنت کرائی۔ ہمارے برہمن گروپ کے طلباء کے درمیان صحت مند مقابلے کی فضا بن چکی تھی۔ انگلش ، اردو، اسلامیات جغرافیہ اور مطالعہ پاکستان میں کیونکہ پورے نمبر نہیں آتے تھے تو انہوں نے الجبرا پر خاص توجہ دی ہوئی تھی۔ اسی طرح سائنس کے مضامین کیمسٹری اور فزکس میں زیادہ سے زیادہ نمبر حاصل کئے جا سکتے تھے۔لہٰذا ان پر بھی پوری توجہ دی جاتی تھی۔ ماسٹر عبدالعزیز خان صاحب نے بھی ان مضامین اور پریکٹیکل کے بارے زبردست تیاری کروائی۔ جب سالانہ امتحان شروع ہوئے پیپر شروع ہونے سے پہلے بھی ماسٹر اعجاز حسین شاہ صاحب ہدایات دیتے کہ سوالات کے حل کرنے میں پہلے تم نے وہ سوال منتخب کرنا ہے جو تم سب سمجھتے ہو کہ مکمل طور پر درست جواب آتا ہے اور آخر میں وہ سوال حل کرنا ہے جس بارے آپ کو شک ہو کہ جواب درست ہے یا شائیدغلط ۔
امتحان کے بعد نتیجہ کا انتظار بھی طلباء کیلئے اہم مرحلہ ہوتا ہے۔ جب میٹرک نتیجہ آیا تو خلاف توقع میں پوری جماعت میں اول آ گیا یہ نتیجہ میرے اساتذہ کے علاوہ وہ خود میرے لیے بھی حیران کن تھا۔کہاں شودر گروپ اور کہاں برہمن گروپ اور اس کی بھی سرداری۔ اس کے علاوہ قصبہ روہیلانوالی میں اس سے پہلے کسی طالب علم نے میٹرک میں ٹاپ نہیں کیا تھا۔ اردگرد کی بستیوں کے طلباء ہی اول آتے رہے تھے۔ میرے والد صاحب کے علاوہ روہیلانوالی کے بزرگوں نے بھی بہت خوشی کا اظہار کیا کچھ بزرگوں نے تو انعام کے طور پر دس روپے بھی دیئے جو اس زمانے میں خاصی رقم سمجھی جاتی تھی۔ ماسٹر عبدالعزیز کی پیش گوئی حرف بحرف سچ ثابت ہو چکی تھی۔ رزلٹ کے بعد ماسٹر عبدالعزیز خان نے صرف اتنا کہا کہ مجھے تو پہلے ہی پتہ تھا۔ اب سوچتا ہوں کہ علم قیافہ بھی کوئی حقیقت ہے یا کسی درویش استاد کی کسی نالائق اور شرارتی شاگرد کو حوصلہ اور اعتماد بخشنے کا کارگر حربہ۔

شیئر کریں

:مزید خبریں